پاکستان اپنے وجود میں آنے کے بعد سے آج تک ایک مستحکم وفاقی جمہوری ریاست میں تبدیل نہیں ہو سکا۔ ایسا ممکن نہ ہونے کے باعث ملک کے دو ٹکڑے ہوئے اور موجودہ دورکا سیاسی ومعاشی بحران اسی صورتحال کا شاخسانہ ہے۔
ملک میں آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی خود مختاری کو یقینی بنانے کی طویل جدوجہد کی گئی جس کا تسلسل اب بھی جاری ہے۔
عاصمہ جہانگیر اس جدوجہد کا ناقابل فراموش کردار ہیں۔ ذوالفقار ہالیپوٹہ نے انگریزی، سندھی اور اردو میں عاصمہ جہانگیر پر شایع ہونے والی تمام تحریروں کو یکجا کرکے سیکڑوں صفحات کی ایک ضغیم کتاب مرتب کی ہے۔ جسے ’’ سینٹر فار سوشل چینج ‘‘ (CSC) نے شایع کیا ہے۔
اردو مضامین کے باب کا عنوان ’’ میرا عنوان محبت ہے‘‘ رکھا گیا ہے۔ میں اس کالم میں اس کتاب میں شامل کچھ مضامین کے چند منتخب حصوں کو آپ کے سامنے پیش کرنا اپنا فرض سمجھتی ہوں۔
عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے ڈاکٹر محمد تقی لکھتے ہیں۔’’ 1969 میں اسکول کی کچھ لڑکیاں مارشل لاء حکام کے خلاف احتجاج کرنے لاہور کے گورنر ہاؤس پر جمع ہوئیں۔ ان میں سے ایک دھان پان سی لڑکی اس مینشن کی دیوار پر چڑھ گئی اور اس پر احتجاج کا سیاہ پرچم لہرا دیا۔
اس طالبہ کو اس کے اسکول، کانونٹ آف جیزز اینڈ میری نے اس وقت تو معطل کردیا مگر آگے چل کر وہ لڑکی جبر کے خلاف ہر محاذ پر جدوجہد، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے انتھک دفاع کا نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں استعارہ بن گئی۔
وہ لڑکی عاصمہ جہانگیر تھی جو پاکستان کا ضمیر اور پنجاب کی وہ شیر دل کارکن تھی جس نے انسانی حقوق کے کارکنوں، سیاسی ورکروں، وکلاء اور انسان دوستوں کی دو نسلوں کو اپنے فکر وعمل سے متاثر کیا۔
عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی پارلیمنٹ کے رکن تھے اور پاکستان کے فوجی حکمرانوں فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے۔
عاصمہ جہانگیر ایم آر ڈی کے کارکنوں اور وکلاء کے ہمراہ سڑکوں پر جدوجہد کرتی نظر آئیں پھر انھیں بھی قید کر دیا گیا، جب جنرل پرویز مشرف نے پاکستان پر چوتھا مارشل لاء مسلط کیا تو عاصمہ جہانگیر ان معدودے چند لوگوں میں سے تھیں۔
جنھوں نے اس کی فوراً مخالفت و مذمت کی۔ کئی سیاسی قائدین، سماجی دھڑے بلکہ بعض بائیں بازو کے لوگ بھی مشرف کی آئین شکن بغاوت کو ایک لبرل جنرل کا انقلاب سمجھ رہے تھے۔ عاصمہ جہانگیر نے ببانگ دہل کہا کہ لبرل ازم سیاسی اور شخصی آزادیوں اور اقدارکا نام ہے جن سے مشرف کا دور دور تک واسطہ نہ تھا۔
عاصمہ جہانگیر کا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف شخصی نہیں تھا بلکہ مضبوط اصولوں پر استوار تھا۔ عاصمہ جہانگیر ایک ایسے پاکستان کی داعی تھیں جو وسیع المشرب اور متنوع قومی ریاست ہو، یعنی ایک ایسا وفاق جس کی بنیاد جمہوریت پر استوار ہو۔
معروف دانشور جاوید قاضی نے ان الفاظ میں عاصمہ کو خراج تحسین پیش کیا ہے’’ میرے خیال میں عاصمہ جیسے لوگ کبھی مرتے بھی نہیں وہ صرف مقام تبدیل کرتے ہیں یا صرف پردہ بدلتے ہیں۔ وہ زندہ رہتے ہیں تاریخ کے صفحات پر اپنی مہک اور تازگی کا احساس ہر وقت دلاتے رہتے ہیں۔
وہ ہماری مارٹن لوتھرکنگ تھیں جو امریکا میں انسانی حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے مارا گیا۔ عاصمہ نے بھی کونسی کسر چھوڑی تھی کہ وہ ماری نہ جائیں۔
جس طرح مارٹن کے پاس امریکا کے لیے ایک خواب تھا، عاصمہ کے پاس بھی پاکستان کے لیے ایک خواب تھا۔ یہ دونوں خواب بھی بہت مماثلت رکھتے تھے۔ مارٹن امریکا میں سیاہ فام باشندوں کے حقوق کی جنگ لڑتا رہا اور عاصمہ بنیادی طور پر اقلیتوں کے حقوق کی جنگ لڑتی رہی۔‘‘
عاصمہ جہانگیر کو یاد کرتے ہوئے وجاہت مسعود رقم طراز ہیں’’ اسی کی دہائی میں عاصمہ نے سلامت مسیح کا مقدمہ لڑا۔ بھٹہ مزدوروں سے بیگار لینے کا مقدمہ ہو یا کم عمر قالین باف اقبال مسیح کا مقدمہ قتل، سندھ میں وڈیروں کی نجی جیلیں ہوں یا بلوچستان کا مقدمہ، عاصمہ جہانگیر انسانی حقوق کے لیے شمشیر براں تھیں۔
جب وقت کا آمر اکبر بگٹی کے خون کا پیاسا ہو رہا تھا تو عاصمہ جہانگیر اکبر بگٹی سے ملنے بلوچستان جا پہنچیں۔ وہ صحافیوں کے حق اظہار کے لیے بھی شمشیر برہنہ تھیں اور عدلیہ کے احترام کی محافظ بھی تھیں۔ عاصمہ جہانگیر کے دل میں جمہوریت کا شعلہ مسلسل فروزاں رہتا تھا۔ عاصمہ جہانگیر کے دل کی آنچ سے آمریت سلگ اٹھتی تھی۔
بیس برس کی عمر میں عاصمہ جیلانی بنام وفاق پاکستان نامی مقدمے میں مارشل لا کے خلاف شہری آزادیوں کا مقدمہ لڑا۔ انھوں نے 1987میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی بنیاد رکھی تھی جب ان کی عمر چھتیس برس تھی۔
عاصمہ جہانگیر نے طویل زندگی نہیں پائی لیکن ان کا ہر سانس کسی بلند اخلاقی اصول کا اثبات تھا۔ انھوں نے جو قدم اٹھایا وہ انسانوں کی محبت کو وسعت دینے کے لیے تھا۔
انھوں نے جب زبان کھولی، ظالموں کو للکارا۔ وہ مذہب پر کچھ عناصر کی خود ساختہ اجارہ داری کی مخالف تھیں۔ حیران کن بات ہے کہ جس خاتون کو پاکستان میں مذہب دشمن قرار دیا جاتا تھا، اسے اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں مذہبی آزادی کے تحفظ کے لیے چھ برس تک عالمی مندوب برائے مذہبی آزادی کا منصب سونپے رکھا۔‘‘
آئین اور قانون کی بالادستی کا احترام کرنیوالے معروف دانشور جسٹس بابر ستار، عاصمہ کے بارے میں اپنے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں ’’ جب 2007 میں مشرف نے ججوں کو معزول کیا تو عاصمہ جہانگیر نے اْن کی بحالی کی پرزور حمایت کی، تاہم عدلیہ کی بحالی کے بعد اپنی کاوش کو مفاد میں بدلنے کی کوئی کوشش نہ کی۔
اس کے بجائے وہ جسٹس چوہدری کے عروج کے زمانے میں سپریم کورٹ کی سب سے بلند آہنگ ناقد بن گئیں کیونکہ وہ دیکھ رہی تھیں کہ اس وقت کی سپریم کورٹ کی فعالیت نمایندہ اداروں اور قانونی طریق کار کو کمزور کر رہی ہے۔
ہماری داغدار سیاسی ( اور عدالتی) تاریخ کا علم رکھنے والی عاصمہ جہانگیر کو کسی طور برداشت نہ تھا کہ عدالت اسٹیبلشمنٹ کا دست و بازو بن کر سویلین حکومت کے پرَ کترنے کی کوشش کرے۔ وہ مذہب اور عقیدے کی تفریق کے بغیر تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق، اور سب سے یکساں سلوک کی قائل تھیں۔
وقار مصطفی اپنے متاثر کن مضمون میں کہتے ہیں۔ ’’ ایک بار بلوچستان میں گاڑی پر حملہ ہوا تو کہنے لگیں کہ ان کی گولیاں ختم ہوجائیں گی مگر میرا جذبہ کم نہ ہوگا۔
27 جنوری1952 کو پیدا ہوئیں۔ 13سال کی عمر میں تشدد دیکھا جب انھیں ایک صحافی اور ایک سیاست دان جنھیں ان کے گھر کے باہر گولی لگی تھی، اسپتال لے کر جانا پڑا۔ ان کے اپنے مطابق انھوں نے بچپن اور لڑکپن میں اپنے گھر میں گفتگو حقوق اور آزادیوں ہی کی سنی اور کہتی تھیں کہ ان کی والدہ تو والد ملک غلام جیلانی کی گرفتاریوں کی عادی ہوچکی تھیں۔
پہلا مظاہرہ 17برس کی عمر میں ایوب حکومت کے خلاف کیا۔ 18سال کی تھیں جب والد کی مارشل لا قوانین کے تحت گرفتاری کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔
1972میں انھی کی اپیل پر سپریم کورٹ نے یحییٰ خان کی حکومت کو اس کے خاتمہ کے بعد غیرآئینی اور یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا۔80 کی دہائی میں ویمن ایکشن فورم بنایا، ضیا الحق کے خواتین کے حقوق کے خلاف بنائے گئے قوانین کے خلاف جدوجہد کی۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی بنا ڈالنے میں شریک ہوئیں اور 1987میں اس ادارے کی سیکریٹری جنرل منتخب ہوئیں۔ انھوں نے جداگانہ طریق انتخاب، مذہبی شناخت پر مبنی شناختی کارڈ اور مذہب کے غلط استعمال کے خلاف جدوجہد کی۔
(جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ