کسی بھی ملک کی ترقی کے بنیادی عوامل کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہر ترقی یافتہ ملک میں یہ بات مشترک تھی کہ ان کا تعلیمی نظام جدید اور سائنسی خطوط پر استوار ہے اور طالب علم کو آغاز سے ہی حقیقت پسندانہ طرز فکر اختیارکرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
جب ہم ابتدائی جماعتوں کے بچوں کو درست حقائق اور تاریخ نہیں بتائیں گے اور غیر سائنسی مفروضوں کو راسخ کردیں گے تو ان کے اندر موجود تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتیں ماند پڑ جائیں گی اور وہ دہری شخصیت کے عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے۔ عملی زندگی میں داخل ہوکر جب وہ کوئی شعبہ اختیارکریں گے تو ایک بند ذہن ان کے آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ بن جائے گا۔ انھیں جو کچھ پڑھایا گیا تھا اس سے ایک مختلف دنیا ان کے سامنے ہوگی۔
یہ کیفیت ان کی شخصیت میں تضاد پیدا کردے گی، جب وہ دلیل سے حقائق کا سامنا نہیں کریں سکیں گے تو مباحثے سے بچنے کے لیے خود کو ایک محدود دائرے میں قید کرنے میں اپنی عافیت جانیں گے۔ انھیں ایک الگ شناخت کی تلاش شروع ہوجائے گی تاکہ وہ خود کو یہ دلیل کر کے مطمئن کرنے لگیں کہ پوری دنیا ان کے خلاف ہے اور انھیں نیست و نابود کر دینا چاہتی ہے۔
یہ رویہ آج ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ ہم مغرب میں ہوں تو وہاں کے تمام فوائد اور سہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں، ان ملکوں میں دیے گئے انسانی اور جمہوری حقوق سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن آخر میں تان یہیں ٹوٹتی ہے کہ یہ لوگ عارضی طور پر ہم سے آگے ضرور نکل گئے ہیں لیکن ایک دن آئے گا جب ہم ان پر غالب آجائیں گے۔
دنیا کے دوسرے ترقی پذیر ملکوں سے آنے والے تارکین وطن مغربی ملکوں کے نظام میں ہمارے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے سوچ اور فکر ہم سے برعکس ہوتی ہے۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ آج نہ صرف یورپ، شمالی امریکا بلکہ عرب ملکوں میں بھی ہمارے لیے ماحول کم سے کم سازگار ہوتا جارہا ہے۔ یہ امر کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تاریخ کا مطالعہ انسان کی ذہن سازی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
اس تناظر میں ہم سب کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے اسکولوں، کالجوں، مدرسات اور جامعات میں درست تاریخ پڑھائی جا رہی ہے۔ ہمارے ارباب اختیار، دانشور اور ذرایع ابلاغ تاریخی شخصیات اور واقعات کی غلط اور غیر حقیقی تصویرکشی تو نہیں کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے میں آج جنگ آزادی کے بارے میں چند حقائق پیش کرنا چاہوں گی۔
1857 کی جنگ آزادی کے بارے میں لکھتے ہوئے گریہ ناک ہوجانا ہماری مجبوری ہے۔ ہم وہ ہیں کہ جن کے خاندانوں نے حسب استطاعت اور حسب توفیق خون کے نذرانے دیے اور جس پر ہم ایسے ہزاروں، لاکھوں افراد اپنا سر فخر سے بلند کرتے ہیں۔
اپنے اپنے شہیدوں کا نام غرور سے لینے کے ساتھ ہی اگر ہم تاریخ کے طالب علم ہیں تو یہ بھی ہماری مجبوری ہے کہ اس واقعہ عظیم کو ماضی حال اور مستقبل کے تناظر میں دیکھیں اور جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ایک طرف برصغیر کا چند صدیوں پر پھیلا ہوا حالیہ ماضی ہمیں دل گرفتہ کرتا ہے، وہیں حال تشویش میں مبتلا کرتا ہے اور مستقبل کے بارے میں بے شمار وسوسے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
تاریخ سہولت کی خاطر صدیوں اور سنین میں تقسیم کی جاتی ہے لیکن درحقیقت یہ واقعات ایک ایسے بہائو کا نام ہیں جس میں اٹھنے والی ہر لہر بظاہر کسی ایک خاص لمحے پر سر اٹھاتی ہے لیکن اس کا آغاز عموماً صدیوں پہلے ہوچکا ہوتا ہے۔
برصغیر پر برطانوی تسلط کے بارے میں ہمارے یہاں عموماً ایک بہت جذباتی رویہ پایا جاتا ہے ہم انگریزوں کو برا بھلا کہتے نہیں تھکتے، جو تاجرکے روپ میں ہمارے ساحلوں پر اترے، جنھوں نے ہمارے شہنشاہوں سے تجارتی مراعات حاصل کیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے آقا بن گئے۔
یہ تمام باتیں حرف بہ حرف درست ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی اور بھی بہت سے حقائق ہیں اور جب تک تمام باتوں کا معروضی انداز میں جائزہ نہ لیا جائے اس وقت تک ہم اپنے حال اور مستقبل کو مستحکم بنیادوں پر غیر کے تسلط سے آزاد دیکھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
ہم یہ سوچنے کی زحمت ذرا کم ہی گوارا کرتے ہیں کہ 1857 میں مغلیہ سلطنت کا سقوط آخر ممکن کیوں کر ہوسکا۔ ہم اس پر بھی توجہ نہیں دیتے کہ وہ کیا اسباب تھے جنھوں نے ہزاروں میل دور بسنے والی ایک غیر قوم کے مٹھی بھر افراد کو وہ طاقت بخش دی کہ انھوں نے ہمیں ہماری ہی سرزمین پر شکست دے دی۔
ہم اس ضمن میں اپنے حکمرانوں کی سیاسی غلطیوں، فوجی کمزوریوں اور انتظامی ناکامیوں پر غور کرنے کے بجائے ان کے شاندار دربار، ان کے شاہانہ جلوس اور جنون کی حد تک پہنچی ہوئی ان کی شاہ خرچیوں کا ذکر نہایت فخر سے کرتے ہیں۔
معروضی حقیقت یہی ہے کہ 1857میں دلی کے سقوط کا آغاز اس سانحے سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔ مغلوں کے زوال کی تمام تر ذمے داری عموما مرہٹوں اور انگریزوں پر ڈال دی جاتی ہے لیکن ایسا کرنے والے اس حقیقت سے آنکھ بند کر لیتے ہیں کہ زوال آمادہ مغل سلطنت کو اپنی بنیادوں سے ہلا دینے میں نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔
1857میں پلاسی کے مقام پر سراج الدولہ کو جو شکست ہوئی اور برطانوی سامراج کس طور مستحکم ہوا اس کی تمام ذمے داری میر جعفرکی غداری کے سر ڈال کر ہم دل کو تسکین دیتے ہیں، لیکن اس تاریخی حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ اس شکست کے صرف 7برس بعد 1764 میں بکسر کے مقام پر نواب بنگال میر قاسم، نواب شجاع الدولہ اور شہنشاہ ہند شاہ عالم ثانی کے لشکر جرار اور ان کی متحدہ قوت کو انگریزوں نے مٹھی بھر برطانوی افسروں اور چند ہزار کرائے کے سپاہیوں سے شکست فاش دے کر یہ ثابت کردیا تھا کہ ہندوستانی سلطنت کے دن گنے جاچکے اور ہمارے پاس ان کے مقابلے کا کوئی بھی جرنیل نہیں۔
1857کی جنگ آزادی کی مکمل ناکامی کی وجوہ جاننے کے لیے ہمیں ان عمومی رویوں کا جائزہ لینا ہوگا جو صدیوں سے ہمارے مشرقی معاشرے کا روزمرہ ہیں۔ اس بارے میں آہ و زاری کرتے ہوئے ہمیں اس معاملے کو آغاز سے دیکھنا چاہیے اور ہمیں یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنی آزادی اور خود مختاری کو کن عیش کوشیوں کے عوض غیروں کے ہاتھوں گروی رکھتے آئے ہیں۔
تاریخ کی عجب ستم ظریفی ہے کہ برصغیر جس کے مسلمانوں اور ہندوئوں، دونوں ہی نے اپنی عورتوں کو پس دیوار رکھا۔ اسی برصغیرکی قسمت کے بنیادی فیصلے دو عورتوں نے کیے۔ برصغیر سے تجارت کا فرمان ملکہ الزبتھ اول کے نوک قلم سے نکلا اور اس کی غلامی پر مہر تصدیق ملکہ وکٹوریہ نے ثبت کی۔ یہ ملکہ الزبتھ اول تھی جس نے 31 دسمبر 1599 کو لندن کے چند تاجروں کو ایک شاہی فرمان کے ذریعے یہ اجازت دی کہ وہ دی آنریبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ایک تجارتی ادارہ قائم کرسکتے ہیں اور ہندوستان سے تجارت کا آغازکرسکتے ہیں۔
ہم برصغیر کے جاہ و جلال اور شان و شوکت پر نظر ڈالتے ہوئے جب دوسری اقوام کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وقایع نگار ہمیں بتاتے ہیں کہ 1599 سے ایک سو سات برس پہلے 1492 میں نوآبادیاتی نظام کا آغاز ہوچکا تھا اور تمام مغربی اقوام شاندار مہمات میں مصروف تھیں، ان مہمات کا مقصد نئی سرزمینوں پر اپنا فوجی تسلط قائم کرنا اور سمندری راستوں کے ذریعے ساری دنیا سے تجارت کرنا تھا۔
ایک طرف ان کے تجارتی بحری بیڑے دنیا کے سات سمندروں کی سیاحی کررہے تھے تو دوسری طرف ان کے بڑے بڑے شہروں میں بینک اور چیمبر آف کامرس قائم ہورہے تھے۔ مار سیلز میں پہلے چیمبر آف کامرس کی داغ بیل پڑتی ہے۔ 1600 میں ایمسٹرڈیم میں بینک قائم ہوتا ہے۔ 1600 میں ہی ستر ہزار پونڈ کے خطیر سرمائے سے ایسٹ انڈیا کمپنی وجود میں آتی ہے۔
یورپ میں بینکاری نظام اس تیزی سے ترقی کرتا ہے کہ 1608 میں ’’چیک ‘‘ سے لین دین رائج ہوتا ہے اور 1610 میں ایسٹ انڈیا کمپنی پہلی مرتبہ شیئر ’’حصص‘‘ کا اجراء کرتی ہے۔
(جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ