ترکِ وطن کرکے پاکستان آنے والوں میں ایک صاحب ایس ایم سہیل تھے۔ بہار سے آئے تھے جہاں وہ سہیل وکیل کے نام سے مشہور تھے۔ ایک روشن خیال اور علم دوست قانون داں۔رخصت ہونے سے پہلے وہ اپنے بیٹے طارق سہیل کو ڈاکٹر بنا گئے اور اس کے ساتھ ہی میڈی کیئر اسپتال کا تحفہ دے گئے ،آج یہ شہر کے مشہور اور نامدار اسپتالوں میں سے ایک ہے۔
ڈاکٹر طارق سہیل کا حلقہ یاراں ابتدا سے روشن خیال اور ترقی پسند افراد پر مشتمل رہا ، سبط حسن ان کے مرشد تھے۔ سہیل وکیل کے بیٹے اور سبط حسن کے شاگرد ڈاکٹر طارق سہیل نے ڈاکٹر جعفر احمد کی سربراہی میں چند دنوں پہلے ایک ادارہ انسٹیٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ قائم کیا ہے جس کے افتتاح کے لیے لاہور سے آئی اے رحمن اور ڈاکٹر مبارک علی کو زحمت دی گئی۔
افتتاحی تقریب میں ڈاکٹر جعفر احمد نے اس ادارے کے قیام کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان معاشرتی سطح پر تہہ در تہہ مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔گہرے تضادات جنم لے رہے ہیں، پرانے سانچے ٹوٹ رہے ہیں، نئے سانچے ابھر رہے ہیں۔ داخلی ، عالمی اقتصادی اور سیاسی عوامل کے زیرِ اثر غیر معمولی تغیر پاکستانی معاشرے میں پیدا ہو رہا ہے۔ یہ سب تغیرات جوکچھ لوگوں کی نظر میں منفی ہونگے،کچھ ان کو مثبت قرار دینگے ، یہ سب ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ریاست بحیثیت مجموعی اس چیلنج کی طرف سے غافل ہے۔
وہاں کی دنیا ہی کچھ اور ہے،کس سیاسی چہرے کو منظر سے ہٹانا ہے،کس کو لاکر بٹھانا ہے، ریاستی مشینری برسوں سے اس کام پر لگی ہے۔ مقتدر طبقات کو اپنی خوشحالی کے حصار سے باہر دیکھنے کی نہ فرصت ہے نہ ضرورت ،اہلِ زرکی نظریں تجوریوں سے ہٹتی نہیں۔ متوسط طبقے کا بہت بڑا حصہ صارفیت کی معیشت کے گرداب میں پھنس چکا ہے۔
سپر اسٹوروں اور شاپنگ مالوں کے باہر ٹریفک جام ہوتا ہے اوراندر کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ ایسے میں غریب طبقات جن کا خون اور پسینہ چین اسٹوروں کی چینوں کو زندہ رکھتا ہے ، فصلوں اور کارخانوں اور دوسرے شعبوں کی آبیاری کرتا ہے، خود نانِ جویں کو ترسنے پر مجبور ہے۔ ان کی طرف سے سب کی آنکھیں بند ہیں۔ ایسے میں جب کہ ٹریڈ یونینیں تقریباً ختم کردی گئی ہیں،کسان سبھائیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں، طلبا تنظیموں پر پابندی عائد ہے اور اب سول سوسائٹی کو بھی کام کرنے سے روک دیا گیا ہے لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ عوام دوست حلقے اپنے بکھرے ہوئے شیرازے کو یکجا کریں۔ اپنی استطاعت میں اضافہ کریں۔ اپنے کاموں کو ہم آہنگ کریں اور ایک بڑا سیاسی و سماجی محاذ تشکیل دیں، جو آج کی عوام دشمن قوتوں کی مزاحمت کرے۔
افتتاحی تقریب میں معروف صحافی اور شاعر محمود شام نے کہا کہ ہر عمرکی پاکستانی نسل اس وقت تذبذب، تجسس، تفکر، تردد اور تشویش میں مبتلا ہے۔ تاریخ میں جس نفسا نفسی، طوائف الملوکی اور ادبارکا ذکر پڑھتے رہے ہیں ہم سب ان بحرانوں کا عملی تجربہ کر رہے ہیں۔اس افراتفری کے عالم میں یقینا ایک ایسے مرکز تحقیق کی ضرورت تھی ، جو پاکستان کے 20 کروڑ جیتے جاگتے انسانوں کو درپیش سیاسی، اقتصادی ، سماجی ، مذہبی ، نفسیاتی ، فکری مسائل کا احاطہ کرے۔
بات دراصل یہ ہے کہ دانش و دانائی کسی بازار میں نہیں ملتیں۔ وہ سالہا سال دانشوروں اور خرد مندوں کے ذہن میں پرورش پاتی ہیں جسے وہ تبرک کے طور پر سوچنے و الوں میں بانٹتے ہیں۔ قدیم ہندوستان اور یونان میں یہ کام فلسفی، رشی اورگیانی کرتے تھے ، زمانہ بدلا ، چھاپہ خانے عام ہوئے، مخطوطات سے بات کتابوں تک پہنچی اور اب کی دنیا ہی کچھ اور ہے۔ عام انسان کی انگلی کی ایک جنبش سے دنیا کے مختلف علوم کے بارے میں بلامبالغہ لاکھوں صفحے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ ایک طرف علوم کی یہ فراوانی ہے اوردوسری طرف ہمارے یہاں ریاستی سطح پر سماجی علوم اور سائنسی تحقیق سے وہ بے اعتنائی ہے کہ جس کا اندازہ بھی محال ہے۔
انفرادی سطح پر ہمارے چند اہل علم معروضی تاریخ اور سماجی علوم کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں جن میں حمزہ علوی ، سبط حسن ، علی عباس جلال پوری اور ڈاکٹر مبارک علی بالکل سامنے کے نام ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی نے تاریخ کے موضوع پرکئی کتابیں لکھی ہیں اور ان میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ 1947ءکے بعد عوام کو پاکستان کی معروضی تاریخ سے کیوں دور رکھا گیا۔ انھوں نے لکھا :
” سیاستدان اور فوجی حکمران جب اقتدار میں آتے ہیں تو اپنی تاریخ خود لکھواتے ہیں۔ اس لکھی ہوئی تاریخ میں کوئی مجرم نظر نہیں آتا۔ سب ہی قوم و ملک کے ہمدرد ہوتے ہیں لہٰذا حکومتوں کے بدلنے کے ساتھ ہی تاریخ کی نصابی کتابیں بھی بدلتی رہتی ہیں۔کبھی ایوب خان ملک کے ہیرو ہوتے ہیں تو کبھی ذوالفقار علی بھٹو اور پھر ذوالفقار علی بھٹو تاریخ کے صفحات سے غائب ہوجاتے ہیں اور ضیاءالحق مردِ مومن بن کر ابھرتے ہیں اوراس طرح تاریخ میں شطرنج کا یہ کھیل جاری رہتا ہے۔
یہی صورت واقعات کی ہوتی ہے۔ 1965ءکی جنگ کو فتح وکامرانی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو 1971ءمشرقی پاکستان کے المیہ پر خاموش رہا جاتا ہے۔ اسمبلیوں کے بننے اور ٹوٹنے کے عمل کو بھی اسی طرح وقت کے ساتھ نئے زاویہ سے پیش کیا جاتا ہے ، اگر تاریخ کو مسنح کردیا جائے ، واقعات کو ایک ہی نقطہ نظر سے بیان کیا جائے اور ان کا تنقیدی تجزیہ نہ کیا جائے تو اس صورت میں ایک ایسا تاریخی شعور ابھرتا ہے جوگمراہی اور تنگ نظری کی جانب لے جاتا ہے۔اس قسم کی تاریخ پڑھنے والا صرف ایک ہی سچ سے واقف ہوتا ہے۔اسے اندازہ نہیں ہوتا کہ واقعات کو دوسرے نقطہ نظر سے کس طور دیکھا جا رہا ہے۔ لہٰذا تاریخ کا یہ تنگ نقطہ نظر، شعورکو بھی تنگ کر دیتا ہے اور واقعات کو وسیع تناظرکے بجائے تنگ دائرے میں دیکھا جانے لگتا ہے۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایچ آر سی پی کے آئی اے رحمان نے اس طرف اشارہ کیا کہ تاریخ کے ساتھ ہماری سول اور فوجی اشرافیہ نے جوکھلواڑکیا ہے اس نے لوگوں کو ذہنی انتشارکا شکارکر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی ملک کی تاریخ ہی اس کے لوگوں کے تشخص کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
انھوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب میں طالب علم تھا تو میں نے دنیا کی تاریخ پڑھی تھی پھر جب میری بیٹی تاریخ پڑھ رہی تھی اور میں نے اس کی کتاب کی ورق گردانی کی تو میں حیران رہ گیا کہ ہماری نئی نسل کو تاریخ کے بارے میں کیا جھوٹ پڑھایا جا رہا تھا۔ ڈاکٹر طارق سہیل نے اس موقعے پرکہا کہ IHSR کے قیام کا خیال نادر اور انوکھا نہیں۔ ایسے کئی ادارے قائم کیے جا چکے ہیں ، معاملہ صرف یہ ہے کہ ادارے قائم کیے جائیں اور وہ فعال اور سرگرم لوگوں کی سربراہی میں اپنا کام کسی رکاوٹ کے بغیر کرتے رہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس انسٹیٹیوٹ کے قیام اور اس کے دائرہ کار کے بارے میں وہ اور ڈاکٹر جعفر تین برس تک کام کرتے رہے اور اب اس منزل تک پہنچے ہیں کہ اس ادارے کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کریں۔
ہمارے سماج میں دولت مند تو بہت ہیں ، وہ اپنے مال و دولت کا مظاہرہ عالی شان گھروں ، شاندارگاڑیوں اور لباس سے کرتے ہیں،کچھ ایسے بھی ہیں جوکلائی پر ایک کروڑ کی گھڑی باندھ کر اتراتے ہیں۔ ڈاکٹر طارق سہیل نے جس فراخ دلی سے آئی ایچ ایس آرکی مالی معاونت کی ہے، اس پر وہ مبارکباد اور داد کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ ڈاکٹر جعفر احمد کا انتخاب انھوں نے کیا اور درست کیا۔
وہ ایک علم دوست اور آنکھوں کا تیل جلا کر تاریخ اور سماجی علوم پرکام کرنے والے شخص ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان دو افراد کا سمبندھ ہمارے سماج کے لیے نیک شگون ثابت ہوگا اور یہ ادارہ عوامی تاریخ مرتب کرنے میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔آنے والے دنوں میں ہماری نئی نسل کے لیے معروضی تاریخ سے آگہی لازمی ہے۔ ہم ایک ترقی یافتہ اور نمو پذیر سماج اسی وقت بن سکتے ہیں جب ہمیں متبادل تاریخ سے واقفیت ہو۔ ہم جانیں کہ ہمارے کسان، مزدور، چرواہے، پنساری، عورتیں اور اقلیتیں سماج میں کس طرح پیچھے رکھے گئے اور آج بھی یہی روایت چلی آرہی ہے، تب ہی ہمارے یہ پس ماندہ طبقات ، حکمرانی کے دائرے تک نہیں پہنچ پاتے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)