سپریم کورٹ نے پی ٹی وی کے ایم ڈی کی عدم تقرری از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے پرویز رشید ، عطا الحق قاسمی ، فواد حسن فواد اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو نوٹس جاری کر کے وضاحت طلب کر لی ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل دو رکنی بنچ نے پاکستان کے سرکاری ٹی وی میں ایم ڈی کے تقرر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔ عدالت کو سیکرٹری اطلاعات احمد نواز سکھیرا نے بتایا کہ 26 فروری 2016ءسے پی ٹی وی میں ایم ڈی کا عہدہ خالی ہے۔ 23 ستمبر 2017ءکو اس کے لئے اشتہار جاری کیا گیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا ایک سال سات ماہ تک ایم ڈی لگانے کی سمری نہ بھجوانے کا ذمہ دار کون ہے ؟ عدالت کو بتایا گیا کہ اس دوران عطا الحق قاسمی پی ٹی وی کے چیئرمین بورڈ تھے ۔ چیف جسٹس کے پوچھنے پر بتایا گیا کہ ان کی تنخواہ پندرہ لاکھ تھی اور دو سال میں انہوں نے 27 کروڑ روپے خرچ کئے ۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان کا تقرر غیر قانونی تھا ۔ کیوں نہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو نوٹس جاری کریں ؟
پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤ نٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی میں انکشاف کیا گیا کہ پی ٹی وی کے سابق چیئرمین کو تقریباً 5 کروڑ کی تنخواہ کی مد میں ادائیگی کی گئی جبکہ ساڑھے 6 کروڑ روپے ان کے پروگرام کی تشہیر کیلئے اخبارات کو اشتہارات دیئے مگر نتیجہ صفر رہا ۔ مزید برآں انکشاف کیا گیا کہ چائے ، بسکٹ پر 24 لاکھ ، موبائل پر ساڑھے 5 لاکھ کے اخراجات ، ایک کی بجائے تین گاڑیاں عطا الحق قاسمی نے رکھی ہوئی تھیں ۔ انکشافات پر کمیٹی کے ارکان نے سر پکڑ لئے ۔
عطا الحق قاسمی ہوں یا اس سے پہلے ڈاکٹر محمد مالک سب کے بارے میں تحقیقات ہونی چاہئیں ۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ پی ٹی وی کو ہر ماہ کروڑوں روپیہ غریب لوگ بجلی بلوں کے ساتھ ادا کرتے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ غریبوں کی یہ جمع پونجی کہاں خرچ ہوتی ہے؟ عطا الحق قاسمی سے مجھے یاد آیا کہ میں نے ایک مرتبہ سرائیکی کے عظیم شاعر احمد خان طارق مرحوم جو اُس وقت علیل تھے ‘ کی امداد کیلئے حکومت کو درخواست بھجوائی ۔ قاسمی صاحب کمیٹی کے ممبر تھے ‘ میں نے ان سے استدعا کرائی تو قاسمی صاحب نے کہا کہ ”احمد خان طارق کون ہے ؟“تو اس پر میں نے کہا کہ اسلئے تو ہم صوبہ چاہتے ہیں کہ لاہور میں بیٹھے اتنے بڑے ادیب کو سرائیکی وسیب کے اتنے عظیم شاعر کے بارے میں پتہ ہی نہیں کہ وہ کون ہے ؟ لاہور کے خالد احمد کو علاج کیلئے بھاری امداد دی گئی ۔ اسے کون جانتا ہے؟ اس کے باوجود ہمیں اس پر اعتراض نہیں لیکن وسیب کے احمد خان طارق اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ قیس فریدی ، عاشق بزدار ،امان اللہ ارشداور دوسرے بہت سے شاعر ‘ ادیب ‘ لکھاری سخت علیل ہیں ‘ مگر آج تک ان کے علاج کیلئے کچھ نہیں کیا گیا ۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ بہت سے ادیب ‘ شاعر ‘ دانشور اور سرائیکی فنکار جن کے علاج کیلئے ہم فریادیں کر کر تھک گئے مگر حکمرانوں نے توجہ نہ دی ۔ اب بھی صورتحال یہ ہے کہ بہت سے فنکاروں میں ایک نام نسیم سیمی کا بھی ہے ‘ وسیب کی اتنی بڑی آواز سسک سسک کر مر رہی ہے ۔ حکومت پنجاب سائیں ظہور کو تو بیٹی کی شادی کیلئے تین لاکھ روپے دے دیتی ہے مگر نسیم سیمی کے علاج کیلئے ایک روپیہ بھی نہیں ۔ آخر یہ غیر مساویانہ امتیازی سلوک کیوں؟
عطا الحق قاسمی کا کیس آیا ہے تو میں عدالت عالیہ سے درخواست کروں گاکہ وہ پی ٹی وی ملتان کے مسائل کا بھی از خود نوٹس لیں کہ پی ٹی وی کا یہ سنٹر ہم نے برس ہا برس کی جدوجہد کے بعد حاصل کیا مگر افسوس کہ محض سرائیکی وسیب کے سنٹر ہونے کی بنیاد پر اسے پی ٹی وی میں سنٹر ہی تسلیم نہیں کیا جا رہا ۔ اس بارے میں عرض کروں کہ پی ٹی وی ملتان سنٹر میں فنڈز نہ ہونے کے باعث پروڈکشن کا شعبہ بند ہے ۔ پرانے ڈرامے اور پروگرام چلائے جا رہے ہیں اور حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سرائیکی پروگراموں کی جگہ لاہور سنٹر سے درآمد شدہ گھسے پٹے ڈرامے بھی چل رہے ہیں۔ ملتان سنٹر کا مقصد ہی فوت ہو گیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کی طرف سے ایک طرف فنڈز کی کمی کا بہانہ بنایا جاتا ہے تو دوسری طرف کروڑوں روپے اڑا دیئے گئے۔پی ٹی وی ملتان سنٹر گورنمنٹ آف پاکستان کے خصوصی فنڈ ” پی ایس ڈی پی “ سے مکمل ہوا۔ صرف عمارت نہیں بلکہ نشریات سے متعلق تمام سامان اس فنڈ سے لیا گیا ۔ پی ٹی وی بغیر محنت اور بغیر کسی مشقت کے بجلی بلوں کے ذریعے کروڑوں حاصل کرتا ہے ۔ نہ صرف یہ کہ وہ رقم اللوں تللوں پر خرچ ہوتی ہے بلکہ پی ٹی وی ملتان کی تعمیر کے نام پر مختلف حیلے بہانوں سے پی ایس ڈی پی سے فنڈز حاصل کر رہی ہے۔ پی ٹی وی ملتان پرویز مشرف دور سے مسلسل ” زیر تعمیر ہے “ ۔
پاکستان ٹیلیویژن کا آغاز 26 نومبر 1964 ءکو ہوا۔ پچاس سال مکمل ہونے پر گزشتہ سال گولڈن جوبلی کی رنگا رنگ تقریبات منعقد کی گئیں ۔ پی ٹی وی کے تمام سنٹروں کو دلہن کی طرح سجایا گیا ۔ تمام سنٹروں پر کیک کاٹے گئے اور تمام سنٹروں سے پاکستان میں بولی جانیوالی زبانوں میں گیت اور نغمات نشر کئے گئے ۔ پی ٹی وی نے نیشنل ہک اپ پر تمام پروگرام براہ راست دکھائے ۔ سپیشل ٹرانسمیشن میں پی ٹی وی ہوم کوئٹہ ، پشاور، اسلام آباد، لاہور ، مظفر آباد اور کراچی سنٹر سب موجود تھے ، اگر موجود نہیں تھا تو ملتان پی ٹی وی سنٹر۔ سرائیکی وسیب کے کروڑوں افراد خصوصاً وہ دیہات جہاں کیبل نہیں اور وہاں پی ٹی وی کے علاوہ کوئی دوسرا چینل نظر نہیں آتا، کے ذہن پر کیا گزری ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ اس سے ثابت ہوا کہ محرومی ، حق تلفی اور نا انصافی سے صرف دلوں میں دراڑہیں ہی نہیں آتیں ، جغرافےے بھی بدل جاتے ہیں ۔ کیا حکمران اس پر سنجیدگی سے غور کر کے سرائیکی وسیب کے مسئلے حل کریں گے؟
عطا الحق قاسمی پی ٹی وی کے چیئرمین بنے تو میں نے ایک ایک درخواست میں لکھا کہ پی ٹی وی ملتان سنٹر کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔ آپ توجہ دیں۔ میں نے لکھا کہ پی ٹی وی ملتان کے سٹاف کےلئے کالونی منظور شدہ ہے ۔ ہزار درخواستوں کے باوجود اس طرف توجہ نہیں دی گئی ۔ رہائش گاہوں کی سہولت نہ ہونے کے باعث کوئی ملتان آنے کو تیار نہیں ۔ پی ٹی وی ملتان کو ایسے جی ایم کی ضرورت ہے جو سرائیکی وسیب کی تہذیب ‘ ثقافت اور جغرافیہ سے واقفیت رکھتا ہو ۔ جس کے دل میں سرائیکی ماں بولی کی محبت ہو ۔ تھوڑا عرصہ کیلئے عظیم گلوکارہ ثریا ملتانیکر کی صاحبزادی راحت ملتانیکر پی ٹی وی ملتان کی جی ایم بنیں تو پی ٹی وی میں انقلاب آ گیا ۔ شاعروں ‘ ادیبوں اور گلوکاروں کو اپنے فن کے اظہار کے نہ صرف مواقع ملے ‘ بلکہ ان کی مالی ضرورتیں بھی پوری ہوئیں۔ لاہور سے یا کسی دوسرے علاقے سے درآمد شدہ جی ایم تو محض ہفتے میں ایک آدھ دن حاضری لگوانے آتے ہیں ‘ ان کو اس خطے کی پروموشن سے کیا غرض ؟ پی ٹی وی ملتان کے کیمرے لاہور گئے جو آج تک واپس نہیں آئے ۔ سٹاف کی مسلسل کمی ہے ۔ ہماری اور تو کوئی سنتا نہیں ‘ اس لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ وہ پی ٹی وی ملتان کے مسئلے کا بھی از خود نوٹس لیں کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پی ٹی وی بجلی بلوں کے ساتھ میپکو کے ذریعے آٹھ سے دس کروڑ روپیہ ہر ماہ سرائیکی وسیب کے غریبوں سے سالہا سال سے وصول کرتا آ رہا ہے۔اور عطاءالحق قاسمی سے یہ بھی پوچھیں کہ اتنی بھاری تنخواہ لینے کے باوجود انہوں نے پی ٹی وی ملتان کے لئے کیا کیا؟
فیس بک کمینٹ