دو دن پہلے سوشل میڈیا پر عظیم سرائیکی شاعر سئیں شاکر شجاع آبادی کے فوت ہونے کی افواہ اڑا دی گئی اور یہ خبر شیئر ہوتے ہوتے پورے ملک میں پھیل گئی۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کے دفاتر میں ٹیلیفون کا تانتا بندھ گیا۔ ہم نے فوری طور پر سئیں شاکر شجاع آبادی سے رابطہ کیا ، ان کے بیٹے نوید شاکر نے نہ صرف یہ کہ خبر کی تردید کی بلکہ اپنے ابو سئیں شاکر شجاع آبادی سے بات بھی کرائی۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ‘ اس سے پہلے بھی اس طرح کی افواہیں اڑائی گئیں اور یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ شاکر شجاع آبادی نے کہا کہ میری تو کسی سے کوئی مخالفت نہیں ، البتہ وسیب مخالف اس طرح کی افواہیں اڑاتے رہتے ہیں کہ میری زندگی اپنے وسیب کے لئے وقف ہے۔ چند سال پہلے اس طرح کی افواہ اڑائی گئی تو سرائیکی کے عظیم شاعر سئیں احمد خان طارق ان دنوں حیات تھے ‘ انہوں نے بہت بڑی بات کی ، ان کا کہنا تھا کہ ” شاعر تو مر کر بھی زندہ رہتا ہے۔ نہ جانے یہ کون لوگ ہیں جو وسیب کے نامور شاعر شاکر شجاع آبادی کی وفات کی خبر اڑاتے ہیں۔ “ سئیں احمد خان طارق کا ذکر آیا ہے تو میں عرض کرتا چلوں کہ سئیں شاکر شجاع آبادی کی طرح سئیں احمد خان طارق بھی سرائیکی کے عظیم شاعر تھے ‘ وہ 10 فروری 2017ءکو فوت ہوئے اور آج ان کے قصبے شاہ صدر دین میں دوسری برسی منائی جا رہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر ذی روح نے ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ یقینا سئیں احمد خان طارق کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے۔
بات ہو رہی تھی شاکر شجاع آبادی کی تو عرض یہ ہے کہ شاکر شجاع آبادی کو جہاں بہت سے دوسرے اعزازات حاصل ہیں وہاں ان کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ سرائیکی شاعری میں متفرق اشعار شاکر صاحب نے لکھے اور اگر ہم ادبی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ا±ردو شاعری میں علامہ اقبال نے بھی متفرق اشعار لکھے تھے۔حقیقی بات یہ ہے کہ ادب کے حوالے سے شاکر شجاع آبادی ایک شخص کا نہیں ایک عہد کا نام ہے ، اپنی شاعری کے ذریعے شاکر نے ایک زمانے کو متاثر کیا ہے ، اس کے متاثرین کی تعداد لاکھوں سے نکل کر کروڑوں تک پہنچ چکی ہے ، اب پاکستان کے علاوہ دنیا کے ہر ملک میں شاکر کے چاہنے والے پرستار موجود ہیں۔ خالقِ کائنات نے ہمارے وسیب کی مٹی کو خصوصی نوازشات سے نوازا ہے۔ یہ خطہ بلاشبہ زرخیز بھی ہے اور مردم خیز بھی ، زرخیزی کا عالم یہ ہے کہ یہ علاقہ پورے ملک کی مجموعی خوراک و لباس یعنی کپاس و گندم کا 70فیصد حصہ مہیا کر رہا ہے اور معدنیات میں تیل ، گیس کے علاوہ ڈیرہ غازی خان سے حاصل ہونے والی یورینیم کی مالیت کھربوں میں ہے۔ اس علاقے کی زرخیزی کے ساتھ ساتھ مردم خیزی کا نظارہ اگر کرنا ہو تو زیادہ دور جانے یا تاریخی جھرونکوں میںجھانکنے کی چنداں ضرورت نہیں ، صرف اتنا کریں کہ آج کے شاکر شجاع ا?بادی کو پڑھ لیں آپ کو پوری حقیقت سمجھ آجائے گی کہ اس دھرتی نے کیسے کیسے سپوت پیدا کئے۔وسیب کی زمین کے ساتھ ساتھ سرائیکی زبان کو بھی اللہ تعالیٰ نے خصوصی انعام و اکرام سے نوازا ہے ، اس زبان کی نرمی ، ملائمت اور لطافت اپنی مثال آپ ہے ، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے بقول حرف کی حلاوت‘ بیان کی چاشنی اور شعر کی غنائیت نے سرائیکی زبان کو دنیا کی میٹھی ، منفرد اور ممتاز زبان بنا دیا ہے۔ سرائیکی پیار ، محبت ، امن اور شانتی کے رچاﺅ میں رَچی ہوئی ایسی مٹی ہے جہاں محبت و ا±لفت اور امن و دوستی کے پیڑ ا±گتے ہیں اور ان پیڑوں کی شاخوں پر یادوں کے ایسے حسین پھول کھلتے ہیں جن کی دلکش خوشبو کبھی بابا فرید کی شاعری ، کبھی سلطان باہو کے بیت ، کبھی خواجہ فرید کی کافی اور کبھی شاکر شجاع آبادی کے دوہڑے کی شکل میں ہماری سانسوں کو مہکا دیتی ہے ، اس مہک اور خوشبو سے سرائیکی وسیب میں بسنے والے سرائیکی سندھی ، پنجابی ، بلوچ پشتون اور دوسری زبانیں بولنے والے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں ، بلاشبہ دھرتی ماں ہے اور اس کی گود میں پلنے والے سب اس کے بیٹے ، لہٰذا تمام بیٹوں کیلئے ماں کی محبت اور سخاوت برابر ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اس ماں دھرتی نے ہمیں ایسے ایسے سپوت دئیے ہیں کہ جن پر جتنا ناز کریں کم ہے ، حریت کے حوالے سے احمد خان کھرل ، مولانا عبید اللہ سندھی ، اسلم خان ملغانی ، خواجہ فرید اور نواب مظفر خان شہید ، ایسے سینکڑوں نام ہیں جن پر تاریخ انسانی ہمیشہ ناز کرتی رہے گی۔عظیم اسلامی سلطنت ملتان کے فرمانبردار نواب مظفر خان شہید کا نام آئے تو سر احترام سے جھک جاتا ہے ، نواب مظفر خان شہید نے 2جون 1818ءکو قلعہ ملتان کا پنجاب کے سکھ حکمران رنجیت سنگھ کی فوجوں کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کرکے سرائیکی قوم کا سر ہمیشہ کیلئے فخر سے بلند کر دیا ہے ، نواب مظفر خان شہید جن کا تعلق شجاع آباد سے تھا ، ایک ایک کرکے اپنے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ماں دھرتی پر قربان کردیے مگر حملہ آوروں کے سامنے سرنگوں نہ ہوئے ، تقریباً دو صدی بعد اس جغرافیے پر قبضے کے بعد وسیب کی ثقافت پر حملے شروع ہو گئے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ