نریندر مودی کی مسلمان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، وہ شروع دن سے مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلتا آ رہا ہے ۔ اس کی مسلمان دشمنی اس کا نفسیاتی مسئلہ ہے ۔ دوسرا اس پر الیکشن کا بھوت سوار ہے ۔ چونکہ وہ جن نعروں پر کامیاب ہوا ‘ اس میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں ہوا ۔ بھارت میں اس کے خلاف سخت نفرت ہے ۔ جب سے وہ بر سر اقتدار آیا ہے، وہاں عام آدمی کی مشکلات بڑھ گئی ہیں اور مودی سرکار کے خلاف سخت اشتعال پایا جاتا ہے ۔ اس کے اثرات کو زائل کرنے کیلئے وہ جنگ کا ڈرامہ رچا رہا ہے ۔ وہ ایک طرح سے کرائم ڈیزائنر مشہور ہے ‘ اسے گجرات کا قصاب بھی کہا جاتا ہے ۔ اس پر الیکشن کا اتنا بھوت سوار ہے کہ وہ اسے ہر حال میں جیتنا چاہتا ہے ‘ اسے انسانی قتل کی کوئی پرواہ نہیں ۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ پٹھانکوٹ اور پلوامہ کے حملے بھارت نے خود کرائے اور الزام پاکستان پر دھر دیا، یہ حملے مودی سرکار کے کرائم ڈیزائنروں کا شہکار ہے ۔ حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ بھارت ہر حال میں پاکستان پر جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے ، اس کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری قوم متحد ہے ۔ اس مسئلے پر تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر آنا ہوگا ۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اہمیت کا حامل ہے ‘ مگر آل پارٹیز کانفرنس بھی ہونی چاہئے اور سرائیکی جماعتوں سمیت ملک کی تمام جماعتوں کو اس میں شرکت کی دعوت ملنی چاہئے ۔ پاکستان کو بھارت کے زہریلے پروپیگنڈے کے ازالے کے لئے ہر فورم استعمال کرنا چاہئے ۔ اقوام متحدہ ‘ یورپی یونین کے پاس بھی وفود بھیجنے چاہیں ‘ خصوصاً اسلامک بلاک متحرک کرنا ضروری ہے اور او آئی سی کے ہونیوالے اجلاس کے منتظمین سے پوچھا جانا چاہئے کہ وہ بھارت جو کہ کشمیری مسلمانوں کا قاتل ہے ، جس کے ہاتھ ستر سالوں سے مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اسے کس بنیاد پر او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور بھارتی وزیر خارجہ ششما سوراج جو کہ مسلمان دشمنی میں بدنام ہے ‘ اسے کیا حق حاصل ہے کہ وہ او آئی سی کے اجلاس میں شریک ہو ۔ یہ بات حکومت کو ماننی چاہئے کہ حکومتی ذرائع ابلاغ بھارت کے زہریلے پروپیگنڈے کا توڑ کرنے میں ناکام رہے ‘ البتہ پرائیوٹ ٹی وی چینلز اور پاکستانی اخبارات جن کا حکومت نے گلا دبایا ہوا ہے ‘ بھارتی پروپیگنڈے کا موثر جواب دے رہے ہیں اور بھارت کی طرف سے مسلط کی گئی خود ساختہ جنگ کے ڈھول کا پول کھول رہے ہیں اور دنیا کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گردی کا شکار ہے اور بھارت کی طرف سے پھیلا ئی گئی دہشت گرد کاروائیوں کا پوری دلیری کے ساتھ مقابلہ کر رہا ہے ۔ پرائیویٹ چینل اور اخبارات نے بھارتی افواہ ساز فیکٹریوں کے ناک میں دم کر کے رکھ دیا ہے اور بھارت کی طرف سے پاکستان کو تنہا اور بدنام کرنے کی کوشش ناکام بنا دی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کا سوشل میڈیا بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے اور بھارتی جارحیت کے مسئلے پر پرائیویٹ میڈیا اور سوشل میڈیا نے پوری قوم کو متحد کر دیا ہے ۔ اب پاکستان کے 22 کروڑ انسانوں کی ہمدردیاں پاک فوج کے ساتھ ہیں اور پاکستان کے ہر شہری کی زبان پر بھارتی جارحیت کے خلاف سخت نفرت اور غصے کے الفاظ موجود ہیں ۔ اگر ہم سرائیکی وسیب کو دیکھیں تو بھارت نے ہمیشہ بہاولپور سیکٹر کو نشانہ بنایا کہ چولستان کا وسیع سیکٹر ہمیشہ بھارتی جارحیت کے نشانے پر رہا ہے ۔ بھارت دریائے ستلج اور دوسرے دریاؤں کا پانی بند کرکے آبی جارحیت کا مرتکب ہوا ہے اور بھارت کی ریشہ دوانیوں کے باعث چولستان میں ایک اور چولستان وجود میں آ رہا ہے۔ سابق ریاست بہاولپور کو سونے کی چڑیا کہا گیا ۔ بھارت نے تقسیم کے وقت بہت کوشش کی کہ ریاست بہاولپور کا الحاق پاکستان کی بجائے بھارت کے ساتھ ہو ، اس سلسلے میں بھارت نے نواب آف بہاولپور کو پیشکش کی کہ بھارت سے الحاق کے نتیجے میں آپ کو ہندوستان کا گورنر جنرل بنا دیا جائے گا اور دوسری بھی بہت سی مراعات آپ کو حاصل ہونگی ۔ مگر نواب آف بہاولپور نے کہا کہ میں مسلمان ہوں میری ریاست کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔ میری ریاست کا اگلا دروازہ پاکستان کی طرف کھلتا ہے تو کوئی ذی شعور انسان پچھلے دروازے کی طرف جانے کی بجائے پہلے دروازے کی طرف جانا پسند کرے گا اور میں بھی پاکستان کی طرف ہی جاؤں گا۔ چنانچہ نواب آف بہاولپور نے پاکستان کے ساتھ نہ صرف یہ کہ الحاق کیا بلکہ پاکستان کی دامے ، درمے ، قدمے ، سخنے مدد کی ۔ نہرو نے کہا تھا کہ میں دیکھوں گا کہ پاکستان ملازمین کو پہلے مہینے کی تنخواہ کی کس طرح چلت کرتا ہے ، نواب آف بہاولپور نے ریاست کے خزانے سے سات کروڑ روپے کا کثیر سرمایہ حکومت پاکستان کو فراہم کیا ۔ پاکستانی کرنسی کی ضمانت بھی ریاست بہاولپور نے دی اور بحیثیت گورنر جنرل قائد اعظم حلف اٹھانے کی تقریب میں ریاست بہاولپور کی گاڑی پر سوار ہو کر گورنر ہاؤس پہنچے۔ ریاست بہاولپور کی عظیم خدمات کے پیش نظر قائد اعظم نے کہا کہ ’’پاکستان بننے سے پہلے ایک پاکستان موجود تھا اور اس کا نام ریاست بہاولپور تھا‘‘ مگر افسوس کہ آج پاکستانی نصاب کی کتابوں میں ان خدمات کا تذکرہ موجود نہیں ۔ پاکستان کے نصاب میں آج بھی کچھ ایسے اشخاص کو پڑھایا جا رہا ہے جن کی قبریں ہندوستان میں ہیں ۔ ریاست بہاولپور کی جو خدمات تھیں وہ ریاست کے سرائیکی عوام کی طرف سے تھیں کہ بادشاہ کی حیثیت محض امین کی ہوتی ہے ، اصل مالک عوام ہوتے ہیں ۔ یہ گلے شکوے کا وقت نہیں ہے کہ پوری قوم نے بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے اسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر دکھانا ہے اور بھارت کے عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے دشمن کی ہر چیز سے نفرت کرنی ہے ۔ غلط پالیسیوں کے باعث سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ بھارت نے ثقافتی جنگ جیت لی ہے ‘ اگر پاکستان کے لوگ بھارتی اداکاروںکے دلداہ ہونگے ‘ بھارتی فلمیں اور ڈرامے دیکھیں گے ‘ بھارتی زبان و ثقافت کو اختیار کریں گے اور پاکستان میں بولی جانیوالی زبانوں ‘ تہذیب و ثقافت سے دوری اختیار کریں گے یا پاکستانی سرکار پاکستانی تہذیبی اقدار کا سر کچلے گی تو پھر سونیا گاندھی کو یہ کہنے کا موقع کیوں نہ ملے گا ؟ کہ بھارت نے ثقافتی جنگ جیت لی ہے ۔ بھارتی جارحیت کے نتیجے میں ہمارے جذبات میں سخت اشتعال ہے ، ہمیں مادر وطن کا دفاع کرنے کیلئے متحد ہونا پڑے گا ، ہر طرح کا مصنوعی پن چھوڑنا پڑے گا اور بھارت سے برآمد ہونیوالی ہر چیز سے نفرت کرنا ہوگی اور حقیقی معنوں میں پاکستان کی ہر چیز سے محبت کو اپنے ایمان کا حصہ بنانا ہوگا اور پاکستان کی تہذیبی اقدار کی طاقت سے مودی سرکار کے ملعون عزائم کو نیست و نابود کرنا ہوگا۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ