تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی نے عمران خان کو متفقہ طور پر وزیراعظم نامزد کر دیا ہے۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجھ پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے‘ روائتی سیاست ختم کریں گے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لوگوں نے تبدیلی کے نام پر تحریک انصاف کو ووٹ دیئے ۔ تبدیلی نہ لا سکے تو برا حشر ہوگا۔ عمران خان نے ایک طرف کہا کہ روائتی سیاست ختم کریں گے اور دوسری طرف روایتی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کے پاس فضل الرحمن اور ہمارے پاس اخلاقی قوت ہے ۔عمران خان کو تبدیلی کیلئے بڑا دل کرنا چاہئے کہ اب ان کا مقابلہ مولانا فضل الرحمن نہیں ‘ مسائل سے ہے ۔ خصوصاً وہ مسائل جو تبدیلی میں رکاوٹ ہیں ۔ در اصل میرا موضوع یوم آزادی ہے۔ میں آنے والی حکومت کی توجہ تاریخ آزادی کے امور کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ سب جانتے ہیں کہ اگست آزادی کا مہینہ ہے۔ زندہ قومیں اپنا یوم آزادی ’’ روائتی جوش و خروش‘‘ سے مناتی ہیں ۔ اس موقع پر تقریبات ہوتی ہیں جہاں آزادی کے پس منظر پر اظہارِ خیال ہوتا ہے، تبدیلی کیلئے لازم ہے کہ ’’ روائتی جوش و خروش اور لکھی لکھائی تقریروں ‘‘ کی بجائے اصل حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں تاکہ حقائق کی بنیاد پر قوم کی رہنمائی ہو سکے اور سچائی کے ساتھ پاکستان آگے بڑھ سکے۔ تاریخ پاکستان نئے سرے سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قربانیاں دینے والے پس منظر میں چلے گئے اور جو مخالف تھے وہ وارث بن گئے ،یہ بھی حقیقت ہے کہ بیورو کریٹ اور جاگیردار آخری وقت تک انگریز کے وفادار رہے ، مگر جونہی پاکستان کا قیام وجود میں آیا تو وہ پاکستان کے ٹھیکیدار بن گئے۔ منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے،کے مصداق پاکستان کیلئے خدمات سر انجام دینے والوں کو نظر انداز کر دیا گیا، آج تاریخ یا نصاب کی کتب میں اصل کا کوئی ذکر نہیں سرائیکی ریاست بہاولپور کی عظیم خدمات کو یکسر نظر انداز کرنا بہت بڑا ظلم اور سخت نا انصافی ہے۔ خدمات کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے نواب بہاولپور نے ریاست کی طرف سے ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا جس پرایک طرف مملکت خداداد بہاولپور اور دوسری طرف پاکستان کا جھنڈا تھا ،پاکستان قائم ہوا تو قائداعظم ریاست بہاولپور کی شاہی سواری پربیٹھ کر گورنر جنرل کا حلف اٹھانے گئے ،پاکستان کی کرنسی کی ضمانت ریاست بہاولپور نے دی ،پہلی تنخواہ کی چلت کیلئے پاکستان کے پاس رقم نہ تھی تو نواب بہاولپور نے پہلے تنخواہ کی چلت کے لئے 7کروڑ روپے کی خطیر رقم دی ۔ قائد اعظم کے ساتھ علامہ اقبال بھی نواب آف بہاولپور کے بہت قدر دان تھے اور انہوں نے نواب آف بہاولپور کی عظیم اسلامی خدمات پر ان کی شان میں طویل قصیدہ بھی لکھا تھا ۔ تحریک پاکستان قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کیلئے ریاست بہاولپور کا کردار ناقابل فراموش ہے مگر افسوس کہ آج ان باتوں کا تذکرہ تاریخ پاکستان اور نصاب کی کسی کتاب میں موجود نہیں۔ بازاروں میں پاکستانی پرچم کی بہار آئی ہے۔ ہر جگہ تاریخ پاکستان کے تذکرے ہو رہے ہیں ۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 23مارچ 1940 ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسویں اجلاس ہوا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی، اس اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی ۔ جگہ پر یادگار بنانے کا فیصلہ ہوا۔ 1960 ء میں ’’ پاکستان ڈے میموریل کمیٹی ‘‘ قائم کی گئی ، بائیس رکنی اس کمیٹی میں معروف صوفی شاعر صوفی غلام مصطفی تبسم بھی شامل تھے، یادگار کو روسی نژاد ترک مسلمان مرات خان نے بنایا، اس کی بلندی 196 فٹ ہے، مینار پاکستان پر 19 تختیاں نصب ہیں، اردو ، انگریزی زبان میں قرارداد لاہور کا متن درج ہے، اس میں خودمختار ریاستوں کے الفاظ شامل ہیں ۔ ان ریاستوں کا مطلب صوبے تھے، صوبوں کو اختیارات اور خود مختاری تو کیا صوبے ختم کر کے ون یونٹ بنایا گیا ۔جس پر مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں نے سخت احتجاج کیا۔ون یونٹ کا جواز یہ بتایا گیا کہ مشرقی پاکستان کی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے وفاق غیر متوازن ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اس وقت وفاق غیر متوازن تھا تو اب ساٹھ فیصد آبادی کا ایک صوبہ اور چالیس فیصد آبادی کے تین صوبے ‘ کیا اب وفاق غیر متوازن نہیں اور کیا اس کے توازن کیلئے ضروری نہیں کہ سرائیکی صوبہ بنایا جائے ۔ تحریک آزادی کی تاریخ کا ذکر چلا ہے تو یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ لاہور میں بنائی جانیوالی یادگار کے لفظ ’’ یادگار ‘‘ پر اعتراض ہوا کہ یادگار تو ختم ہو جانے والی چیز کی ہوتی ہے ، پاکستان زندہ ہے، اس کی یادگار بنانا کونسی دانشمندی ہے؟اعتراض کے بعد اس کو ’’ مینار پاکستان ‘‘ کا نام دیا گیا لیکن بعض اوقات آج بھی اسے یادگار ہی کہتے ہیں، جب یادگار بنائی جا رہی تھی تو بنگالی سیاستدانوں کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اگر لاہور میں مسلم لیگ کے ایک اجلاس کی یادگار بنائی جا رہی ہے اور کثیر سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے تو اس طرح کی ایک یادگار مشرقی پاکستان میں بھی بنائی جائے جہاں 1906 ء میں مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی گئی لیکن ان کی بات کسی نے نہ سنی ۔ ان تمام باتوں کے عرض کرنے کا مقصد اتنا ہے کہ نئے سرے سے تدوین تایخ پاکستان کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ ہائے زندگی میں تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ تبدیلی کا نعرہ صرف نعرہ نہیں ہونا چاہئے ، تبدیلی نظر بھی آنی چاہئے ۔ ہر انسان کے لئے انصاف بنیادی ضرورت ہے۔ انصاف کی تحریک کو کامیابی ملی تو محروم لوگوں اور محروم خطوں کو انصاف ملنا چاہئے ۔ وسیب کے لوگوں کو بھی صوبے کے انصاف کا وعدہ کیا گیا ہے ، وہ پورا ہونا چاہئے ورنہ تحریک انصاف کی قیادت کو عمران خان کی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ’’ تبدیلی نہ لائے تو برا حشر ہوگا۔‘‘
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ