سرائیکی زبان کے عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کا 121 واں سالانہ عرس مبارک گزشتہ روز سے کوٹ مٹھن شریف میں شروع ہو گیا ہے ۔ عرس مبارک کی تقریبات تین دن جاری رہتی ہیں ‘ اندرون و بیرون ممالک سے لاکھوں عقیدت مند تقریبات میں شرکت کرتے ہیں ۔ حضرت خواجہ غلام فرید کو سرائیکی زبان کا بے بدل شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ 150 سال پہلے کی شاعری آج بھی وسیب کے دلوں پر راج کر رہی ہے اور جو بھی خواجہ فرید کی کافی سنتا ہے تو اسے اپنی اور آج کی بات لگتی ہے ‘ یقینا خواجہ فرید صدیوں کا شاعر ہے ‘ خواجہ فرید کا زمانہ انگریز راج کا زمانہ ہے ‘ خواجہ فرید کی پوری زندگی میں کسی انگریز عہدیدار سے ملاقات کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔ خواجہ فرید نے اپنی شاعری میں جو پیغام دیا وہ پیغام ’’ اپنی نگری آپ وسا توں ، پٹ انگریزی تھانے ‘‘ کا پیغام تھا ۔ دربار فرید ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے علاقہ کوٹ مٹھن میں ہے اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے ‘وسیب کے لاکھوں عقیدت مندوں کے ساتھ ساتھ کروڑوں افراد کی خواہش ہے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار عرس کی تقریبات میں شرکت کریں ۔ رسم چادر پوشی اور غسل دینے کی تقریب میں شریک ہوں ، اس سے جہاں ان کو خطے کے مسائل جاننے کا موقع ملے گا ، وہاں ان کے احترام میں بھی اضافہ ہو جائے گا ۔ ہم نے دیکھا کہ جب حضرت داتا گنج بخش ؒ کا لاہور میں عرس شروع ہوتا ہے تو میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف تقریبات میں شریک ہوتے رہے ، آج وہ اہلِ لاہورکے دل جیتنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران خان کو بھی تقریبات میں شرکت کرنی چاہئے اور وسیب کے مسائل کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنا چاہئے ۔ اب کچھ بات دیوان فرید کی ہو جائے ۔ پہلے وقتوں میں خواجہ غلام فرید سئیں کا کلام دوسرے شہروں سے طبع ہوا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ کلام چاہے امر تسر آگرہ یا لاہور سے شائع ہوا۔ اس کے سرورق پر ملتانی کافیاں لکھی گئیں یہ بھی ملتان سے ایک ایسی نسبت ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جیسا کہ ڈیرہ غازیخان کے پہاڑی علاقے سے اعلیٰ قسم کی مٹی نکلتی ہے اسے ملتانی مٹی کا نام دیا جاتا ہے اور یہ مٹی پوری دنیا میں مشہور ہے۔ بعد میں دیوان فرید ملتان سے شائع ہونا شروع ہوئے ان پر بھی ملتانی کافیاں ہی لکھا جاتا رہا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ملتان ایک بہت بڑی شناخت اور بہت بڑا حوالہ ہے۔ ہمارے جھوک اخبار کے ساتھی (مرحوم) ملک منیر احمد بھٹہ (1939-2014ء) کی کتاب’’تہذیب و ثقافت کے آئینہ‘‘ کے پیش لفظ میں، میں نے لکھا تھا کہ :۔ ’’ملتان ایک ذات نہیں ایک کائنات کا نام ہے، تاریخی اعتبار سے ملتان کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ اس میں پاکستان ہندوستان تو کیا پورا جہاں سما سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ہندوستان میں یہ بندی کہاوت زبان زد عام ہے کہ ’’آگرہ اگر، دلی مگر ملتان سب کا پدر‘‘۔ ملتان سے بہت سے سرائیکی شاعر ، ادیب اور دانشور ہجرت کر گئے ، وہاں بہت سے لوگوں نے اپنے دیوناگری رسم الخط میں خواجہ فرید سئیں کی کافیاں لکھی ہوئی تھیں جو کہ عالمی سرائیکی کانفرنس کے موقع پر انہو ںنے ہمیں دکھائیں۔تاریخ کے اوراق دیکھنے سے خواجہ فرید کے ہمعصر ملتانی شعراء سینکڑوں کی تعداد میں بر آمد ہو سکتے ہیں، جیسا کہ ڈٖتن ملتانی، مستن ملتانی، منشی تیغ علی کمتر، میاں محمد مٹھا وغیرہ مگر اس بارے تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے۔ ‘‘ ساہیوال جس کا پرانا نام منٹگمری ہے، ملتان کا حصہ ہے۔ دیوان مفتون سنگھ کے واقعے کو بھی ملتان کا واقعہ سمجھیں ۔ مفتون سنگھ لکھتے ہیں ’’میں ساہیوال (منٹگمری)جیل میں تھا اور وہاں میں نے ملتان کی ایک گائیک بدرو کی ایک ریکارڈڈ کافی سنی تو کافی کی اثر پذیری اور مٹھاس سے دنگ رہ گیا‘ پھر وہ (دیوان سنگھ) نواب صاحب کو دیوان فرید کو ترجمہ اور تشریح کے ساتھ چھپوانے کی ترغیب دیتے ہیں۔‘‘ یہ حوالہ جب اپنے دیباچے میں شامل کیا تو مجھے ساری کہانی سمجھ آئی کہ بدرو ملتانی کی آواز میں دیوان مفتون سنگھ نے کافی سنی اور اس سے متاثر ہو کر انہوں نے دیوان فرید کی طباعت کی تحریک کی تو گویا دلنور نور پوری صاحب کی بات بھی سچ ثابت ہوگئی اور ملتان کے بزرگ نعت خواں حاجی اللہ دتہ ملتانی کی یہ بات بھی سچ ہو گئی کہ ایک گائیک بدرو ملتانی میں بھی اوصاف موجود تھے ‘ بزرگوں نے سچ کہا کہ بُرے کو بھی بُرا نہ کہو کہ آخر میں یہی عرض کروں گا کہ خواجہ فرید کا ملتان سے تعلق نہایت اہم موضوع ہے اس پر تحقیق اور ریسر چ کی ضرورت ہے وہ سب سے اہم ذمہ داری بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کی ہے کہ وہ اس بارے تحقیق اور ریسرچ کرے اور وسیب کے لوگوں کے سامنے نئے جہان اور نئے گوشے سامنے لائے ۔ میں نے ایک کتاب فکر فراق فریدی میں لکھا تھا کہ سرائیکی کے عظیم شاعر خواجہ فرید کو کوئی گوئٹے ، کوئی شیلے ، کوئی سارتر، کوئی اقبال کوئی داغ اور غالب کہتا ہے ۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ خواجہ فرید کسی کی مثال نہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ آج میرا موضوع تقابلی جائزہ نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ خواجہ فرید کا سرائیکی وسیب کے مرکز ملتان سے کیا تعلق ہے ؟ خوشی کی بات ہے کہ خواجہ فرید نے ملتان کے ساتھ ساتھ ملتان کی ایک خاتون سے محبت کی اور یہ محبت ازدواجی رشتہ میں تبدیل ہوئی۔ اس کا خیر مقدم ہونا چاہیے اور جس طرح واقعہ ہے اس کو اسی طرح رہنے دیا جائے اس میں بھی خواجہ صاحب کی عظمت پوشیدہ ہے اگر وہ عشق اور محبت کرنے والے انسان نہ ہوتے تو آج سرائیکی کو اتنی توانا شاعری نصیب نہ ہوتی ۔ اپنے موضوع سے متعلق عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سر زمین ملتان سے خواجہ غلام فرید ؒکا گہرا رشتہ ہے۔ ان کے بزرگ خواجہ محمد زکریا سندھ سے نقل مکانی کر کے ملتان کے نواح میں واقع بستی منگلوٹ (تحصیل لودھراں) میں آئے اور یہاں ایک عظیم الشان دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی شاہجہاں بادشاہ ہند نے مخدوم نورمحمد کو پانچ ہزار بیگھہ اراضی پر مشتمل 140چاہات نذر کیے تھے جس کی آمدنی سے مدرسے کا خرچ چلایا جاتا تھا۔ تین پشت کے بعد خواجہ غلام فرید کے بزرگان میں سے مخدوم محمد شریف نقل مکانی کر کے سیت پور یاریوالی میں آباد ہو گئے اور بعد ازاں یہ خاندان کوٹ مٹھن میں آباد ہوا۔ تاہم کوریجہ خاندان کے افراد اب بھی منگلوٹ میں آباد ہیں جہاں کوریجہ بزرگان کے مزارات بھی ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز)
فیس بک کمینٹ