وزیراعظم عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جو بات کرتے ہیں پوری کرتے ہیں ، عمران خان نے صوبہ بنانے کا وعدہ کیا ہے کہا جاتا ہے کہ اب بھی وہ اپنی بات پر قائم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ صوبے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ لیکن تحریک انصاف سمیت کابینہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صوبے کے مسئلے کو زیرِ التوا رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی بناءپر انہوں نے صوبے کے نام اور حدود پر پہلے سے اختلافات پیدا کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ کابینہ کے ایک وزیرچوہدری طارق بشیر چیمہ نے بہاولپور صوبہ بحالی کا نعرہ لگا دیا ہے۔ حالانکہ بہاولپور کبھی صوبہ نہ تھا ، اب بحالی کا مطلب ریاست کی بحالی ہوگا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 14 اگست 1947ءسے لیکر آج تک کسی بھی سرکاری ریکارڈ یا پاکستان کی کسی بھی آئینی دستاویز میں بہاولپور بطور صوبے کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ چوہدری طارق بشیر چیمہ کے والد چوہدری بشیر چیمہ نے 1970ءمیں بہاولپور صوبہ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بہاولپور صوبہ ہماری لاشوں پر بنے گا۔ اس وقت چوہدری طارق بشیر چیمہ کے والد رکاوٹ بن گئے ، اب سرائیکی صوبے کی راہ میں طارق بشیر چیمہ جیسے لوگ رکاوٹ بن رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ، وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کے ساتھ ساتھ مخدوم شاہ محمود قریشی ، مخدوم خسرو بختیار، جہانگیر ترین اور تحریک انصاف کے دوسرے اکابرین کو اس بارے نوٹس لینے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی خطے کی تہذیبی شناخت پاکستان کا سرمایہ ہے۔ ایک دوست نے کہا کہ سرائیکی لفظ 1962ءمیں اس وقت وجود میں لایا گیا جب سمرا پبلک سکول ملتان میں چند سرائیکیوں کا اجلاس ہوا۔میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ 1962ءمیں یہ لفظ وجود میں نہیں لایا گیا بلکہ اس پر اتفاق کیا گیا ، پہلے سرائیکی کے مختلف نام تھے جیسا کہ ملتانی ، ریاستی ، جھنگوچی ، شاہ پوری ، دیروی ، جٹکی ، اعوان کاری ، غرض کہ 36 کے قریب مختلف نام تھے جن میں سے ایک نام سرائیکی بھی تھا اور پھر سب نے مل کر اس نام پر اتفاق کیا۔ یہ وسیب کی اور زبان کی شناخت کا مسئلہ ہے ‘ جسے سیاسی طور پر الجھایا جا رہا ہے۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ جب سے سرائیکی صوبے کی تحریک چلی ہے تو ”سرائیکی“ پر طرح طرح کے اعتراضات ہو رہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ یہ نام کیا ہے؟ اس کا مطلب کیا ہے؟ اور یہ کہاں سے آگیا؟ ان سوالوں کا جواب تاریخی کتب میں موجود ہے۔ ہندوستان کی زبانوں کے بارے میں جارج گریسن کی کتاب”لینگویج سروے آف انڈیا“ (مطبوعہ گورنمنٹ پریس کلکتہ1919ئ) کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے کتاب کے والیم VIII حصہ ایک صفحہ نمبر359 پر وہ لکھتے ہیں: Dr. Trump on page 11 of his Sindhi Grammar states that the modern dialect of Sindhi is called Siraiki and adds that this is the purest the inhabitants of the country who have a proverb that the learned man of the Lar (or lower Sindh) is but an ass in the Siro. (ترجمہ) اپنی سندھی گرامر کے صفحہ 11 پر ڈاکٹر ٹرمپ لکھتے ہیں کہ سندھی کی شمالی بولی کا نام سرائیکی ہے اور یہ سندھی کی خالص ترین شکل ہے۔اس علاقے کے باشندوں کی رائے بھی یہی ہے کیونکہ ان کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ ”لاڑ یعنی سندھ کا عالم شمالی سندھ میں محض حیوان ہے(لاڑ جوپڑھیو سرے جوڈھگو)۔ اسی صفحے پر مزید لکھتے ہیں۔ انگریزی متن From every district of Sindh ( except Thar and Parker) specimens have been received of the language locally known as Siraiki. On Examination it turns out that in every case this language is not Sindhi at all but is form of Lahnda closely allied to the Hindki of Dera Ghazi Khan. (ترجمہ) سندھ کے ہر ضلع سے (سوائے تھر اور پار کرکے) ایک ایسی زبان کے نمونے موصول ہوئے ہیں جسے مقامی طور پر سرائیکی کہتے ہیں ، لیکن معائنہ کرنے پر ہر ایک نمونہ ایک ایسی زبان کا نکلا جو سندھی ہرگز نہیں ہے بلکہ لہٰذا ایک صورت سے متشابہ ہے اور ضلع ڈیرہ غازی خان کی ہندکی سے قریبی مناسبت رکھتا ہے۔ انہی کتابوں میں بتایا گیا کہ سرائیکی لفظ سرائی (بمعنی سردار، معزز، صاحب، سائیں) کی ترقی یافتہ شکل ہے، سرائیکی وسیب میں بہت سی اقوام سرالٹی کے لاحقے کے ساتھ موجود ہیں۔ اپنی کتاب”سرائیکی وسیب“ میں لکھا کہ سرائیکی وسیب جسے تاریخی کتب میں”سپت سندھو“ یعنی سات دریاﺅں کی سرزمین کہا گیا ہزار سالوں سے کائنات کا زرخیز ترین خطہ چلا آرہا ہے، جہاں زرخیزی اور خوشحالی ہو گی وہاں بھوکے ڈاکوں کی شکل میں حملہ آور ہوتے ہیں، سرائیکی وسیب کو دارا اول سکندر اعظم اور رنجیت سنگھ تک اسی زرخیزی کی سزا ملتی آرہی ہے۔ حملہ آور جب آتے ہیں تو دھرتی زادوں کے ساتھ اس کی تہذیبی شناخت کو قتل کرکے اس کے خود مالک بن بیٹھتے ہیں ، یہی کچھ وسیب کے ساتھ ہوا ہے۔ بعض لوگ سرائیکی اور سندھی کو سسٹر لینگویج کہتے ہیں مگر ہندوستان کے معروف نقاد ڈاکٹر گوپی چند اس کی تردید کرتے ہیں وہ سرائیکی انٹرنیشنل دہلی میں شائع شدہ اپنے مقالے میں سرائیکی کو مدر لینگویج کہہ کر اسے سنسکرت کی بھی ماں قرار دیتے ہیں، سندھ کے حوالے سے ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ سندھ کا مطلب دریا اور پانی ہے، وادی سندھ کا مطلب دریاﺅں کی سرزمین ہے جس کا مرکز سرائیکی خطہ ہے، دریائے سندھ کو بھی صرف سرائیکی علاقے میں سندھ کہا جاتا ہے جبکہ اسے خیبرپختونخواہ میں اسے دریائے اٹک واباسین اور صوبہ سندھ میں اسے ”مہران“ کہتے ہیں۔ دریا کے آغاز سے اختتام تک اس کے دونوں کناروں پر رہنے والی تمام قومیں اور تمام لوگ اس کے برابر کے حقدار ہیں۔ میں نے سرائیکی کو وادی سندھ کی تمام زبانوں کی اصل بتایا ہے کیا یہ بات درست ہے؟
(بشکریہ:روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ