کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کچھ لفظ یا جملے ذہن میں ایسے سما جاتے ہیں کہ ہم لاکھ کوشش کریں انہیں بھلا نہیں سکتے۔ جیسے ان جملوں یا سوچوں نے ہمارے ذہن میں دھرنا دے دیا ہو۔ آپ لاکھ کوشش کریں کہ سوچ کو کسی اورجانب دوڑائیں آپ لاکھ چاہیں کہ وہ جملہ آپ کے ذہن سے محو ہوجائے لیکن دھیان کسی طرف جاتا ہی نہیں وہ جملہ آپ کا تعاقب جاری رکھتا ہے ۔جیسے ایک سوال ذہن میں آیا کہ دورجہالت میں جب لڑکیوں کو زندہ در گور کر دیا جاتا تھا، دفن کر دیا جاتا تھا تو ان کی حالت کیا ہوتی ہو گی ؟ تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام کے ظہور سے پہلے عرب میں لوگ اپنی بیٹیوں کو غربت کے خوف یا شرمندگی کی وجہ سے مار دیتے تھے ۔ مگر ذہن یہ سوال بار بار سر اٹھاتا ہے کہ کیا اناج کے دانے صرف حوا کی بیٹی کے منہ میں ہی جاتے تھے؟ کیا آدم کا بیٹا غربت میں اضافہ نہیں کرتاتھا؟ کیا وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر زندگی گزار لیتا تھا ؟ رہی شرمندگی کی بات تو کیا گناہ صرف عورت کے حصے میں آتا تھا؟ غلط کاری صرف عورت ہی کرتی تھی ؟ بیٹے کوئی غلط کام نہیں کرتے تھے؟ مجرم صرف بیٹی ہی کیوں گردانی گئی ؟ستم یہ ہے کہ یہ صرف ماضی کی بات نہیں۔ بیٹیوں کو تو آج کے ترقی یافتہ اور ’’با شعور‘‘ زمانے میں بھی بھی زندہ درگور کیا جاتا ہے ۔بہت سے والدین بیٹی کی پیدائش پر آج بھی پریشان ہوجاتے ہیں اور جوں جوں وہ بڑی ہوتی ہے اس کی تعلیم کے اخراجات کو بوجھ اور فضول سمجھا جاتا ہے ۔بیٹا تو کما کے کھلاتا ہے ہم بھلا لڑکی کو پڑھا کر کیا کریں گے ؟ بڑے بڑے جاگیردار پراڈو میں گھومنے والے جب بیٹی کی شادی کی بات ہو تو اپنی زمین جائیداد کم بتاتے ہیں اور پھر اس ”غربت “ سے نکلنے کا آسان حل تو یہی ہے کہ بیٹی کا نکاح قرآن سے کر دیا جائے (استغفار) دولت اور عزت دونوں ہی گھر میں رہ جاتی ہیں ۔ بیٹا سیکنڈ ڈویژن ہے مگر اسے بہترین یونیورسٹی میں داخلہ دلوانا چاہیے اوربیٹی اگر پوزیشن ہولڈر بھی ہو تو کہتے ہیں کہ چھوڑیں جی کیا اسے لڑکوں کے ساتھ داخلہ دلوائیں ؟کل کوکسی کے ساتھ چلی گئی تو کیا بنے گا ؟ عرب کے کافر تو آج بھی موجود ہیں بس فرق یہ ہے کہ اس زمانے میں بیٹی کو ایک بار زمین میں گاڑ دیاجاتا تھاآج اسے روزانہ زمین پر مصلوب کیا جاتاہے ۔شاید اس لئے کہ بیٹیاں حضرت مریمؑ کی طرح قابل اعتباراورحضرت فاطمہ ؓ کی طرح رحمت نہیں سمجھی جاتیں ۔بات تلخ ہو گئی لیکن میں استغفاربھی تو کرچکی ہوں ۔ بوجھل دل کے ساتھ یہ سطور تحریرکر رہی ہوں کیا خبر مرد معاشرے میں یہ تحریر نا قابلِ اشاعت ہی ٹھہرے ۔۔
فیس بک کمینٹ