پاکستان ٹیلی ویژن کی جبری تنہائی کے بعد شاید یہ مشرف کا عہد تھا جب بقول ماؤزے تنگ ایک ہزار پھول کھلنے دو کے مصداق سیکڑوں پرائیویٹ چینلز وجود میں یوں آئے جیسے برسات کے بعد بے تحاشا کھنبیاں پھوٹ نکلتی ہیں اور ہر چینل پر ’’صبح کی نشریات‘‘ کی وبا پھیل گئی۔۔۔ میزبان خواتین نخرے دکھاتی حکمت کے موتی بکھیرنے لگیں، رقص کرنے لگیں۔ ’’مارننگ شوز‘‘ گویا نائٹ کلب ہو گئے۔۔۔ ڈاکٹر حضرات نہ صرف عوام کی جانب تحفے پھینکنے لگے اور عوام بندروں کی مانند اُنہیں لوٹتے تھے بلکہ بچے بھی تقسیم کیے جانے لگے تو انہی زمانوں میں اکثر میزبان بلکہ میزبانیاں نشریات کے آخر میں ایک چھوٹی سی بات بھی ارشاد کیا کرتی تھیں کہ آج کی بات۔۔۔ ایک چھوٹی سی بات یہ ہے کہ ۔۔۔ آج موسم کتنا خوشگوار ہے۔۔۔ یا لپ سٹک ان دنوں جامنی رنگ کی ہونٹوں پر تھوپتے وغیرہ۔۔۔ تو ان دنوں مجھے دبئی میں ریکارڈ ہونے والے نادیہ خان شو میں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا اور نادان نادیہ نے میرا تعارف کرواتے ہوئے کہا ’’تارڑ صاحب۔۔۔ ہی از فادر آف آل مارننگ شوز‘‘ یعنی میں تمام مارننگ شوز کا باپ ہوں۔۔۔ تو میں نے نادیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ بی بی۔۔۔ مجھے معاف کیجیے۔۔۔ ان مارننگ شوز کے ایک دو بچوں کو تو میں پہچانتا ہوں، بقیہ میرے بچے ہرگز نہیں ہیں، جانے کس کے بچے ہیں۔۔۔ تو چند اور چھوٹی سی باتیں، اگرچہ وہ سیکڑوں کی تعداد میں ہیں لیکن۔۔۔ اُن میں سے چند ایک کو اپنا آخری کالم کرتا ہوں۔۔۔
’’کسی کے آگے مجبور ہو کر جھکنا ذلت ہے۔۔۔ اور کسی مجبور کو اپنے آگے جھکانا اس سے زیادہ ذلت ہے‘‘۔
’’انسان کی اصلیت تب کھل کر سامنے آتی ہے جب وہ کسی کے بس میں ہو اور جب کوئی اور اس کے بس میں ہو ‘‘۔
’’زندگی کے اخبار میں سب سے خوبصورت صفحہ، بچوں کا صفحہ ہوتا ہے‘‘ ۔
’’شرافت سے جھکا ہوا سر، ندامت سے جھکے ہوئے سر سے بہتر ہے‘‘۔
’’زندگی کی کار میں فالتو ٹائر نہیں ہوتا، ایک ٹائر پنکچر ہو گیا تو سفر تمام ہو گیا‘‘۔
’’بچہ ایک ایسا پھل ہے، جتنا کچا ہو گا ، اتنا ہی میٹھا ہو گا‘‘۔
(موہن سنگھ کے ’’ساوے پتر‘‘ سے ’’اِک پھل ایسا ڈِٹھا، جناں کچا، اوناں مٹھا‘‘ سے مستعار شدہ)
’’بیوقوف ہونے میں موجیں ہی موجیں ہیں، آپ کسی بھی محفل میں تنہا نہیں ہوتے‘‘۔
’’کسی خوبصورت جھیل کے کناروں پر کڑاہی گوشت کھانے میں مشغول لوگ اس کی آبرو ریزی کے مرتکب ہوتے ہیں‘‘۔
’’سب کچھ کھونے کے بعد اگر حوصلہ باقی ہے تو آپ نے کچھ نہیں کھویا‘‘۔
’’اگر ماں کے علاوہ آپ سے کوئی کہے کہ آپ میرے چاند ہیں تو یقین کیجیے اُس نے چاند کبھی نہیں دیکھا ورنہ۔۔۔‘‘
’’ریت کا ایک ذرہ صحرا نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن وہ ایک ذرہ نہ ہو تو صحرا نہیں ہوتا‘‘۔
’’دیوار میں چنی ہوئی ہر اینٹ ایک عظیم الشان عمارت ہے، وہ ایک اینٹ اکھڑ جائے تو وہ عمارت نہیں کھنڈر ہو جاتی ہے‘‘۔
’’جس روز آپ کا بچہ پہلی بار ’’ماما یا بابا‘‘ کہتا ہے اس روز آپ کے دل میں ایک نئی کہکشاں جنم لیتی ہے‘‘۔
’’جس روز آپ کے بچے کا بچہ پلی بار آپ کو ’’دادا، دادی‘‘ یا ’’نانا، نانی‘‘ کہتا ہے تو نئی کائناتیں چھم چھم کرنے لگتی ہیں‘‘۔
’’غلط جگہ پر آم کھانے کو ’’غلط العام‘‘ کہتے ہیں‘‘۔
’’اکثر بڑے گھروں میں چھوٹے اور چھوٹے گھروں میں بڑے لوگ رہتے ہیں‘‘۔
’’آزادی جس بھاؤ ملے، لے لو، آزادی کا جو بھی بھاؤ ملے، نہ لو‘‘۔
’’وہ دماغ کس کام کا جس میں محبت کا خلل نہ ہو‘‘۔
’’عمل کے بغیر صرف علم کے ساتھ زندگی گزارنا ایسے ہے، جیسے کھیت میں بیج ڈالے بغیر ہل چلاتے رہنا‘‘۔
’’خیالات کی آمدنی کم ہو تو لفظوں کی فضول خرچی سے پرہیز کریں‘‘۔
’’مہمان آتے جاتے اچھے لگتے ہیں، کچھ آتے اچھے لگتے ہیں اور بیشتر جاتے اچھے لگتے ہیں‘‘۔
’’تنہائی ، اداسی، خوشی اور خوبصورتی، چاروں سگی بہنیں ہیں‘‘۔
’’وطن کی محبت کا الاؤ جلائے رکھو، برفیں پگھل جائیں گی، دشمن جل جائیں گے‘‘ (سیاچن کے برفیلے محاذ پر سر بہ کف ہونے والے ایک نوجوان کپتان کی فرمائش پر لکھی گئی چھوٹی سی بات)
’’زندگی کی مشکلات آپ کے لان کی گھاس ہوتی ہیں، آپ توجہ نہ کریں گے تو یہ بڑھتی جائے گی‘‘۔
’’آپ عقل کا پیچھا کر کے اسے حاصل کرتے ہیں اور حماقت آپ کا پیچھا کر کے آپ کو حاصل کر لیتی ہے‘‘۔
’’آپ اس دنیا میں وَن وے ٹکٹ لے کر نہیں آسکتے، واپسی کا ٹکٹ یہاں آنے کی شرط ہے‘‘۔
’’پر دیس کے میووں کی نسبت اپنے دیس کے تھوہر زیادہ میٹھے ہوتے ہیں‘‘۔
’’دل کی کتاب میں صرف ایک نام ہونا چاہیے، بہت سے نام درج ہوں گے تو وہ کتاب نہیں انسائیکلو پیڈیا ہو جائے گی‘‘۔
’’اگر رزق صرف عقلمند کما سکتے تو دنیا بھر کے بیوقوف بھوکے مر جاتے‘‘۔
’’اگر خواہشیں گھوڑے ہوتیں تو بیوقوف ان پر سواری کرتے‘‘ (ایک انگریزی محاورے سے اخذ شدہ)
’’اگر خواہشیں مچھلیاں ہوتیں، تو ہر کسی کی جیب میں رومال نہیں جال ہوتا‘‘۔
’’گرتے ستارے کو اپنی جیب میں سنبھال لو تاکہ جب زمانے تاریک ہو جائیں تو تم ان کی روشنی سے راستوں کو منور کر لو‘‘ (پیری کو موک ایک گیت سے متاثر شدہ بات)۔
’’جو لوگ ہاتھی سے کہتے ہیں کہ وہ مرکر سوا لاکھ کا ہو جائے گا، وہ اس کے دوست نہیں ہوتے‘‘۔
’’شیر اُن لوگوں کا نشان ہوتا ہے جنہوں نے کبھی سچ مچ کا شیر نہیں دیکھا ہوتا، بلی کو شیر سمجھتے رہتے ہیں‘‘۔
’’تیزرو ندی کے پانیوں میں اپنا عکس نہ دیکھو، وہ بہہ کر سمندر میں اتر جائے گا‘‘۔
سیکڑوں باتیں رہ گئی ہیں، سب کو نقل کرنا مشکل ہے تو منیر نیازی کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔۔۔
’کچھ باتیں اَن کہی رہنے دو۔۔۔ کچھ باتیں اَن سنی رہنے دو۔۔۔سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر پھر باقی کیا رہ جائے گا۔۔۔اِ ک کھڑکی اَن کھلی رہنے دو۔۔۔
فیس بک کمینٹ