آج کل شہزادی کی شادی ذرائع ابلاغ کا یہاں محبوب موضوع بنا ہوا ہے۔ یہ وضاحت ازبس ضروری ہے کہ شہزادی کی شادی سے میری مراد بشریٰ بی بی کی تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق کرکٹر عمران خان سے شادی نہیں ہے۔ روئے سخن جاپان کے شہنشاہ معظم اکی ہیتو کی بڑی پوتی شہزادی ماکو کی طرف ہے۔ جوکہ ایک عامی جاپانی لڑکے سے شادی کا ارادہ رکھتی ہیں، شاہی محل کے قانون و روایت کی رو سے شہزادی کو اس شادی کی پاداش میں شاہی خاندان سے بے دخل کردیا جائے گا، چونکہ شاہی قوانین کے مطابق اہل قصر فقط شاہی خاندان کے افراد کے ساتھ ہی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوسکتے ہیں۔ اگر شاہی خاندان کا کوئی فرد عام آدمی سے شادی کرلے تو اسے شاہی خاندان سے باضابطہ طور پر نکال دیا جاتا ہے۔ چونکہ ان دنوں پاکستان کی فضا ایسی بنی ہوئی ہے، جیسی کرکٹ کے بخار میں مبتلا ایام ہیں، آپ کسی سے اس کا حال ، احوال پوچھیں تو جواب میں کرکٹ میچ کا تازہ ترین سکور بورڈ بتاتا ہے، صفر رنز پر تین آؤٹ ہوگئے ہیں، ”کوئی حال نہیں“ بالکل ویسے ہی آج کل شادی ، بیاہ، نکاح کا ذکر کریں تو بات عمران خان کی بشریٰ بی بی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے واقعے کی جانب رخ موڑ لیتی ہے۔
شاہی محل کے شعبہ اطلاعات و نشریات نے تازہ خبر اس بابت یہ جاری کی ہے کہ شہزادی ماکو کی شادی ملتوی کردی گئی ہے۔ تمام قومی و مقامی اخبارات کے صفحہ اول پر چیختی چنگھاڑتی شہہ سرخیاں بتاتی ہیں کہ ولی عہد سلطنت کی بیٹی ماکو کی مجوزہ شادی اب 2020ء میں ہوگی، اس التوا کی وجہ شہزادی سے منسوب یہ بیان ہے کہ موجودہ برس کو نومبر میں تجویز کردہ تاریخ پر شادی کے لیے ابھی تک مناسب تیاری نہیں ہوسکی تھی۔ اب وقت چونکہ کم رہ گیا ہے اور اس مختصر وقت میں انتظامات کرنا ممکن نہیں ہوسکے گا۔ ان دو لائنوں کے بیان پر میڈیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔
چند باتیں اس بابت قابل ذکر ہیں۔ایک تو یہ کہ شاہی خاندان سے متعلق میڈیا میں خبر کا عموماً فقط ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ شاہی محل کا شعبہ اطلاعات ہے ، بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ شاہی خاندان کے کسی فرد یا واقعے کے متعلق کوئی خبر کسی دیگر ذریعے اخبارت یا ٹیلی ویژن کی زینت بنے۔ خبر کے الفاظ اور ان کی ترتیب تک تمام میڈیا میں ایک جیسی ہوتی ہے۔ اس احتیاط پسندی کی وجہ ابلاغیات کو لاحق کوئی خوف یا احساس ذمہ داری نہیں بلکہ بادشاہ کا احترام ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک جاپان کے شہنشاہ کو جاپانی قوم خدا کا اوتار مانتی تھی اور اس کی باقاعدہ پوجا کی جاتی تھی۔ جنگ عظیم میں جب امریکہ نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے اور جاپان شکست کھاگیا، تو اس ہزیمت کے بعد بادشاہ ہیرو ہیتو نے ریڈیو پر قوم سے خطاب کیا، شکست کو کھلے الفاظ میں تسلیم کیا اور اعلان کیا کہ اس دن کے بعد وہ ایک عام انسان ہیں، خدا یا اس کے نائب نہیں ہیں۔ شہنشاہ کے لیے جاپانی جو لفظ استعمال کرتے تھے وہ ”تھن نو“ ہے، جس کا مطلب ”خدا جیسا“ یا پھر ”بھگوان سمان “ ہے۔اب بادشاہ کی پرستش نہیں ہوتی، چونکہ اس نے خود ہی اعلان کردیا کہ وہ لائق عبادت نہیں ہے مگر اب بھی اسے بے حد مذہبی تقدس حاصل ہے۔ عام جاپانی لوگوں کو مرنے کے بعد ہندوؤں اور سکھوں کی طرح بدھ مت اور شنتو عقیدے کے مطابق جلادیا جاتا ہے، مگر شہنشاہ کی میت کو مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کی طرح دفن کیا جاتاہے۔
مذہبی تقدس اور بادشاہت کا یوں توچولی دامن کا ساتھ ہے مگر جاپان کے سرکاری مذہب شنتو ازم کا تو مدارالمہام ہی شہنشاہ معظم کی ذات اقدس ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ مذہبی طبقے اور حکمرانوں کی باہمی قربت کی وجہ آخر کیا ہے؟ مشرق کو تو چھوڑئیے، مغرب کے دل اور جدیدجمہوریت کی بانی ریاست برطانیہ کی ملکہ عالیہ کے تاج پر صلیب کا نشانہ بناہے اور defender of faith یعنی ”ایمان کی محافظہ“ لکھا ہوا ہے۔ پورے یورپ میں جہاں جہاں شاہی محل ہوگا،اس کے سامنے یا پھر برابر میں اتناہی پر شکوہ کلیسا ہوگا، برسبیل تذکرہ شاہی قلعے کے سامنے بادشاہی مسجد کی شان و شوکت بھی اسی ربط کی عکاسی کرتی ہے ۔ جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں ہم نے بارہا سنا کہ ”اول الامرمنکم“ کی اطاعت سے متعلق جو قرآنی آیت ہیں وہ ہمارے حکمرانوں کی اللہ اور رسول کے بعد اطاعت کرنے کی فرضیت کا حکم ہیں۔ شاید اسی تناظر میں انقلابی شاعر فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ
ہر ایک اول الامر کو صدا دو کہ اپنی فرد عمل سنبھالے
اٹھے گا جب جمع سرفروشاں پڑیں گے دارو رسن کے لالے
دلچسپ بات ہے کہ جب جاپان اپنے ہمسایہ ممالک کو گزشتہ صدی کی ابتدا میں ان پر جنگ مسلط کرکے اپنی نو آبادی بنارہا تھا، تب بھی اپنے اس عسکریت پسند جارہانہ عمل کی توجیح شہنشاہ معظم کے لیے کشور کشائی ہی تھی۔ فوجی مراسلوں اور ڈائریوں سے پتہ چلتا ہے کہ سپاہی اپنے بادشاہ کی خوشنودی کے لیے سلطنت کو توسیع دینا چاہتے تھے۔ اس توسیع پسندی کا انجام اچھا نہ ہوا، باقی سب تاریخ ہے۔ شاہی محل کے ماحول اور عوام الناس میں اس کی تکریم میں ذرا برابر فرق نہیں آیا۔ اپنے طویل قیام کے دوران میں نے کسی جاپانی کے منہ سے شاہی خاندان کے متعلق تنقید کا ایک لفظ نہیں سنا،تنہا میں نے ہی کیا، آج تک میں کسی ایسے آدمی سے زندگی میں نہیں ملا جس نے کبھی کسی جاپانی کے منہ سے قصر شاہی کے متعلق نازیبا یا ناگوار بات سنی ہو۔ بات ہورہی تھی شہزادی ماکو کی شادی کے متعلق ، شہزادی اور اس کے محبوب کی عمریں 26سال ہیں، دونوں یونیورسٹی میں اکٹھے پڑھتے تھے، وہاں پر ہی دونوں کی محبت پروان چڑھی۔ لڑکا وکیل بن گیا ہے اور یوکوہاما میں اپنے والدین کے ساتھ رہتا ہے۔پروگرام تو یہ تھا کہ اسی برس چار مارچ کو دونوں کی منگنی ہوگی اور نومبر میں شہزادی محلوں کو لات مار کر ایک عام لڑکے سے شادی کرکے عامیوں کے درمیان زندگی گزارنے لگے گی، مگر شہزادی سے منسوب اس بیان نے اخبار نویسوں کے کان کھڑے کردئیے ہیں کہ اتنی جلدی بیاہ کے انتظامات ہونا ممکن نہیں لہٰذا اولمپک اور شہزادی کی شادی جاپانی ایک ساتھ یعنی 2020ءمیں دیکھیں گے۔کچھ وہمی قسم کے لوگ سمجھتے ہیں کہ بھئی یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی، ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ رشتہ ٹوٹ جائے۔ وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ سیدھی سی بات ہے کہ شہزادی کی شادی ہے، دھوم ، دھام سے ہوگی، پوری دنیا سے مشاہیر آئیں گے، اب ایسے بڑے منڈل کو سجانے کے لیے وقت تو لگتا ہی ہے۔
(بشکریہ : روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ