این اے 154 کے نتائج کے بعد معلوم ہوا کہ پی پی کا ووٹ بینک ابھی تک اُسی جگہ پر کھڑا ہوا ہے جہاں پر یہ پارٹی 2013ءمیں کھڑی تھی۔ اگرچہ پی پی کے اُمیدوار کی انتخابی مہم کے لیے کوئی بڑا لیڈر لودھراں نہیں آیا۔ البتہ اس انتخاب کے ذریعے پی پی کو یہ فائدہ ضرور ہوا کہ مرزا ناصر بیگ ن لیگ چھوڑ کر پی پی میں واپس آ گئے۔ یعنی
کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے
مرزا ناصر بیگ پی پی چھوڑ کر ن لیگ میں گئے کہ وہاں پر کچھ عزت و احترام ملے گا لیکن جب ن لیگ نے نو لفٹ کا بورڈ دکھایا تو پی پی میں آ گئے۔ ان کے بیٹے علی ناصر بیگ کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ اب ان کو پچھتاوا ہو رہا ہو گا کہ کاش ن لیگ میں رہتے تو کم از کم وہ رقم تو بچ جاتی جو انہیں ضمانت ضبط کرانے کے لیے این اے 154 میں پی پی کی ٹکٹ پر لگائی۔ ضلع لودھراں میں این اے 154 کے نتائج کے بعد اب سب سے مضبوط رہنما عبدالرحمن کانجو ثابت ہوئے جس نے ن لیگ کی ڈولتی نیّا کو مضبوط سہارا فراہم کیا۔
جہانگیر ترین سوچ رہے ہوں گے کاش وہ اپنے بیٹے کی بجائے پارٹی کے کسی کارکن کو ٹکٹ دیتے تو اتنا خرچہ نہ ہوتا۔ وہ پچھتاوے کے ہائی وے پر سفر کر رہے ہیں۔ صدیق بلوچ کا پچھتاوا سب سے زیادہ ہے کہ ان کا سیاسی مستقبل پیر اقبال شاہ چھین کر لے گئے۔ جنرل انتخابات میں صدیق بلوچ یا ان کے بیٹے کو ن لیگ ٹکٹ دیتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ بھی نوجوان عبدالرحمن کانجو کے ہاتھ میں ہے۔
جہانگیر ترین اگر یہ انتخاب جیت جاتے تووہ تحریکِ انصاف میں مضبوط گروپ بنا جاتے۔ اب ان کی رائے کو عمران خان کتنی اہمیت دیتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ البتہ اس نتیجہ کے بعد مخدوم شاہ محمود قریشی تحریکِ انصاف میں اچھی پوزیشن میں آگئے کہ پارٹی میں ان کی مخالفت تو جہانگیر ترین گروپ ہی کر رہا تھا۔ اس رزلٹ کے بعد شاہ محمود قریشی کو کھل کھیلنے کا موقعہ ملے گا۔ شاہ محمود قریشی نے عمران خان کے ہمراہ لودھراں کے جلسہ¿ عام میں شرکت تو کی تھی لیکن ان کے جہانگیر ترین سے اختلافات کوئی ڈھکے چھپے نہیں۔ اس لیے تو شاہ محمود قریشی گروپ بھی درونِ خانہ خوش دکھائی دے رہا ہے۔
ن لیگ کی کامیابی اگرچہ متوقع ہے لیکن اس کے باوجود ن لیگ نے پیر اقبال شاہ کی صورت میں عمر رسیدہ اُمیدوار نامزد کیا۔ اس نے دو نوجوانوں کو شکست سے دوچار کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لودھراں کے عوام نے ایک بزرگ کو منتخب کروا کر یہ پیغام دیا کہ ان کے دلوں میں آج بھی بزرگوں کا احترام موجود ہے۔ ن لیگ نے بڑے جلسوں کی بجائے یونین کونسل کے ذریعے اپنا پیغام پہنچایا جس میں انہیں کامیابی ملی۔ الیکشن ڈے پر ن لیگ پلاننگ کے تحت ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں پر لائی۔ حتیٰ کہ ن لیگ کے حامی تحریکِ انصاف کی مہیا کردہ سواری کے ذریعے ووٹ ڈالنے آئے۔ دوسری طرف تحریکِ انصاف کے ورکرز اس مرتبہ سیٹ بچانے کی بجائے لاکھوں روپے کمانے میں مصروف ہے۔ مڈل مَین نے تمام پیسے خود رکھ لیے جس کے بعد 50 ہزار ووٹ کی لیڈ کا خواب دیکھنے والے علی ترین، بدترین شکست سے دوچار ہو گئے۔ اگر تحریک لبیک یارسول اﷲ کا اُمیدوار نہ کھڑا ہوتا تو وہ 10275 ووٹ بھی پیر اقبال شاہ کو ملتے۔ یوں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ پیر اقبال شاہ اور ان کی ٹیم نے اس الیکشن میں بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے علاوہ پیر اقبال شاہ کی فتح میں لودھراں شہر کے میونسپل سربراہ نے بھی تحریکِ انصاف کو ہر یونین کونسل میں شکست سے دوچار کیا۔ اس کی وجہ سے جہانگیر ترین اپنے گھر کی یونین کونسل سے بھی ہارے۔ دوسری جان پیر اقبال شاہ کے بیٹے عامر شاہ جس حلقے سے ایم پی اے ہیں وہاں پر بھی پی ٹی آئی کے مضبوط اُمیدوار شفیق ارائیں اور آصف اعوان مل کر بھی جیت کا سامان پیدا نہ کر سکے۔ اس مرتبہ ایم پی اے حلقہ 211 احمد خان بلوچ اور سابق ایم پی اے رفیع الدین بخاری نے بھی کھل کر پیر اقبال شاہ کا انتخابی اقبال بلند کرنے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ اس میں کامیابی بھی حاصل کی۔ ان دونوں اصحاب نے گزشتہ انتخاب میں صدیق بلوچ کی اندرون خانہ مخالفت کی تھی۔ اس مرتبہ ن لیگ نے تمام ناراض دھڑوں کو رام کیا اور آخرکار کامیابی نے پیر اقبال شاہ کے قدم چوم لیے۔ آخر پیر اقبال شاہ کامیاب کیوں ہوئے؟ یہ سوال پورے ملک کے سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ پیر اقبال شاہ کی کامیابی کیا نواز شریف کی کامیابی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں این اے 154 میں ن لیگ کی کامیابی بہت بڑا بریک تھرو ہے۔ کیا آنے والے انتخابات میں بھی ن لیگ کلین سویپ کرنے جا رہی ہے؟ حلقہ 154 میں فاتح قرار پانے کے بعد ن لیگ کو مجموعی طور پر یہ بھی فائدہ ہوا ہے کہ اس سے ہوا کے رُخ کا اندازہ ہو گیا۔ ن لیگ کے وہ ایم پی اے و ایم این اے اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد تحریکِ انصاف میں اپنے معاملات طے کر چکے تھے۔ وہ بھی اب پارٹی چھوڑنے کے متعلق سوچیں گے۔ اس انتخاب نے تحریکِ انصاف کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ کو نئی زندگی ملی جبکہ پی پی کے بارے میں ہمارے دوست ڈاکٹر عباس برمانی کا جملہ پڑھ لیں اور لطف اٹھائیں کہ پی پی پنجاب میں اپنے اُمیدواروں سے کیسا سلوک کر رہی ہے۔
”پیپلز پارٹی پنجاب کے الیکشنز میں کمپین نہیں کرتی صرف ٹکٹ ہولڈرز کو بے عزت کرتی ہے“
آخر میں ن لیگ کے پیر اقبال شاہ کو چند ہفتوں کے لیے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے پر مبارکباد۔ اس کے ساتھ ساتھ مخدوم شاہ محمود قریشی کو مبارک دینا چاہیں گے۔ اس موقعہ پر آپ یہ مت پوچھیں کہ ہم شاہ محمود قریشی سے مٹھائی کا تقاضا کیوں کر رہے ہیں؟ ظاہر ہے پیر اقبال شاہ سے ہماری راہ و رسم نہیں البتہ پیر شاہ محمود قریشی ہمارے ملتان کے ہیں۔ ہمیں تو بس پیر کے جیتنے کی خوشی میں مٹھائی کھانی ہے اس لیے ملتانی پیر سے مطالبہ مٹھائی کا کر دیا ہے۔
فیس بک کمینٹ