">دل نے ہمیشہ یہی چاہا کہ دنیا امن کے ہنڈولے میں جھولتی ہو لیکن ایک ایسی صدی میں پیدا ہونا مقدر ہوا جس میں2عظیم جنگیں لڑی گئیں اور کیا مشرق‘ مغرب‘ شمال اور جنوب ہر طرف تعصب اور تشدد کا بول بالاہوا۔کروڑوں انسان قتل ہوئے اور کروڑوں دربدر ہوئے دورکیوں جائیں‘ افغانستان عراق اور شام پر ایک نگاہ ڈالیے، ہرطرف بمباری سے برباد شدہ گھر ہیں، ہرطرف پناہ کی تلاش میں نکلے ہوئے لوگ ہیں جن میں سے ہزاروں راستے میں ہی لقمہ اجل ہوئے ‘ ساحل پر پہنچ کر پانی میں سو جانے والے بچے ہیں۔ ایک وقت کی روٹی کے لیے ہاتھ پھیلائے ہوئے لڑکے‘ لڑکیاں‘ عورتیں اور بوڑھے ہیں۔ ایسے المناک منظر جنھیں دیکھ کر اپنے گھر نرم بستر اور گرم کھانوں پر شرم آئے۔
50کی دہائی تھی جب تقسیم کو برصغیر کے لیے نسخہء شفا بتایا جاتا تھا ۔کہا جاتا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو تناؤ اور تعصب تھا اسے ختم کرنے کے لیے برصغیر کو تقسیم کیا گیا تا کہ سب آرام سے رہ سکیں۔ اس زمانے میں بھی یہ سوال پوچھا کہ پھر1947اور1948میں دونوں فرقوں کے لوگوں نے ایک دوسرے کو کیوں ذبح کیا اور کیوں بستیوں کو آگ لگائی ؟ تو سب کے پاس اس سوال کا جواب بس یہی تھا کہ یہ مشکل معاملات ہیں، ابھی سمجھ میں نہیں آئیں گے۔
65ء اور71ء ہماری تاریخ کے ایسے سانحے ہیں جو اگر رونما نہ ہوتے تو یہ دونوں ملک اور سارا خطہ کتنی بہت سی مشکلوں سے نہ گزرتا‘ اس کے کروڑوں انسان خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوتے۔ تعلیم ہمارے کروڑوں بچوںکی طرف سے منہ پھیرکرنہ گزرتی اور مدقوق بچوں کی فوج ہماری بستیوں میں نہ دکھائی دیتی۔ وہ بچے جن کی زرد آنکھیں، پچکے ہوئے گال اور پیٹھ سے لگی ہوئی پسلیاں پکار پکار کر نہ کہتیں کہ ہماری حکمران اشرافیہ کو ہم پر ترس کیوں نہیں آتا؟ اربوں ڈالر اسلحے کی خریداری پر خرچ کردیے جاتے ہیں، اس کے کمیشن سے پر تعیش زندگی گزاری جاتی ہے لیکن ہمارے حصے میں ایک ڈسپرین بھی نہیں آتی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تقسیم در تقسیم کا سلسلہ نہ چلتا۔
امن برصغیر کی ضرورت ہے ۔ روزانہ لائن آف کنٹرول پر ہلاک ہونے والی عورتوں، مردوں اور بعض اوقات ڈھورڈنگروں کے مارے جانے کی بھی خبریں آجاتی ہیں ۔۔ یہ سب کچھ تقسیم کا باقی رہ جانے والا ایجنڈا ہے۔ لاہور میں فیض امن میلہ ختم ہوا ہے۔ فیض نے کبھی کوئی جنگی ترانہ نہیں لکھا اور کبھی جنگ کی تعریف و توصیف نہیں کی، وہ آخر تک یہی کہتے رہے کہ’ ذہنی طور سے مجنون اور جرائم پیشہ لوگوں کے علاوہ سب ہی مانتے ہیں کہ امن اور آزادی بہت حسین اور تابناک چیز ہے‘۔ فیض نے امن کو بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ اور دلہن کے آنچل سے تشبیہ دی۔ جنگ میں مارے جانے والے سپاہی کا مرثیہ لکھا تو اس میں سے کہیں آتش انتقام کی آنچ نہیں آتی تھی۔ لکھا تو کچھ یوں کہ
اٹھو اب ماٹی سے اٹھو
جاگو میرے لال
اب جاگو میرے لال
گھرگھر بکھرا بھور کا کندن
جانے کب سے راہ تکے ہیں
بالی دلہنیا ‘ بانکے ویرن
سونا تمرا راج پڑا ہے
دیکھو کتناکاج پڑا ہے
بیری براجے راج سنگھاسن
تم ما ٹی میں لال
اٹھواب ماٹی سے اٹھو‘جاگو میرے لال
یہ مرثیہ جو کسی مذہبی، نسلی اور لسانی تفریق کے بغیر کسی بھی سرحدپر گولی کا نشانہ بننے والے ہرسپاہی کا مرثیہ ہے۔ وہ اپنے دھیمے لہجے میں اس سے بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ ’ بیری براجے راج سنگھاسن‘ اور پھر بنتی کرتے ہیں کہ ’ اٹھواب ماٹی سے اٹھو‘ جاگو میرے لال‘۔ گزشتہ 70برس میں پاکستانی اور ہندوستانی عوام کی جو لاتعداد ہلاکتیں ہوئیں سو ہوئیں، دونوں طرف کے ان گنت سپاہی بھی خاک وخون میں نہا گئے، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا اور دونوں طرف ہڈیوں کے پہاڑکھڑے ہوتے رہیں گے۔
نفرت کا دیو اپنے دانت نکوستا ہوا دونوں طرف کے لوگوں کو افرادی قوت سے اوران کے وسائل سے محروم کرتا رہے گا۔ دونوں طرف کے جنگجوؤں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی سرحدیں بدل لیں، اپنے ملکوں کوایشیا سے افریقا میں اٹھا لے جائیں‘ یہی وجہ ہے کہ امن پسند عناصرخواہ کتنے ہی ناپسندیدہ ہوں لیکن آخری مرحلے پر وہی یاد کیے جاتے ہیں۔
ایسے میں ایک فرد منی شنکرآئیرہیں۔70کی دہائی میں ان کی تعیناتی کراچی میں ہندوستان کے قونصل جنرل کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ ایک فرد صورت حال پر کس قدر اثرانداز ہوتا ہے ‘ اسے دیکھنا ہو تو ان برسوں پر نگاہ ڈالیے جب منی شنکر کراچی میں تھے اور انھوں نے اپنے دوستانہ رویے سے دونوں ملکوں کی سرحدوں کو نرم کردیا تھا۔ ویزے یوں جاری ہوتے تھے کہ لوگوں کویقین نہیں آتا تھا۔ ان کے زمانے میں انڈیا ہاؤس کی ادبی محفلیں یادگار تھیں۔
وہ ایک سفارت کار تھے، اب سیاست دان ہیں۔ ان کی سفارت کاری بے مثال تھی اور اب ریٹائر ہونے کے بعد سے وہ سیاست میں ہر وقت سرگرم ہیں۔ انھیں جب بھی موقع ملے وہ پاکستان اور ہندوستان کے بیچ دوستی اور قریبی تعلق کی بات کرنے سے نہیں چوکتے، ہندوستان میں ایک حلقہ ایسا ہے جو انھیں پاکستان دوستی کے طعنے دیتا ہے، وہ لوگ بھی موجود ہیں ج انھیں ’’غدار‘‘ کہتے ہیں لیکن منی شنکر نے کبھی ان باتوں پر کان نہیں دھرا اور وہی کچھ کہا جسے وہ درست سمجھتے ہیں اور جوان کے خیال میں دونوں ملکوں کے لیے بہتر ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جب وہ ایک ادبی میلے میں شرکت کے لیے کراچی آئے تو میں ملک سے باہر تھی اور ان سے ملاقات نہ ہو سکی لیکن ان کی تقریر‘ ان کے انٹرویو مجھ تک پہنچتے رہے۔
وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ہمارے ملکوں کے بیچ مسائل کا حل صرف اس بات میں مضمر ہے کہ دونوں کے درمیان کسی رکاوٹ اورکسی الجھن کے بغیر مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے۔ انھوں نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر یہ کہا کہ پاکستان اس بات سے متفق ہے لیکن یہ ہندوستان ہے جو اس پالیسی پر عمل پیرا نہیں۔ اس بارے میں اپنے کردار کو انھوں نے یونانی دیوتا Sisyphus سے تشبیہ دی۔ جس کے مقدرمیں لکھ دیا گیا تھا کہ وہ ایک بہت بھاری چٹان کودھکیلتا ہوا ایک پہاڑ کی چوٹی تک لے جائے۔ انھوں نے لفظوں کو چبائے بغیر یہ کہا کہ میں پاکستان سے اس لیے محبت کرتا ہوںکہ مجھے ہندوستان سے محبت ہے ۔
انھوں نے بجا طور پر یہ کہاکہ کشمیر اور اس سے جڑی ہوئی دہشت گردی وہ دو معاملات ہیں جوامن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان اگر اس فریم ورک پر چلے جائیں جن کا تعین جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا تھا۔ یہ فریم ورک تین برس میں تیار ہوا تھا‘ اگراس کی طرف رخ کیا جائے اور دونوں ملک از سر نو مکالمہ کا آغاز کریں تو بہت سے مسئلے چٹکی بجاتے حل ہو سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کواس بات کی شکایت ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردوں کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ صورت حال ہے جس میں فتح مند دونوں طرف کے دہشت گرد ہیں اور نقصان دونوں ملکوں اوران کے عام آدمی کا ہے۔
(جاری ہے)
فیس بک کمینٹ