آج سے 98 سال قبل، امرتسر میں ایک باغ میں موجود نہتے افراد پر گولی چلائی گئی اور قریباَ 15 سو سے دو ہزار تک افراد ہلاک ہو گئے۔ برطانیہ کے نو آبادیاتی طرزِ حکومت کے ماتھے پر لگا یہ داغ سو سال بعد بھی نہیں دھل پایا۔ نو آبادیاتی حکومتوں کے مظالم ہم نے آج بھی کلیجے سے لگا رکھے ہیں اور رکھنے چاہئیں۔ انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ کسی خطے کے لوگوں کو غلام بنا کر ان سے معاشی فائدے حاصل کریں۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ جنرل ڈائر کے اس حکم کے پیچھے مس شیر ووڈ سے کی جانے والی بد سلوکی تھی۔ یہ بد سلوکی مبینہ طور پہ ایک ہجوم نے کی تھی اور اس کے پیچھے کوئی ہندوستانی لیڈر یا سیاسی جماعت نہ تھی۔ ڈائر نے اس کا بدلہ لیا، اس بدلے نے ہندوستانیوں کے دل میں جو آگ لگائی وہ انگریزوں کو نکال کر بھی ٹھنڈی نہ ہوئی۔ برطانیہ کی ملکہ نے ایک دورے کے دوران ہندوستانیوں سے اس جرم کی معافی بھی مانگی۔
میں امرتسر گئی تو، جلیانوالہ باغ نہ گئی اور گولڈن ٹمپل ہی سے واپس آگئی۔ میزبانوں کو حیرت ہوئی مگر میں نے کافی مدت پہلے جنرل ڈائر کو جزوی طور پہ معاف کر دیا تھا، جب 1984ء میں ہندوستان کی اپنی حکومت نے اپنے ہی لوگوں پہ تاریخ کا بد ترین ظلم کیا۔ دنیا بھر کے میڈیا کو منظر سے ہٹا دیا اور جانے کتنے یاتریوں کو مار دیا گیا۔ وہ بھی ایک تہوار کے لیے اکٹھے ہوئے تھے، عین اسی طرح جیسے 1919ء میں بیساکھی کے لیے۔ ان دونوں واقعات میں حکومت مذہبی اجتماعوں کی آڑ میں موجود کسی پرتشدد گروہ کی موجودگی سے خائف تھی۔ دو ہزار دس میں سیالکوٹ میں دو کم عمر لڑکوں کو جانے کس شبہے میں ہجوم نے جان سے مار ڈالا، ان کی لاشوں کو گھسیٹا، ٹرک میں ڈال کے نمائش کی اور آج تک میں یہ نہیں جان پائی کہ ماجرا کیا تھا، ہوا کیا تھا؟ اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی ایسے درجنوں واقعات ہوئے جن میں ہجوم نے اپنی جانب سے انصاف کیا اور 99 فیصد وہ غلط ہی ثابت ہوا، مگر ہجوم پہ فردِ جرم عائد نہیں ہوتی، افراد ہی پر ہوتی ہے اس لیے یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد سے گائے کے ذبیحہ پر مختلف طرح کی پابندیوں کے باعث، دلت مسلمان اور دوسرے مذاہب کے لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ بارہا ایسے واقعات رونما ہوئے، جن میں صرف بیف، کھانے یا رکھنے کے شبہے میں ہجوم نے کسی بے گناہ کو جان سے مار ڈالا۔ دادری کے اخلاق کا معاملہ سب کو یاد ہو گا۔ ہجوم کے جذبات کیا ہوتے ہیں اور یہ ہجوم کیا ہوتا ہے؟ میرے نزدیک، یہ بے سمت لوگوں کا وہ ریوڑ ہوتا ہے، جو مٹ جانے کے خوف کا شکار ہوتا ہے۔ موت ایک حقیقت بھی ہے اور بقاء کی خواہش میں انسان نے جانے کیا کیا جتن کیے ہیں۔ ہجوم اکٹھا ہونے کے لیے ایک اجتماعی خوف درکار ہوتا ہے، چاہے وہ مذہبی علامات کی بے حرمتی کا خوف ہو، قوم کے طور پہ مٹ جانے کا خوف ہو، قبیلے، برادری، لسانی گروہ یا سیاسی سوچ پہ حرف آنے کا ڈر ہو لیکن ہجوم کے پیچھے صرف خوف کا جذبہ محرک کے طور پہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ انسانوں کو ایک جگہ جمع کرنے کے لیے ایک مشترکہ دشمن کو تصور دیا جاتا ہے۔ یہ خوف ہی انسانوں کو ایک بھیڑ کی شکل میں اکٹھے ہونے اور پھر کسی طرف آمادۂ پیکار ہونے پہ اکساتا ہے۔ انسانوں کا ہر گروہ ہجوم نہیں ہوتا۔ حج کے موقع پر، بڑے بڑے میلوں کے مواقع پر، مختلف مذہبی اجتماعوں کے موقعے پر بھی انسان اکٹھے ہوتے ہیں، صرف مسلمان ہی نہیں تمام مذاہب میں اجتماعی عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بہت ہی کم ایسا ہوا ہے کہ ان اجتماعات سے کسی کو خطرہ لاحق ہوا ہو یا ان کے اکٹھے ہونے سے کوئی حادثہ رونما ہوا ہو۔ کیونکہ وہ ہجوم نہیں ہوتا، ایک مذہبی گروہ ہوتا ہے۔ 14 اپریل کو مردان یونیورسٹی میں مشال خان کی اپنے ہی ساتھی طلباء کے ہاتھوں ہلاکت نے ایک بات واضح کر دی کہ وہ طلباء کسی قوم، کسی مذہبی گروہ کا حصہ نہیں تھے۔ وہ خوفزدہ لوگوں کا ایک ایسا ہجوم تھا جو اپنے مٹ جانے سے خوفزدہ تھا اور مٹ جانے کے اس خوف میں انھیں لگا کہ مشال خان وہ طاقت ہے جو انہیں ختم کر دے گی اور اس سے پہلے کہ وہ انہیں ختم کر دے، انھوں نے اسے مار ڈالا۔ ایک اندھی اکثریت نے ایک نہتے انسان کو مار ڈالا جو بالکل ان ہی کی طرح گوشت پوست کا بنا ہوا تھا۔ مارنے والے تو جانے کہاں فرار ہوئے، پیچھے رہ جانے والوں نے شاید اسے کھانے کے لیے اس کے ٹکڑے کرنے شروع کر دیے۔ کھا نہ پائے تو یوں ہی لطف لیتے رہے، ہونٹوں پہ زبان پھیرتے رہے، لگڑ بھگوں کی طرح دانت نکوستے رہے۔ مجھے اس گروہ میں کوئی انسان نظر نہ آیا مسلمان تو خیر ذکر ہی مت کیجیے۔ غالباً ایوب خان جب بادل نخواستہ اقتدار چھوڑ رہے تھے تو انھوں نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا ’یہ قوم نہیں ہجوم ہے‘۔ پچھلے کتنے ہی برسوں سے ہم اس بات کو سچ ثابت کرتے آ رہے ہیں۔ جانے کتنے حادثوں سے گزر کر ہم ایک قوم بنیں گے۔ ہندہ کو معاف کر دینے والے میرے آقا کی قوم، جسے مٹ جانے کا خوف نہیں ہو گا۔
(بشکریہ:بی بی سی)
فیس بک کمینٹ