دوست جانتے ہیں کہ میں ایک طویل عرصے سے نیوز چینل نہیں دیکھ رہا۔خبر اور اخبار سے دیرینہ تعلق ہونے کے باوجود یہ چینلز اب مجھے اذیت دیتے ہیں۔ اخبار البتہ میں باقاعدگی سے پڑھتا، بہت سے پڑھتا ہوں اخباروں میں اب بھی کچھ نہ کچھ پڑھنے کو مل جاتاہے ۔(کیا پڑھنے کو ملتا ہے یہ ایک الگ موضوع ہے) پھر بھی کوئی لمحہ ایسا آتاہے اورکوئی خبرایسی ہوتی ہے کہ جس کی تصدیق کے لئے چینلز کی جانب رجوع کرناپڑتاہے ۔ایسی ہی ایک خبر آج میرے لئے بہت اہمیت کی حامل تھی دوپہر کے وقت جب سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ نامور ادیب ،دانشور اوربیوروکریٹ مختار مسعود انتقال کرگئے ہیں تواس خبر کی تصدیق کے لئے میں نے ٹی وی آن کرلیا۔ کم وبیش دوگھنٹے کی تلاش کے باوجودمجھے مختار مسعود کے انتقال کی خبر تو کیا کہیں کوئی ٹکر بھی دکھائی نہ دیا۔مختلف اخبارات کی ویب سائٹ پرگیا خبروہاں بھی موجودنہیں تھی ۔کسی نے بتایاکہ ایک دوچینلز نے ان کے انتقال کی خبرکچھ لمحوں کے لئے ٹیلی کاسٹ کی اوراس کے بعد خاموشی اختیار کرلی کیونکہ چینلز کی ریٹنگ کے لئے مختارمسعود کی بھلا کیااہمیت ہوسکتی ہے۔چینلوں کے پاس دکھانے اورسنانے کےلئے اوربہت کچھ ہے ۔ایک بیوروکریٹ جوسیکرٹری کی سطح کے عہدوں پرفائز رہا جس کی حب الوطنی پرکوئی شبہ نہیں کیاجاسکتا۔اور جو آج کے بیوروکریٹس کی طرح کرپٹ نہیں تھا جس نے مینار پاکستان کی تعمیر کی نگرانی کی جو ملتان میں بھی ڈپٹی کمشنر تعینات رہا اور بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ملتان کی شاہین مارکیٹ مختار مسعود کی تعیناتی کے زمانے میںتعمیر کی گئی تھی اور اس کا نام ان کی اہلیہ کے نام پر ہی رکھا گیا تھا۔ ٹی وی چینل بھلا اس مختار مسعود کو کیوں اہمیت دیتے جس نے صرف تین کتابیں تحریر کیں اوراردوادب میں ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا جو”آوازِ دوست “ ”سفرنصیب “ اور ”لوح ایام “جیسی تاریخی کتابوں کاخالق تھاایک بہت بڑا نثر نگار تھا اور جسے حکومت پاکستان نے اس کی خدمات کے اعتراف میں سب سے بڑے سول ایوارڈ ستارہ امتیاز سے نوازا تھا ۔خود سوچیں وہ مختارمسعود بھلا چینلز کے لئے کیسے اہم ہوسکتا تھا اور ویسے بھی فی زمانہ ہمارے لئے دشمنوں کی آوازیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں آوازِ دوست تو کان پڑے شور میں سنائی ہی نہیں دیتی ۔ چینلز کے پاس اوربہت سے موضوعات ہیں جس روزمشعال خان کو بے دردی سے قتل کیاگیااس دن تو تمام چینلز کوسانپ سونگھ گیا تھالیکن اب ان کے لئے یہ خبر بہت اہم تھی کہ وزیراعظم نے آخر کار 48 گھنٹوں بعد مشعال کے قتل کی مذمت کردی ۔چینلز کے لئے کسی کرکٹرکی شادی ،منگنی اور جوا ، یاکسی ماڈل کی زندگی زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے چینل کے لئے کسی کنویں میں گری ہوئی بلی اور آئی ایس پی آر کا پریس ریلیز زیادہ اہم ہوتا ۔ایک دوست سے جب اس دکھ کا اظہاکیا تواس نے ایک ہی جملے میں بات سمیٹ دی گویا دریا کوزے میں بند کر دیاکہنے لگے تم بھی پاگل ہو مختا رمسعود کی خبر ڈھونڈنے کے لئے ٹی وی چینلز اور ویب سائٹس کنگھال رہے ہو یہ خبر تمہیں آسانی سے نہیں ملے گی۔ مختار مسعود ایان علی تونہیں تھے کہ جن کے لئے کوئی
بریکنگ نیو زچلائے یا میراتھن ٹرانسمیشن شروع کر دے ۔
فیس بک کمینٹ