بیگم کلثوم سے میری پہلی ملاقات 2007 میں ہوئی جب لندن میں کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد ہو رہا تھا۔ بیگم کلثوم اور مریم نواز نے مجھے چائے کی دعوت دی۔ بحیثیت صحافی ذاتی مراسم پیشہ ورانہ زندگی پر اثر انداز ہونے کا احتمال رہتا ہے لہٰذا اس طرح کا میل جول مجھے نامناسب لگتا ہے تاہم اُن کے اصرار پر میں اُن سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گئی۔یہ پہلی ملاقات تقریباً چار گھنٹے پر محیط ہو گئی۔ ان چار گھنٹوں میں سیاست، ادب، ان کی سیاسی زندگی اور ان کے بچوں کے بارے میں خاصی بات چیت ہوئی۔ میں اس ملاقات میں ان سے کافی متاثر ہوئی۔ خاص طور پر ادب پر ان کی گفتگو، غالب، میر اور کئی شعرا انھوں نے پڑھ رکھے تھے۔یہ ملاقات چونکہ اُس وقت ہوئی جب وہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہی تھیں لہٰذا اُن کی گفتگو میں آمریت کے خلاف ان کی جدوجہد اور پاکستان کے بارے میں ان کی فکرمندی کافی نمایاں تھی۔ بیگم کلثوم نے اس موقع پر عملی سیاست میں نہ آنے کی وجہ میاں صاحب کو قرار دیا کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کا خاندان ان کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہو کیونکہ اُس صورت میں وہ بچوں کو وقت نہ دے پاتیں۔یوں تو اس کے بعد بھی چند ملاقاتیں رہیں مگر گذشتہ برس 28 جولائی کے بعد اور اُن کے انتخاب لڑنے سے پہلے جب یہ فیصلہ کیا جا رہا تھا کہ وہ این اے 120 پر الیکشن لڑیں یا نہیں تو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے مجھ سمیت بہت سے صحافیوں کو مدعو کیا۔ ملاقات کے بعد جب ہم روانہ ہونے لگے تو بیگم کلثوم پنجاب ہاؤس میں اپنے کمرے کے دروازے پر موجود تھیں۔ انھوں نے مجھے اندر آنے کو کہا، اپنی بیماری کے بارے میں تذکرہ کیا گو کہ اس وقت تک کینسر جیسے مرض کی تشخیص نہیں ہوئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے کہا کہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ انھیں آج بھی جمہوریت کے لیے لڑنا ہے اور ہم ایک مرتبہ پھر وہیں کھڑے ہیں جہاں 1999 میں کھڑے تھے۔بیگم کلثوم محترمہ بینظیر بھٹو کی بہت معترف تھیں اور جدہ میں پہلی ملاقات کے بعد سے بی بی سے ان کا ایک ذاتی تعلق بن چکا تھا۔ وہ ان کی جمہوریت کے لیے قربانیوں کا اعتراف کرتی تھیں اور ان کی شخصیت کی مداح تھیں۔ میری آخری ملاقات اس ملاقات کے کم و بیش ایک برس بعد رواں برس 13 جولائی کو یعنی میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کی وطن واپسی والے دن ہوئی مگر یہ وقت اور حالات بیگم کلثوم نواز کے لیے کٹھن تھے۔میں میاں نواز شریف کا انٹرویو کرنے ہارلے سٹریٹ پہنچی تو مریم نواز کافی مضطرب مگر مضبوط نظر آ رہی تھیں۔ مجھے اپنے ساتھ وہاں لے آئیں جہاں بیگم کلثوم مصنوعی تنفس پر تھیں، اتنے میں کمرے کے ماحول سے اندازہ ہوا کہ کچھ خاص ہوا ہے۔ میاں نواز شریف بیگم کلثوم سے مخاطب ہونے کی کوششش کر رہے تھے اور وہ خالی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔ اتنے میں مریم نواز شریف نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اپنی والدہ کو مخاطب کیا اور کہا کہ وہ ان سے بات کریں تاہم وہ بات نہیں کر سکتی تھیں اور ڈاکٹرز نے انھیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔یہ بیگم کلثوم سے میاں نواز شریف اور مریم نواز کی بھی آخری ملاقات تھی۔
فیس بک کمینٹ