کولکتہ کا ایڈن گارڈنز اس خطے کا قدیم ترین کرکٹ سٹیڈیم ہے۔ ڈیڑھ سو سال پہلے تعمیر کیے جانے والے اس سٹیڈیم سے انڈین کرکٹ شائقین کا لگاؤ کچھ ایسا والہانہ ہے کہ علامتی طور پہ اسے ‘انڈین کرکٹ کا مکہ’ قرار دیا گیا ہے۔
مگر 13 مارچ 1996 کو ورلڈ کپ سیمی فائنل میں جب سنتھ جے سوریا نے سچن تندولکر کو آؤٹ کر کے انڈین بیٹنگ لائن کو بے یار و مددگار کر چھوڑا تو چند ہی لمحوں میں انڈین کرکٹ کے لیے مقدس ترین جگہ تصور کیا جانے والا یہ سٹیڈیم شعلوں کی لپیٹ میں نظر آیا۔
دو ہی روز پہلے کوارٹر فائنل میں شکست کے بعد پاکستانی کپتان عامر سہیل نے انڈیا کے فائنل میں پہنچنے اور ٹائٹل کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا تھا۔ کوارٹر فائنل میں شکست پر جہاں ایک طرف لاہور میں وسیم اکرم کے پُتلے جلائے گئے تھے، وہیں سیمی فائنل میں محض 22 رنز کے عوض چھ وکٹیں گرنے پر انڈین شائقین نے نہ صرف گراؤنڈ میں بوتلیں پھینک کر ونود کامبلی کو رُلا ڈالا بلکہ سٹیڈیم کے کچھ حصوں کو بھی نذرِ آتش کر چھوڑا۔
میچ ریفری کلائیو لائیڈ نے سنبھالنے کی کوشش کی مگر بالآخر میچ مکمل ہوئے بغیر ہی سری لنکا کو فاتح قرار دیا گیا اور حالات اس قدر بے قابو ہو گئے کہ کپتان اظہرالدین کے گھر کو ریاست کی طرف سے سکیورٹی فراہم کرنا ضروری ہو گیا۔
کرکٹ شائقین کی نئی جنریشن جو اس تاریخ سے واقف نہیں ہے، گذشتہ دنوں شارجہ کرکٹ سٹیڈیم میں پاک افغان میچ کے بعد کی صورتحال پر بہت متعجب دکھائی دی مگر کرکٹ میچز میں جب کوئی دو روایتی حریف مدِمقابل ہوں یا کوئی ٹائٹل داؤ پر ہو تو تماشائیوں کے بیچ ایسے دنگے پھوٹ پڑنا اس قدر اچنبھے کی بات نہیں ہے۔فٹبال کے میچز میں تو ہم ان واقعات سے کہیں زیادہ سنگین چیزیں بھی دیکھ چکے ہیں۔
مگر جب ایسی لڑائی کسی سیاق و سباق سے خالی ہو تو اس پہ سوال ضرور اٹھتے ہیں کہ وجہ کیا ہوئی؟ کیونکہ انڈیا سے پاکستان کی سیاسی رقابت کی ایک تاریخ ہے اور انڈیا پاکستان مقابلوں میں ایسے ردِعمل نظر آنا قابلِ فہم بھی ہیں مگر افغانستان کے ساتھ پاکستان کی ایسی کیا تاریخی مخاصمت ہو گئی کہ افغان شائقین کرسیاں اکھاڑ کر پاکستانی شائقین پر اچھالنے لگیں؟
اور جب یہ تاریخی حقائق مدِنظر رکھے جائیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے واقعتاً افغان کرکٹ کو اپنے ہاتھوں سے پالا پوسا ہے تو الجھن کچھ اور بڑھ جاتی ہے۔ افغانستان کے پہلے کوچ سابق پاکستانی کرکٹر کبیر خان تھے جن کی کوچنگ میں افغانستان نے تین ورلڈ ایونٹس کے لیے کوالیفائی کیا۔ پھر یہ بھی سابق پاکستانی کرکٹر انضمام الحق ہی تھے جن کی کوچنگ میں افغانستان نے زمبابوے کے خلاف پہلی ون ڈے سیریز جیتی۔
سنہ 2013 میں جب افغانستان کرکٹ بورڈ کے پاس فنڈز کی کمی تھی اور اسے شارجہ کو اپنا ہوم گراؤنڈ برقرار رکھنا دشوار ہو رہا تھا تو پاکستان نے نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے دروازے ان کے لیے کھول دیے۔ نہ صرف یہ بلکہ انڈر 19 ایشیا کپ کی تیاری کے لیے بھی بھرپور سہولیات فراہم کیں۔پاکستان اور افغان کرکٹرز کا بھی ایک تاریخی تعلق ہے۔ محمد نبی نے اپنی کرکٹ کا آغاز یہیں سے کیا، راشد خان نے بھی پشاور کے ایک پناہ گزین کیمپ سے اپنی کرکٹ شروع کی۔ پشاور کی وجاہت اللہ واسطی کرکٹ اکیڈمی نے ان افغان کرکٹرز کو کھیلنے اور سیکھنے کے مواقع فراہم کیے۔
یہ دوطرفہ تعلق ایک مثال سا بنتا جا رہا تھا اور افغان کرکٹ بورڈ کے سربراہ شفیق ستانکزئی پی سی بی کے احسانات کا دم بھرتے نہیں تھکتے۔مگر جب افغان کرکٹ کی ایک پہچان پیدا ہونے لگی، اتفاق سے یہ وہی وقت تھا جب آئی سی سی میں بِگ تھری نامی گٹھ جوڑ پیدا ہو رہا تھا اور بی سی سی آئی ایسوسی ایٹ ٹیموں کے حق پر نگاہیں جمانے کے سبب تنقید کی زد میں تھا۔ سو، سری نواسن کے وارثوں نے عین اسی وقت افغان کرکٹ کو گود لے لیا جس سے دنیا بھر میں انڈین کرکٹ بورڈ کا بھی ایک سافٹ امیج ابھارنے میں مدد ملی۔
افغان کرکٹرز پر آئی پی ایل کے دروازے کھولے گئے۔ پھر گریٹر نوئیڈا کا ایک گراؤنڈ افغان کرکٹ کے حوالے کیا گیا، پھر دہرہ دون کا سٹیڈیم بھی افغانستان کا ہوم گراؤنڈ بن گیا۔ ساتھ ہی انڈین کرکٹ بورڈ نے یہ بھی طے کر دیا کہ جو ٹیم انڈیا کے دورے پر آئے گی، وہ افغانستان سے بھی ایک میچ کھیلے گی۔
یہ ساجھے داری ایسی گاڑھی چھنی کہ بعد ازاں جب نریندر مودی کی حکومت نے افغانستان میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی تو قندھار اور مزار شریف میں کرکٹ سٹیڈیمز کی تعمیر کا بھی اعلان کیا گیا۔مگر اس سب کے باوجود افغان کرکٹرز کا پاکستان سے تعلق ختم نہیں ہوا۔ ان میں سے کئی لوگ پاکستانی شہریت کے بھی حامل تھے۔ کچھ کے خاندان ہی پاکستان میں بس رہے تھے تو کچھ ازدواجی رشتوں کی وساطت پاکستان سے جڑے تھے۔
پاکستان افغانستان کرکٹ تعلقات ایسے پنپ رہے تھے کہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں ایک دوطرفہ کرکٹ سیریز بھی طے کر چکی تھیں جس کا ایک حصہ لاہور میں کھیلا جانا تھا جبکہ دوسرا کابل میں۔ اور یوں پی سی بی کے ہی طفیل افغانستان کو پہلی بار عالمی کرکٹ کی میزبانی کا اعزاز بھی حاصل ہونا تھا۔مگر پھر 31 مئی 2017 کا دن آیا اور پاک افغان کرکٹ تعلقات کو ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔
اگرچہ 31 مئی 2017 کی صبح کابل کے شہریوں کے لیے معمول کے ایک دن کا آغاز تھی اور کاروبارِ زندگی کے آغاز کی گہما گہمی معمول کے مطابق جاری تھی مگر اچانک ڈپلومیٹک کوارٹرز میں بارودی مواد سے لیس ایک گاڑی جرمن سفارت خانے کے قریب پہنچی اور پھر وہ دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں 150 کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ دو سو سے زائد زخمی ہوئے۔
دھماکہ ہوتے ہی طالبان کی جانب سے وضاحت جاری کی گئی کہ اس واقعے سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ کچھ ہی دیر بعد شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کی طرف سے بھی تردید جاری کر دی گئی۔
پھر افغان انٹیلیجینس کی وہ رپورٹ سامنے آئی جس میں حقانی نیٹ ورک کو اس دھماکے کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا گیا اور افغان حکومت نے اس کا ملبہ آئی ایس آئی پر ڈالا تاہم پاکستانی حکام نے اس کے ڈانڈے انڈین خفیہ ایجنسی را سے جوڑے۔مگر الزام جس کے سر بھی جاتا، اگلی صبح کا سورج طلوع ہونے سے قبل افغانستان کرکٹ بورڈ طے کر چکا تھا کہ پاکستان سے تمام کرکٹنگ روابط منسوخ کر دیے جائیں گے۔
اگلے روز کیے گئے اعلان میں اے سی بی کے میڈیا ڈائریکٹر نے پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست ملک قرار دیا اور لاہور، کابل میں کھیلی جانے والی دوستی سیریز کو منسوخ کر دیا۔
ساتھ ہی اپنے کرکٹرز کو بھی حکم جاری کیا کہ وہ دو ماہ کے اندر اندر پاکستان سے اپنے سبھی روابط ختم کریں۔ عملدرآمد نہ ہونے کی پاداش میں کئی لوگ ٹیم سے باہر بھی ہوئے اور اصغر ستانکزئی کو تو اپنا نام تک بدلنا پڑ گیا۔انہی واقعات کے تناظر میں افغانستان کا پاکستان سے طے شدہ افتتاحی ٹیسٹ میچ بھی انڈیا کو منتقل ہو گیا۔
یہ تو آج تک واضح نہیں ہو سکا کہ کابل دھماکے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا مگر یہ حقیقت ہے کہ جیسے ممبئی حملوں نے پاکستان انڈیا تعلقات کی سمت بدل دی تھی، ویسے ہی کابل دھماکے نے بھی پاک افغان کرکٹ تعلقات کا رخ موڑ دیا اور ہمہ وقت پی سی بی کے احسانات کا دم بھرنے والی افغان کرکٹ دوطرفہ رقابت کی اس سطح پہ آن پہنچی جہاں پہنچتے پہنچتے پاکستان انڈیا کرکٹ کو دہائیوں کا سفر طے کرنا پڑا تھا۔
سنہ 2019 کے ورلڈ کپ کے لیے جب افغانستان کو ایک انڈین برانڈ کی سپانسرشپ بھی حاصل ہو گئی تو پھر لیڈز میں پاکستان افغانستان میچ کے بعد بھی کچھ ویسی ہی صورتِ حال دیکھنے کو ملی جیسی کچھ روز پہلے شارجہ کرکٹ سٹیڈیم میں دیکھنے کو ملی تھی۔ اور اب یہ لڑائی اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ دنیا بھر کے مین سٹریم میڈیا میں بھی شہ سرخیوں کی زینت بن رہی ہے۔اگرچہ گرباز، زازئی، راشد، مجیب اور نبی ابھی بھی پاکستانی کھلاڑیوں سے نہایت دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں اور پی ایس ایل میں بھی باقاعدگی سے شریک ہوتے ہیں مگر افغان شائقین کے دلوں میں وہ بیانیہ جڑ پکڑ چکا ہے جس کی بنیاد کابل دھماکوں کے بعد پڑی تھی۔
پاکستان کے بیشتر شہروں میں بے شمار افغان بستے ہیں اور ان کا پاکستانیوں سے میل جول ویسا ہی ہے جیسا دیگر سبھی پاکستانی آپس میں رکھتے ہیں مگر افغان کرکٹ شائقین کا ایک طبقہ اس بیانیے کو پوری طرح اپنا ایمان بنا چکا ہے جس کی ترویج نریندر مودی سے اچھے تعلقات کی خواہش مند اشرف غنی حکومت نے کی تھی۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ