ابنِ صفی،محی الدین نواب اور اے حمید کے قافلے کا آخری چراغ بھی بجھ گیا۔۔ وہ ایک جہان تھا، وہ وقت تھا، وہ قلم کا امین تھا، وہ عصائے سخن تھامے ایسا جادوگر تھا کہ ششدر کر دیتا تھا۔۔ وہ صدیوں کا بیٹا تھا۔۔۔وہ مرغوب علی راحت المعروف ایم اے راحت تھا۔۔ وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر راغب سیمابی کا بیٹا تھا۔۔۔۔وہ چلا گیا، کومے کی حالت میں ہی ہمیں چھوڑ چلا۔۔ میرا ان سے تعارف ان کے ایک ناول سے ہوا تھاجس نے مجھے اسیر کر لیا تھا۔۔۔۔ایک ہوائی جہاز کے تباہ حال مسافر ایک غار میں موجود محوِ استراحت، پر اسرار شخص کو جگاتے ہیں تو حیرت کدے کے فسوں ساتھ ہی جاگ اٹھتے ہیں، یہ طلسماتی شخص صدیوں سے سو رہا تھا، اس نے اپنی داستان شروع کی تو بات پتھر کے زمانے سے شروع کی۔۔۔۔کہانی کا پلاٹ، معلومات کا سمندر، دلکش اندازِ بیاں، زمانہ قبل از تاریخ کی داستان ۔۔۔ قاری پتھر کا ہو جاتا تھا، سانس رکی ہوئی ہے، آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہیں، سانسیں زیر و زبر ہیں۔۔ یہ ناول تھا صدیوں کا بیٹا جو ناول کی دنیا کے جادوگر ایم اے راحت کا تحریر کردہ تھا اور جس نے اپنی مقبولیت میں ان کا، اقابلا، سونا گھاٹ کا پجاری، ہمزاد، غلام روحیں، بازی گر، نروان کی تلاش، دیوتا، طالوت، چھلاوہ جیسے مقبولِ عام سلسلوں کا مقابلہ کیا۔ جس کا لکھا جکڑ لیتا تھا، جو قاری کی نبض محسوس کر کے لکھتا تھا، جس کی تحریر میں طلسماتی اثر پذیری تھی۔
ایم اے راحت ایک دور کا نام تھا، آپ جاسوسی تحریروں میں ابن صفی اور تاریخی ادب میں نسیم حجازی سے متاثر تھے تاہم فکشن میں ان کا اپنا منفرد اسلوب تھا۔ انہوں نے ساڑھے 11 سو ناول اور تقریباً چھے ہزار کہانیاں اور افسانے لکھے، عمران سیریز میں صوفی کا کردار ان کا تخلیق کردہ تھا۔ کالاجادو، ناگ دیوتا، کمند، کالے گھاٹ والی، کفن پوش، صندل کے تابوت، شہر وحشت، جھرنے، سایہ، اور کالے راستے،صدیوں کا بیٹا دیومالائی کہانیوں پر مشتمل تخلیقات میں سے ہیں۔ قلم ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ گھر کا ماہانہ خرچ ہی نہیں بلکہ یہ مکان، گاڑی اور اپنا سب کچھ انہوں نے ناول لکھ لکھ کر بنایا ہے۔
ایم اے راحت نے عسرت کو چکھا، برتا اور محسوس کیا۔پاکستان آنے کے بعد انہوں نے ہر وہ کام کیا جس سے سانس کی ڈور جڑی رہے۔ ابنِ صفی کی تحریروں نے ان کے اندر کا رائٹر زندہ رکھا۔۔۔ 1960ء میں کراچی میں دو سال پرائیویٹ جاب کے بعد عمران سیریز لکھی جسے ایک پبلشر نے شائع کرنے سے انکار کر دیا جبکہ دوسرے پبلشر نے پسند کر کے شائع کی اور مزید کی فرمائش کی۔ اس کی مقبولیت کے بعد عمران ڈائجسٹ کا سلسلہ شروع کیا، مختلف اخبارات و رسائل سے بھی سالہا سال وابستہ رہے۔ ان کے ناول ”صدیوں کا بیٹا“ تہذیب کی تاریخ اور اس عہد کی ضرورت تھی جو بے حد پسند کیا گیا جبکہ ’کالکا دیوی‘ ’جن زادہ‘ اور صندل کا تابوت نے بھی عالمگیر شہرت حاصل کی۔ انہوں نے 1994ء میں کاظم پاشا کی فرمائش پر ڈرامہ سیریل اعتراف بھی تحریر کی۔ان کی کیپٹن پرمود سیریل بھی بہت مقبول ہوئی۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ لوگ عمر بھر جتنا پڑھتے ہیں، ایم اے راحت نے اس سے زیادہ لکھا، صرف مذہب اور سیاست کے علاوہ انہوں نے ہر موضوع پر قلم اٹھایا، وہ کہتے تھے کہ مذہب پہ کچھ غلط لکھ دیا تو اوپر ڈنڈے پڑیں گے اور سیاست پر ایسا ویسا لکھ بیٹھے تو نیچے جوتے پڑیں گے۔
ایم اے راحت جیسے زود نویس لکھنے والے اب ڈھونڈے سے نہیں ملتے، ان کا تخیل مضبوط تھا اور وہ قاری کی ذہنی سطح اور میلانِ طبع پر اتر کر لکھتے تھے۔ وہ چلے گئے اور اب چاروں طرف سناٹا ہے!!
فیس بک کمینٹ