ڈاکٹر عامر سہیل کا پہلا تعارف تو استاد اور نقاد کا ہے ۔ ایک روشن خیال قلمکار کہ جس کی دوستی اور رفاقت ہمیں سرشار کرتی ہے ۔ ڈاکٹر عامر سہیل سرگودھا یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ ہیں۔ گردوپیش کے لئے انہوں نے شخصی خاکوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اس سلسلے کی پہلی تحریر آپ سب کی نذر ہے ۔ (رضی)
……………..
سرما رُت میں برف سے ڈھکے پہاڑی سلسلہ کی تنہائی جس وجدانی احساس سے لبریز ہوتی ہے اُسے تمام تر حواس کے ساتھ محسوس تو کیا جا سکتا ہے تاہم الفاظ میں اُس کا کلّی بیان تقریباً ناممکن ہے ۔ ماسوائے فطرت ہر شے کی لاموجودگی ہی منظر کی یکتائی کا وہ لمحہ ہے جہاں ہمہ اوستی نعرہ بھی اضافی قرار پاتا ہے۔ یہاں اکیلے پن کی نحوست اور تنہائی کی جمالیات میں حدِ فاضل قائم کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ منصور آفاق کو دیکھ کر نجانے کیوں مجھے ایسے ہی برفانی منظر کی وجدانی تنہائی اپنی تمام تر جمالیاتی ترکیب میں یاد آنے لگتی ہے۔ مجھے منصور آفاق سے دوستی یا ہم رکابی کا قطعی دعویٰ نہیں۔ کل ملا کر آج دوسری ملاقات ہے مگر برسوں کی اجنبیت کا فاصلہ تمام تر ادراکِ دید کے ساتھ چشم زدن میں طے کرنے کا حفیف احساس ضرور میرے اندر جاگتا ہے۔
منصور آفاق سے شناسائی کا پہلا حوالہ تو شعر و ادب ہی ٹھہرا۔ ادب کے طالب علم ہونے کے ناتے انہیں پڑھنے اور لفظوں میں گونجتا سنائی دینے کا تجربہ ان کی شاعری کو پڑھ کر ہوا۔ مگر یہاں لفظ کی ساخت آڑے آئی کہ لفظ تخلیقی وجدان کی سرشاری و وارفتگی کو کلیت میں سمونے سے عموماً عاری ہی رہتا ہے اور معنی کا دیومالائی چشمہ لفظ کے کناروں سے پھسل کر کسی انجانی غائبت میں معدوم ہو جاتا ہے۔ تفہیم و تعبیر کی طاقت تو محض لمحہء موجود کی یک طرفہ موجودگی کے تناظر ہی کو سامنے لا سکتی ہے مگر یہ لمحہء موجود کہاں سے پھوٹتا ہے اور کہاں جا گرتا ہے اس کا ادراک تنقید و تفہیم و تبصرہ وتشریح کے حد امکان سے باہر ہے۔ سو لفظ کی ساخت کی اوٹ سے جو منصور مجھے نظر آیا اسی پر اکتفا کر لیا۔ مگر نہ جز کی خبر نہ کل معلوم والا معاملہ درپیش رہا۔
منصور آفاق سے شناسائی کا دوسرا حوالہ محترم ڈاکٹر طاہر تونسوی بنے۔ تونسوی صاحب کی ترچھی نظر، خمیدہ گردن اور بلند آہنگ صوتی ارتعاش نے مجھے منصور آفاق سے اس طرح روشناس کروایا کہ شخصیت کا جلالی پہلو غالب رہا اور ایک جز وقتی عاشق کی طرح اپنے محبوب کے خدوخال اس طرح نمایاں کیے کہ نقوش واضح ہونے کی بجائے بیانِ عشاق کی مانند ماورائی دھند میں گم ہوتے چلے گئے۔ ویسے بھی زمانہ گواہ ہیں کہ تونسوی صاحب کسی کو رقیب بنانا تو دور کی بات شکِ رقابت تک کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔ سو وہ منصور آفاق جو سرِ دار والا منصور تھا اوجھل ہوتا گیا اور لاموجود آفاق ہی تخیل میں رہ گیا۔
مجھے یا د پڑتا ہے کہ ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب جب ہمارے صدر شعبہ تھے تو ایک شام منصور آفاق ان کو ملنے سرگودھا یونیورسٹی تشریف لائے تھے۔ میں بدقسمتی سے ملتان گیا ہوا تھا۔ اب مسئلہ رات کے قیام کا تھا۔ ویسے تو تونسوی صاحب کا جزدان کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کے ٹیلی فون نمبروں سے اٹا پڑا تھا تاہم تونسوی صاحب کا اپنا کمرہ اے سی تک کی سہولت سے محروم تھا۔ اب بھلا بارہ ضربِ دس کے گرم کمرے میں دو شعلہ صفت ادیب کب آرام کر سکتے تھے۔ سو وہ رات منصور نے اپنی یخ بستہ گاڑی میں ہی گزاری۔ اگلے کئی ہفتوں تک تونسوی صاحب بڑے غصہ آمیز رنجیدگی سے یہ واقعہ سناتے رہے۔ اور میں چشم تخیل سے منصور آفاق کو گاڑی میں سوتا دیکھتا رہا۔
منصور آفاق سے قلمی ملاقات کا یک طرفہ حوالہ روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والا ان کا کالم بھی ہے۔ موجودہ دور میں معدودے چند کو چھوڑ کر ادیبوں کے سیاسی و نیم سیاسی کالم حکمرانوں کی مدلل مداحی اور کتاب المناقب کی ذیل میں آتے ہیں۔ اسی تاثر کے تحت ادیبوں کے سیاسی کالموں میں میری دلچسپی کم کم ہی ہے اور اسی تاثر کے تحت میں منصور آفاق کے کالموں کی قرات سے گریزاں ہی رہا تاہم چند کالم پڑھنے کے بعد میرا یہ تاثر کافی حد تک زائل ہوا ہے اور یہ امید ہے کہ آج کا ادیب بھی اپنے بڑوں کی طرح چاہے تو حرمتِ قلم کو بچا سکتا ہے۔
منصور آفاق سے امکانی ملاقات کا ایک بہانہ تب بنا جب گزشتہ دنوں ایک ادبی تقریب کے سلسلے میں وہ سرگودھا تشریف لائے۔ مگر یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل گیا کہ خوشگوار ازدواجی تعلق کا جذبہ تقریب میں شرکت کی سرشاری پر غالب رہا۔ اب اسے وقت کا ستم کہیں یا حالات کا جبر یا منصور آفاق کی خوش قسمتی، اسے کچھ بھی نام دیں مگر رزق اور موت کی طرح محبت بھی نہایت پراسرار مظہر ہے۔ محبت کب ،کہاں اور کیسے کا فیصلہ خود کرتی ہے اور اس اقلیمِ طرب میں کیوں اور کیا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
اور آخر کار سرگودھا یونیورسٹی کے جشن بہاراں کے سلسلے میں منعقدہ مشاعرے میں شعرا کی لسٹ بناتے ہوئے میرے اور طارق کلیم کے منہ سے اوّلیں دو نام ایک ساتھ نکلے۔ شعیب بن عزیز اور منصور آفاق۔ اور یہ بہاریہ مشاعرہ بہار آمد نگار آمد نگار آمد قرار آمد کے مصداق منصور آفاق سے میری پہلی ملاقات کا بہانہ بنا اور یقین جانیئے وہ پہلی ملاقات کسی رسمی گفتگو، تمہیدی جملوں اور تکلف آمیز اجنبیت کی بجائے نہایت اپنایت کے تاثر سے شروع ہوئی۔ دراز قد، رو بہ فربگی مگر متناسب جسم، گھنے الجھے بال کہ جس میں عمر رفتہ کے سنہری دنوں نے دودھیا یادوں کے رنگ بکھیر رکھے ہیں، حفیف مسکراہٹ کو عیاں ہونے میں مزاحم بالائی ہونٹ پر بھاری مونچھیں،چال میں کسی قدر احتیاط کہ قدموں کو ٹھیک ٹھیک رکھنے کی شعوری کوشش میں غلطاں، گمبھیر آواز اور شعر پڑھتے ہوئے ٹوٹتے خمار کا کرب ناک جادو ۔ یہ وہ منصور آفاق ہے جسے میں جان پایا ہوں۔ میرے لیے اتنی سی جان کاری بھی بہت ہے کہ اس سے زیادہ جاننے کی ضرورت ہے نہ خواہش۔ وہ دوستوں کے دوست ہیں یا دشمنوں کے دشمن، کہاں جلالی ہیں اور کہاں جمالی، کسے قریب رکھتے ہیں اور کسے فاصلے پر، ان کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کے دائرہ قہر و التفات میں کون کون آتے ہیں اور لوگوں کے بارے ان کی ترجیحات کے معیارات کیا ہیں؟ مجھے یہ جاننے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں میرے لیے یہ کافی ہے کہ منصور آفاق کی شکل میں ایک ایسا دوست میسر آ گیا ہے جسے جب آواز دی جائے وہ اس کا جواب محبت میں دیتا ہے اور ان کی لغت میں بھی کب، کہاں اور کیسے تو ہے مگر کیا اور کیوں نہیں ہے۔