کچھ ہی دیر میں مولانا نے گفتگو کا آغاز کیا۔
”میاں تمہارا نام تو بہت پیارا ہے۔ ہم تم کو صبح شاگردی میں لے لیں گے اور جہاں تک ممکن ہوا اپنا علم تم کو منتقل کریں گے۔“
یہ بات کہتے ہی مولانا نیازی نے اپنی شاگردی میں لینے کے لیے وہ شرط عائد کر دی جس نے کچھ لمحوں کے لیے عزیز میاں کے پیروں تلے سے زمین سرکا دی۔ انہوں نے کہا میری شاگردی کی شرط یہ ہے کہ میری صحبت میں آنے سے قبل ایک رات ”اُس بازار“ میں گزاریں گے۔ اگر تم کو میری یہ شرط قبول نہ ہو تو پھر میرے ہاں مت تشریف لانا۔ اب انہوں نے عزیز میاں کو حکم دیا چلو اپنا سامان اٹھاؤ اور مجھے دکھائی نہ دو۔
عزیز میاں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لاہور سے روانہ ہوئے تو میاں محمد یٰسین نے کہا اگر مولانا عبدالسلام نیازی سے اکتساب علم نہ حاصل کر سکو تو لاہور واپس نہ آنا۔ راستے میں جمنا پڑتا ہے۔ پھر مولانا عبدالسلام نیازی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حکم صادر کر دیا کہ میری صحبت میں آنا ہے تو ایک رات کے لیے ”اُس بازار“ میں چلے جاؤ۔ عزیز میاں نے اپنا اسباب اٹھایا اور بازارِ حسن کی تلاش میں نکل پڑے۔ ایک رکشہ لیا۔ اسے کہا شہر کے کسی بھی کوٹھے پر لے چلو۔ رکشہ والے نے چند لمحوں بعد انہیں ایک بڑی عمارت کے سامنے ڈراپ کیا۔ تین منزلہ عمارت کے آگے لمبوترا برآمدہ تھا۔ پوری عمارت پر ایک ایک کمرے کے بے شمار فلیٹ بنے ہوئے تھے۔ بقول رکشے والے کے پوری عمارت میں طوائفیں رہتی ہیں۔ عزیز میاں کے ایک ہاتھ میں اٹیچی کیس جبکہ بغل میں بستر تھا۔ پہلے گراؤنڈ والے کمروں کا جائزہ لیا۔ ہر کمرے میں طوائفیں بنی سجی بیٹھی تھیں۔ پہلی منزل پر جانے کے لیے سیڑھیوں کا راستہ اختیار کیا۔ ہر منزل کے آخر میں پان اور چائے کی دکانیں تھی لیکن گاہک ندارد۔ پہلی کے بعد دوسری اور پھر تیسری منزل پر جا کر دم دم لیا۔ رات کا ایک بج چکا تھا۔ بازار کے بند ہونے کا وقت قریب آ رہا تھا کہ تیسری منزل کے درمیان ایک فلیٹ میں عزیز میاں کو دو خوبصورت لڑکیاں بیٹھی دکھائی دیں۔ تھکا ہارا مسافر بوجھل قدموں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔ چاندنیاں چمک رہی تھیں۔ قالین پر ایک ہارمونیم اور ایک طبلہ سجا ہوا لیکن کوئی سازندہ موجود نہ تھا۔ عزیز میاں نے اپنی جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ پرس نکال کر لڑکیوں کے سامنے رکھ کر گانے کی فرمائش کر کے سر جھکا کر بیٹھ گئے۔ دونوں لڑکیاں یہ صورت حال دیکھ کر ہنسنے لگیں۔ پریشان حال عزیز میاں نے اپنی نظروں کو اوپر اٹھایا اور کہا مجھے دیکھر کر کیوں مسکرا رہی ہو؟ ان لڑکیوں میں سے ایک لڑکی نے جواب دیا: ”ہم نے آج تک ایسا تماش بین نہیں دیکھا“۔ عزیز میاں نے احتجاجی انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ لڑکی نے لہک کے جواب دیا ”اس کوٹھے پر بڑے بڑے نواب آتے ہیں مگر بستر ہمارے ہوتے ہیں۔ آپ واحد تماش بین ہیں جو بستر سمیت آئے ہیں۔“ عزیز میاں نے جب یہ سنا تو کہنے لگے ”آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مَیں پردیسی ہوں اور پاکستانی ہوں۔ یہ بستر میرا رختِ سفر ہے۔ نہ مَیں تماش بین ہوں نہ ہی میرا کوئی اور مقصد۔ مَیں دہلی میں اپنے استاد سے تعلیم حاصل کرنے آیا ہوں۔ ان کی ایک شرط تھی کہ مَیں تعلیم حاصل کرنے سے پہلے ایک رات ”اُس بازار“ میں بسر کروں۔ اب دونوں بہنوں کی حیرت میں اضافہ ہوا۔ تو پوچھنے لگیں اپنے استاد کا نام تو بتائیں؟ عزیز میاں نے مولانا عبدالسلام نیازی کا نام بتانے سے گریز کیا تو دونوں نے ضد کی کہ ہمیں لازمی اپنے استاد کا نام بتائیں۔ جس پر عزیز میاں نے کہا میرے استاد کا نام مولانا عبدالسلام نیازی ہے۔ اِدھر عزیز میاں کے منہ سے مولانا کا نام نکلا۔ اُدھر دونوں بہنوں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے۔ روتے روتے دونوں بہنوں کی زبانوں سے ایک ہی جملہ نکلا:
آج وعدہ پورا ہو گیا
آج وعدہ پورا ہو گیا
عزیز میاں مسلسل دونوں کو دیکھ رہے تھے کہ یہ کیا ماجرا ہو گیا۔ اب عزیز میاں نے ان سے دریافت کیا کیا معاملہ ہے؟ روتے روتے دونوں نے بتایا کہ آج سے چند سال پہلے ہم دونوں بہنوں کی یہ حالت تھی کہ گھر میں کھانے کو دانے اور پہننے کو کپڑے نہ تھے۔ ہم مولانا کی خدمت میں درخواست گزار ہوئیں، اپنا مسئلہ بیان کیا اور دُعا کی درخواست کی۔ حضرت نے ہمارے حق میں دُعا فرمائی اور نصیحت کی کہ تمہارے پاس تین آدمی آیا کریں گے تم صرف ان کو اپنا گانا سنانا۔ وہ تینوں آدمی اب ہفتے میں دو دن گانا سننے آتے ہیں۔ وہ ہمیں اتنا کچھ دے جاتے ہیں کہ ہم دونوں بہنیں کوٹھے کی مالدار طوائفیں ہیں۔ ہم ہر جمعرات کو حضرت کے دَر پر سلام کے لیے حاضر ہوتی ہیں۔ ہر ہفتے ہم حضرت کے دَر پر سلام کے لیے حاضر ہوتی ہیں۔ ہر ہفتے کو ہم حضرت کو درخواست گزار ہوتی ہیں کہ حضور کبھی ہمارے غریب خانے کو بھی اپنی آمد سے روشن کر دو۔ ہماری فرمائش کے جواب میں ہمیشہ ایک ہی بات کہتے ہیں کہ جب کوئی میرا شاگرد تمہارے گھر آئے گا تو تم جان لینا کہ مَیں آ گیا ہوں۔ آٹھ دس برسوں کا انتظار آج تمام ہوا۔ یہ کہتے ہی چھوٹی بہن نے عزیز میاں کا سامان اٹھا کر کمرے میں رکھا۔ کھانے کا اہتمام کیا گیا۔ آرام کرنے کے لیے جو کمرہ عزیز میاں کو ملا وہ انتہائی صاف ستھرا تھا۔ صبح ناشتے کی میز بے شمار لوازمات سے سجی ہوئی تھی۔ ناشتہ کے بعد عزیز میاں مولانا نیازی کے ہاں حاضر ہونے کے لیے تیار ہوئے تو دونوں بہنوں نے اس وعدے پر اجازت دی کہ وہ مولانا سے ملنے کے بعد شام کو دوبارہ اسی گھر میں واپس آئیں گے۔
عزیز میاں جیسے مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نیازی صاحب نے کہا ”جی میاں آپ کے لیے رہائش کا انتظام تو ٹھیک ہو گیا۔ کوئی مسئلہ تو نہیں بنا۔“
عزیز میاں نے دست بستہ عرض کیا جناب کی کرم فرمائی ہے۔ اس کے بعد عزیز میاں حضرت نیازی کے شاگرد ہو گئے اور دن گزرنے کے بعد حسب وعدہ کوٹھے پر آ گئے۔ عزیز میاں تقریباً سوا سال مولانا عبدالسلام نیازی سے فتوحاتِ مکیہ پڑھتے رہے۔ اس دوران دونوں بہنیں ہر صبح عزیز میاں سے واپس آنے کا وعدہ لیتیں۔ دونوں لڑکیوں نے عزیز میاں کے کپڑوں کا ناپ لے کر درزی کو دیا۔ درجنوں سوٹ بنوائے۔ ہر صبح جب عزیز میاں بیدار ہوتے ایک سوٹ ان کا منتظر ہوتا۔ ان سوٹوں کی جیبوں میں روزانہ اتنی رقم موجود ہوتی کہ عزیز میاں کے بار بار منع کرنے کے باوجود وہ اسی طرح عزیز میاں کی خدمت میں مگن رہتیں کہ عزیز میاں مالی مشکلات کا سامنا کیے بغیر نہ صرف تعلیم حاصل کر لی بلکہ اپنی لائبریری کے بہت سی کتب کو بھی خرید کر لیا۔ کہ عزیز میاں کے اس شوقِ مطالعہ نے انہیں اس قابل کر دیا تھا کہ وہ قوالی کرتے کرتے سوال جواب کے انداز میں پرفارم میں مشہور ہو گئے۔ دہلی کے بازارِ حسن میں دونوں بہنوں کے حسنِ اخلاق سے اتنے متاثر ہوئے کہ تلمبہ میں جا کر اس بازار سے تعلق رکھنے والی خاتون تسنیم ملکہ سے شادی کی اور پوری زندگی خوب تعلق نبھایا۔ یہ عزیز میاں قوال کی دوسری شادی تھی۔ اس شادی کا احوال بھی پڑھ لیں کہ عزیز میاں قوالی کے سلسلہ میں تلمبہ گئے تو وہاں پر ان کی اس بازار سے تعلق رکھنے والی دو بہنوں جمیلہ اور تسنیم ملکہ سے ملاقات ہوئی۔ دونوں بہنیں گائیکی میں خوب شہرہ رکھتی تھیں۔ خاص طور پر تسنیم ملکہ کو راگ ملہار اور راگ درباری پر عبور حاصل تھا۔ عزیز میاں سے شادی سے پہلے تسنیم ملکہ کے پانچ بچے تھے۔ شادی کے بعد عزیز میاں 5 بچے بھی راولپنڈی لے گئے۔ عزیز میاں کے تسنیم ملکہ سے تین بچے دو بیٹے (عرفان عزیز اور عمران عزیز) اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ آج کل عزیز میاں کا خانوادہ چکلالہ ایئربیس کے قریب کسی کالونی میں رہائش پذیر ہے۔ ایم۔اے سیاسیات، اُردو اور فارسی کرنے والے عزیز میاں کی پہلی شادی سے بھی تین بچے ہوئے۔
یہ باتیں معلوم ہونے کے بعد مَیں نے ایک مرتبہ پھر اپنے صاحب تصوف دوست اور نامور شاعر نوازش علی ندیم سے رابطہ کیا اور گزارش کی کہ کسی دن پروگرام بنائیں مجھے عزیز میاں کی مرقد پر جانا ہے اور فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھانے ہیں
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)