چیمپینز ٹرافی کا اختتام پاکستان کی تاریخی جیت کے ساتھ ہو چکا ہے۔دنیا بھر کے کرکٹ ماہرین اور شائیقین ایک ڈری،سہمی، بے جان ٹیم کو ایک جارح ٹیم میں یکایک ڈھلتا دیکھ کر تسلیم کر رہے ہیں کہ معجزے آج بھی ہوتے ہیں۔ایسا کیا ہو گیا کہ آٹھویں نمبر کی ٹیم جو ورلڈ کپ میں اپنی رسائی کو یقینی بنانے کی جنگ لڑ رہی تھی،چھٹے نمبر پر پہنچ چکی ہے۔جب میں پچھلے چند برسوں کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے لمحہ لمحہ مرتی،دم توڑتی کرکٹ نظر آتی ہے،ہم نے کیا کچھ نہیں دیکھا اور سہا۔جیتے ہوئے میچ ہم ہارے،انگلینڈ کے خلاف سکور کا عالمی ریکارڈ بنتے دیکھا،بنگلہ دیش سے ہم وائٹ واش ہوئے ،یہ بھی دیکھا کہ روایتی حریف بھارت سے ہم ہارتے چلے گئے،سعید اجمل پر لگی پابندی کا نقصان برداشت کیا،دنیا کی کرکٹ اور پاکستان کے اندازِ کرکٹ میں بڑھتے فاصلے دیکھے،فاسٹ باﺅلرز کی دھرتی میں فاسٹ باﺅلنگ کے فن کا سورج ڈھلتے دیکھا،غرض کہ بہت کچھ دیکھا۔پھر ایسا کو ن سا تریاق ان مردہ رگوں میں انڈیلا گیا کہ زندگی پھر سے مسکرانے لگی۔میرے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بنی کہ ٹیم سلیکشن یاری دوستی سے نکل کر میرٹ کی طرف گئی اور درست کمبی نیشن بناماضی میں کچھ سینئرز نے اپنی جگہ محفوظ بنانے کے لئے نئے چہرے نہ آنے دئیے جس سے ہمیں لگا کہ نیا ٹیلنٹ نہیں آرہا۔ایک لمبے عرصے سے پاکستان کو ہروانے میں وہاب ریاض کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔اپنے پورے سپیل میں سات،آٹھ، حتیٰ کہ دس کی ایوریج سے سکور کھانا وہاب ریاض کا معمول رہا۔اس سے نہ صرف پاکستان پر پریشر آتا تھا بلکہ دوسرے اینڈ سے عامر بھی بے اثر ہوجاتا تھا،مخالف ٹیمیں عامر کو آرام سے کھیلتیں اور وہاب پر آسانی سے سکور کرتیں۔وہاب صرف زور لگانا ہی جانتا ہے۔شارٹ پچ بالز، لیگ سائیڈ یا آف سائیڈ سے باہر بالز کی کثرت مخالف بلے باز کو تھالی میں سجا کر بال پیش کرنے والی بات تھی۔اب جنید خان آیا،یہ وہی جنید خان ہے جسے محمد عامر کا ہم پلہ قرار دیا گیا تھا مگر وقار یونس نے اس کا کیرئیر تباہ کیا، اسی طرح جس طرح وقار یونس نے سرفراز کا مستقبل تباہ کرنے کی کوشش کی ،وقار یونس نے جنید کا اعتماد بحال ہی نہ ہونے دیا ،حتیٰ کہ وہ انگلینڈ سیٹل ہونے کی سوچنے لگا مگر انضمام نے اسے دوبارہ سلیکٹ کیا،اور آج جنید ایک اینڈ سے سکور روکتا ہے،نئی پرانی بال سے یارکر،ان سوئنگ،آوٹ سوئنگ کرواتا ہے،ریورس سوئنگ کرتا ہے اور اسی وجہ سے عامر کا پریشر بھی بڑھ جاتا ہے۔درست ٹیم کمبی نیشن کی ایک اور کڑی احمد شہزاد کا ڈراپ کیا جانا ہے۔مجھے اس بیٹسمین کو دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ٹیلنٹ سے بھرپور اس بلے باز کو جانے کیا ہوا کہ وہ اپنے خول میں بند ہوتا چلا گیا،جارحیت اس کی پہچان تھی،ہُک ،پُل،کٹ،ڈرائیو کا خزانہ رکھنے والا بیٹسمین ایک عام سا کھلاڑی بن کر رہ گیا جو ساٹھ،ستّر کے سٹرائیک سے اننگز مکمل کرنے لگا،اس وقت اس کا ڈراپ کیا جانا بنتا تھا،فخر زمان آیا اور اس نے ماڈرن کرکٹ کھیلی،اس نے پریشر خود پر لانے کی بجائے مخالف ٹیم پر اٹیک کر کے دکھایا،یہ ضروری بھی تھا کیونکہ آج کی کرکٹ تین سو سے اوپر سکور کی کرکٹ ہے۔پاکستان ٹیم کی کایا پلٹنے والا فیصلہ حسن علی کی دریافت ہے۔کافی عرصے سے پاکستان ابتدائی وکٹیں تو لے لیتا تھا مگر مڈل اوورز میں وکٹیں نہیں لے پاتا تھا کیونکہ سعید اجمل کے جانے کے بعد مڈل باﺅ لنگ بے اثر ہو کر رہ گئی تھی،یہ خلا حسن نے پُر کیا،یارکر اور ان سوئنگ اس کی پہچان ہیں،اس کی شارٹ پچ بال بیٹسمین کی توقع سے زیادہ تیز آتی ہے اور وہ ریورس سوئنگ بھی کروا لیتا ہے،خاص بات یہ کہ اس کا مزاج فاسٹ باولرز والا ہے،جارحانہ، چڑھائی کرنے والا،یہی ہماری ضرورت تھی،سری لنکا،جنوبی افریقہ،انگلینڈ اور انڈیا کی مڈل آرڈر کو ہمارے باولرز نے تباہ کیا،یہی بڑا راز بنا ہماری کامیابی کا۔ہم نے عمر اکمل کو ڈراپ کر کے بھی درست سمت میں قدم اٹھایا،عمر اکمل،ناکامیوں اور غلطیوں کا کوہ ہمالیہ ہے،بلاشبہ وہ پاکستان کا ویرات کوہلی بن سکتا تھا،اس میں ٹیلنٹ تھا،جب اس نے ملنگا کو لگاتار تین چھکے لگائے تو دنیا چونک اٹھی،مگر پھر اس کی کرکٹ نے خود کشی کر لی۔وہ ٹیم کو ہرواتا چلا گیا ،میچز کی ایک لمبی فہرست ہے جو اس نے ہروائے،اسے اپنا علاج خود کرنا ہے مگر اب لگتا ہے کہ اس کا رویہ کرکٹر والا رہا نہیں،یہ فیصلہ بھی ٹیم کمبی نیشن بنانے میں مدد گار ثابت ہوا،شاداب کی صورت میں پاکستان کو ایسا لیگ سپنر ملا ہے جو وکٹ ٹیکر ہے ،جس میں اعتماد ہے ،اس سے بھی ٹیم کی کارکردگی میں اضافہ ہوا،پاکستان کو یہ جادوئی ہتھیا پی ایس ایل سے ملے۔بلاشبہ PSLنے پاکستان کرکٹ کے مرض کا علاج کیا،فخر زمان،حسن علی،شاداب خان،عما دوسیم،فہیم اشرف،رومان رئیس اور بھی جانے کتنے منتظر ہیں۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم شعیب ملک اور حفیظ کو خدا حافظ کہہ دیں،وجہ یہ ہے کہ حفیظ کی باولنگ ختم ہو چکی ہے اور وہ پندرہ میچز بعد پرفارم کرتا ہے،اسی طرح شعیب ملک کی کارکردگی ہے،ان دونوں کی کارکردگی میں تسلسل نہیں ،بعض اوقات وہ اپنے پطاس کرتے ہیں اور آوٹ ہوجاتے ہیں ،کبھی کبھار جگہ پکی کرنے کے لئے پرفارم بھی کر لیتے ہیںاور سب سے بڑی بات یہ کہ یہ پاکستان کا مستقبل نہیں ہیں۔اسی طرح عماد وسیم کی جگہ فہیم اشرف کو سیٹ کیا جانا چاہیے،عماد کو صرف ٹی ٹونٹی میں کھلایا جائے،بھارت کے خلاف واضح نظر آیا ہے کہ اس کی بیٹنگ اس لیول کی نہیں ہے کہ وہ چھٹے نمبر کے ایک جارح مزاج آل راونڈر کی جگہ پُر کر سکے جہاں پر وسیم ،رزاق، آفریدی کے لیول کے آل راونڈر آتے تھے،اس کمی کو فہیم یا عامر یامین سے پورا کیا جا سکتا ہے،اسی طرح اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ اظہر علی کا کیا کرنا ہے،فرض کریں ہم نے 325تعاقب کرنا ہے،فخر آوٹ ہو چکا ہے اور اظہر کھڑا ہے،آگے کی کہانی آپ جانتے ہیں،اس کے پاس محدود شاٹس ہیں،یہ حقیقت ہے اور فتح کے جشن میں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے،شرجیل کو واپس لایا جانا اس مسئلے کا حل ہے اور وہ واپس آئے گا!!
فیس بک کمینٹ