پاکستان میں موجودہ دور کی سیاسی فضا میں تبدیلی کا بہت چرچا ہے ۔پاکستانی سماج میں ایک تبدیلی وہ ہےجو جدید ٹکنالوجی اور دیگر مقامی اور عالمی معاملات و ضروریات کے باعث واقع ہو رہی ہے جس کا ہول بالا ایک طرح کے قدامت پسندوں اور مذہبی طبقوں کے اوسان خطا کئے ہوئے ہےاور تبدیلی کا ایک ادھ پکا یا نیم پخت تصور سیاسی بازار میں بک رہا ہے جس کا بڑا خریدار ہمارےشہری سماج کے درمیانے طبقے کا ایک حصہ ہےجو بہت متحرک ہے۔ یہ جدید سماجی تحقیق کی ایک تسلیم شدہ بات ہے کہ درمیانہ طبقہ کی ایک بڑی تعداد خاص طور پر کسی بھی سماچ میں کسی بھی ایسی تبدیلی کی تحریک کی سرخیل ہوتی ہے جو بالآخر موجود نظام کی موجود حالت status quo کو ہی کس طور باقی اور مضبوط رکھے ۔ جدید تصور انقلاب کے بانی کارل مارکس نے اس طبقے کی اس طبقاتی عادت بلکہ سرشت کے پیش نظر کہا تھا کہ
"انقلاب کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ درمیانہ طبقہ یا مڈل کلاس ہے جس کی نظریں آسمان پر اور پاؤں زمین کے کیچڑ میں دھنسے رہتے ہیں”۔
یعنی اس طبقے کے اصل اور قریبی رشتے تو نچلے اور پسے ہوئے طبقے کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن اعلا طبقے کا تھوڑا بہت قرب اور اس کا پس خوردہ ملتے رہنے سے اس متوسط طبقے کے زیادہ موقع پرست حصے میں جو غرض پرستی حرص اور لالچ پیدا ہو جاتی ہے اس کے باعث یہ ہمیشہ آعلا مراعات یافتہ طبقوں میں شامل ہونے کے خواب دیکھتا ہے اور اپنےان خوابوں کی تعبیر پانے کیلئے ہر جائز وناجائز ذریعہ استعمال کرنے لگتا ہے ۔ ایسے میں اس طبقے کے وہ افراد جن کو آگے بڑھنے کا کوئی موقع مل رہا ہو وہ خود اپنے ہی طبقے کی تشکیل کردہ اخلاقیات کو پامال کرنے سے نہیں چوکتےاور نہ خود اپنوں کو دھوکا دینے سے احتراز کرتے ہیں ۔۔۔ یہ لوگ آعلا طبقوں کے لوگوں کی تھوڑی سی قربت ملتے ہی بہ آسانی اس کے بھڑوے بن جاتے ہیں ۔۔۔ یہ لوگ اپنی دھرتی کی کیچڑ سے بھرے اپنے پائوں کو ہمیشہ نفرت سے دیکھتے ہیں اور اس سے نکلنے کی کوشش میں نچلے طبقے کےلوگوں کو اپنے پائوں تلے روند کر آگے بڑھ جانا چاہتے ہیں اسلئےیہ اونچے طبقے کے کارآمد ایجنٹ بن کر افتادگان خاک پر کسی بھی ظلم اور زیادتی سے نہیں باز آتے اور نہ ہی ان کا دل ایسی زیادیتیوں پر کچھ زیادہ کڑھتا ہے۔۔۔ یہ لوگ ہر طرح کے ظلم زیادتی اور استحصال۔ میں اونچے طبقوں کے قابل اعبتبار اتحادی اور ایجنٹ ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ مراعات یافتہ استحصالی طبقے ان ایجنٹوں کے بغیر اپنا کام چلاہی نہیں سکتے ۔۔۔ لیکن ایک دلچسپ اور محال حقیقت یہ بھی ہے کہ اسی طبقے کے کچھ باشعور افراد ۔۔۔ دانشوروں ادیبوں اہل علم طالب علموں سیاسی کارکنوں مزدورں اور کسانوں وغیرہ کی ایک تعداد اعلا طبقوں کی اصلیت جان کر ان میں سے کسی کا دلال بننے سے پہلو بچانے لگتی یے ۔۔۔ یہ نو شعور یافتہ لوگ سماچ میں ایک بہت بڑی اور بنیادی تبدیلی یعنی انقلاب کے خواب دیکھنے لگتے ہیں اور معاشرے کے دیگر لوگوں کو خاص طور پر افتادگان خاک کو اپنے ان خوابوں میں شریک کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔ یہ بات ظاہر ہے کہ آعلا طبقوں کے ہمہ قسم مفادات کے خلاف ہوتی ہے اس لئے وہ اس کے خلاف متحد ہو جاتے ہین ۔۔۔آج کل اس خطرے کا سدباب کرنے کےلئے بے پناہ سرمایہ کاری کس سے ڈھکی چھپی ہے ؟ دھونس دھاندلی زور زبردستی اس طبقے کے پرانے ہتھیار ہیں ۔۔۔ دہشت گردی کی فصل کی کاشت و برداشت میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا کوئی جواز تو ہے ۔۔جدید ترین اسلحہ جو بیحد مہنگے داموں بکا ہے وزیرستان اور افغانستان کی بے برگ و بار زمینوں اور عراق شان و لبیا کے صحراؤں میں تو اگتا نہیں ہے کہ اب اس کی اس قدر ریل پیل ہے کہ روٹی ملے نہ ملے مہنگی سے مہنگی گن ہر کسی کے ہاتھ میں دکھائی دینے لگتی ہے۔
خیر یہ جملہ ء معترضہ کچھ طویل ہو گیا۔۔۔ آج ہماے یہاں یہی مڈل کلاس یا متوسط طبقہ دہشتگردی کے آشوب میں تبدیلی کے ایک نئے خواب کے پیجھے بھاگتا دکھائی دے رہا ہے۔ نئے پاکستان میں نئے انداز کے میلوں جیسے جلسے جلوس نت نئی تحریکوں اور دھرنوں کا بیانیہ ہو یا اس کا مخالف بیانیہ ہو یا کرپشن لوٹ کھسوٹ سماجی اور معاشی دہشت گردی کے خلاف مختلف جماعتوں اور سیاسی رہنماوں کا انداز خطابت اور رد خطابت ہو سب اسی طبقے کی خواہشوں اور خوابوں کے رنگین دھاگوں سے بنے جارہے ہیں اور کوشش ہے کہ سبھی ایک یا دوسرے انداز کے سنگین جال میں پھنس جائیں ۔ اس طرح کے سبھی اجتماع حیران کن طور پر کم وبیش دہشت گردی سے بھی محفوظ ہیں ۔
انصاف کے داعی عمران خان کی خطابت کا موضوع و مخاطب بھی یہی طبقہ ہے اور نواز شریف اورہمہ قسم مسلم لیگیوں اور دیگر مذہبی وسیاسی جماعتوں کی خطابت اور رد خطابت کی حدیں بھی اس مخلوق کی سماعتوں سے آگے نہیں جاتیں ۔۔۔غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کے مطابق عوامی سیاست کی دعویدار پاکستان پیپلز پارٹی بھی بتدریج اس بیانیہ کے رد یا برعکس بیانیہ کی جستجو سےالگ بلکہ کافی دور ہوکر وڈیرے اور دیہاتی درمیانے طبقے کی ترجمان جماعت بن کر رہ گئی گئی ہے۔
مسلم لیگ نواز گروپ بقول ہمارے ایک ددوست اللہ نواز درانی کے پنجاب کی ایم کیو ایم ہے جس میں مختلف پسماندہ علاقوں کےمقامی محروم طبقوں کےلئے کوئی گنجائیش نکلتی ہی نہیں ۔۔۔ یہ واقعی معاملہ ہے کہ جناب نواز شریف اور شہباز شریف حتی کہ حمزہ شہباز شریف قومی صوبائی یا ضلعی سطحوں پر ہونے والے پادٹی اجلاسوں میں اپنے قول و فعل سے کبھی اس بات کو نہیں چھپاتے کہ مقامی قیادت کی ان کی نظر میں کوئی اہمیت اور وقعت نہیں ہے بالکل ایسے ہی جیسے کبھی الطاف بھائی کی نظر میں ایم کیو ایم کی دیگر قیادت محض ان کے اشاروں کی پابند تھی۔۔۔ خاص طور پر پنجاب میں اور عمومی انداز میں پاکستان بھر میں شہری متوسط طبقے کے تاجر اور دیگر مراعات یافتہ طبقے اور افراد اس مسلم لیگ کے یا ایسی ہی دیگر جماعتوں کے معاون و مددگار اور سرمایہ کار ہیں جو بہ آسانی عام لوگوں سے ووٹ کی پرچی خرید سکتے ہیں ۔۔ ویسے پرچیوں کی اس موسمی شاپنگ میں حسب ضرورت و توفیق انصاف والے ہوں یا عوام والے یا اسلام والے سبھی حصہ لیتے ہیں ۔۔۔ذرا غور کریں تو یہ شاپنگ بھی ایک بڑی سکیم کا حصہ ہے کہ لوٹ کھسوٹ کے کلچر میں سبھی کو شریک کرلو کہ کوئی چھوٹا چور بڑے چور کو چور کیسے کہے گا ؟ اس سیاسی شاپنگ کا ان سیاسی سرمایہ کاروں کو ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہورہا ہے کہ عام آدمی بعد میں اپنے ان نام نہاد منتخب نمائیندوں سے کوئی جواب طلبی بھی نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی اونی پونی قیمت پیشگی وصول کر چکا ہوتا ہے ۔
جب عام آدمی کو چپ رہنے کی قیمت مل جائے اور وہ عارضی طور پر ہی سہی راضی بر رضا دکھائی دینے لگے تو متوسط طبقے کے بیانیے کا رد بیانیہ کہاں سے آئے گا؟ ایسے میں خاموش اور گنگ دام اکثریت ان افتادگان خاک یا عوام الناس کی آواز کیسے اور کسے سنائی دے گی؟
بعض تجزیہ کاروں لے خیال ناقص کے مطابق پیپلز پارٹی تو آقائے آصف علی زرداری کی متوسط طبقے کی ایک مخصوص طرح کی مصلحت اندیش سیاست جسے کچھ نا بکار اور نام نہاد دانشور روایتی محلاتی سازشی سیاست بھی کہتے ہیں اور ان کم بصروں کے خیال باطل کے مطابق بلاول بھٹو کی خاکم بدہن طفلانہ سعادت مندی اس کے باعث عوام کے حقیقی مسائل اور حقوق کا تذکرہ مطلع سیاست سے غروب ہوگیاہے ۔۔۔ ابھی ابھی یاد آیا کہ علامہ طاہرالقادری نے بھی تو اپنی جماعت کا نام پاکستان عوامی تحریک رکھا ہوا ہے ۔۔۔ اب ان کی کینیڈین شہریت کے باعث ان کی اس عوامی تحریک سے کوئی کیا آس لگائے اگرچہ ان کےجلسوں جلوسوں میں اور کچھ دکھے نہ دکھے عوام اور عوامیت کی ایک جھلک سی ضرور دکھائی دے جاتی ہے ورنہ جلسے جلوسوں میں اب یہ جنس عام مفقود سی ہو چکی ہے ۔۔۔
ایک مسئلہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ناخواندہ یا نیم خواندہ عام لوگ ہمارے پڑھے لکھے رہنمائوں کی انگریزی آمیز تقریریں پوری یا ادھوری بھی کچھ سمجھ ہی نہیں پاتے ۔۔۔۔ اگرچہ ہمارے پر شور میڈیا چینلوں کے پرائم ٹائم اینکرز اور مالکان کا نقطہ ء نظر کچھ اور ہے۔۔۔ تو جناب پھر رہ گئے وہی علامہ قبلہ طاہر القادری جن کا انداز خطابت بھی خاصا عوامی رہتا ہے لیکن نہ جانے کیوں ان کے مخالفین ان کے جلسوں کے حاضرین میں عام آدمی دکھنے والے لوگوں کو عوام نہیں مانتے اور انہیں کرائے پر لائے گئے لوگ قرار دیتے ہیں ۔ ان کےمطابق یہ لوگ علامہ صاحب کے مدارس کی وسع چین (chain )کے مدارس کے تنخواہ دار و وظیفہ خوار اساتذہ کارکن اور طالب علم ہوتے ہیں ۔۔۔ تو کیا مدارس میں پڑھنے پڑھانے والے اپنی تمام تر غربت اور بد حالی کے باوجود طبقہ ءعوام سے خارج ہو جاتے ہیں ؟ لیکن یہ ایک الگ سوال ہے جس کے جواب کی جستجو پھر کبھی سہی ۔۔ اس وقت بات مراعات یافتہ ستحصالی طبقوں اور مڈل کلاس کے ایک اہم حصے کے گٹھ جوڑ سے تشکیل کردہ طاقتور اور حاوی (hegemonic) ڈسکورس اور بیانیہ کے مقابل عوامی کاونٹر بیانہ کی ہو رہی تھی جس کی نئی تشکیل کی خواہش مڈل کلاس کے ترقی پسند(اگرچہ فیشن ایبل ترقی پسندوں نے اس ترکیب ترقی پسند کا بھی مذاق بنا کے رکھ دیا ہے ) دانشوروں کا ایک ایسا ادھورا خواب ہے جو ہمارے سماج کے حاوی مہابیانیہ کے بوجھ تلے اس قدر دب کر رہ گیا ہے کہ ابھی تو اس کی کراہیں بھی سنائی نہیں دے رہیں
فیس بک کمینٹ