اردو لغت ”کثیر الجہت، ہمہ جہت، چھتناور۔۔۔“اور اسی قبیل کے جانے کتنے الفاظ سے لبریز ہے لیکن ان الفاظ کامرقع ،ان تراکیب کی مجسم صورت ملتان کے رضی الدین رضی ہیں،”مگر اس کو خبر کیا تھی،کنارے مل نہیں سکتے،محبت کی کہانی میں ،محبت کرنے والوں کے ،ستارے مل نہیں سکتے“کے سحر،کوملتا،ملاحت اور بین السطور ہلکورے لیتے دکھ کے اسیر جانے کہاں کہاں پھیلے ہیں!!
ایک کمال شاعر، ایک بے باک صحافی،پرنٹ میڈیاسے الیکٹرانک میڈیا تک ،ہر دو ادوار میں انفرادیت قائم رکھنے والی شخصیت ،صحرا کی بھیگی ریت پر اداسی نقش کرنے والے نوحہ گر،الفاظ کو سانس بخشنے والے خاکہ نگار،محقق،مؤ لف اور جانے کیا کچھ،اس گفتنی اور نا گفتنی دائرے کا ایک ہی مرکز ہے،رضی الدین رضی ۔۔۔۔جدوجہد کرتا،لڑتااور جیتتا ہوا رضی الدین رضی۔۔۔۔رضی۔۔۔ ملتان جس کا عشق ہے!!
رضی الدین رضی کا اصل نام شیخ رضی الدین اوپل ہے۔آپ7 مئی 1965کو فیصل آباد میں پیداہوئے۔ والد شیخ ذکاءالدین اوپل کا ٹریفک حادثے میں انتقال ہوگیاتھا۔ رضی کی عمر اس وقت ساڑھے تین برس تھی۔رضی الدین رضی نے 1983ءمیں روزنامہ سنگ میل سے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔روزنامہ نوائے وقت اور روزنامہ جنگ سمیت مختلف ا خبارات میں میگزین ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر اورڈپٹی نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دیئے۔الیکٹرانک میڈیا میں وسیب ٹی وی، دنیا ٹی وی اور پی ٹی وی سے منسلک رہے۔کم و بیش 23کتب آپ کے ذہنِ رسا کی مساعی ہیں۔ان کا 40سالہ صحافتی سفر ہر لمحہ کوشش اور قلم سے سچے لگاؤ کا آئینہ دار ہے۔یوں لگتا ہے جیسے وہ سوتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ لکھنے کا سوچتے رہتے ہیں۔
حال ہی میں رضی کی تصنیف”کالم ہوتل باباکے“منظر عام پر آئی ہے جو 1986سے1991تک کے منتخب کالموں پر مشتمل ہے جنہیں ظہیر کمال نے ”قلم لیکس“قرار دے کر کتاب کا مزاج اور خلاصہ بیان کردیا ہے بلکہ یوں کہیں کہ خود صاحبِ کتاب کی شخصیت بیان کردی ہے۔ملتان کا ”بابا ہوٹل“ کسی دور میں ملتان کا پاک ٹی ہاوس تھا،رضی الدین رضی ”ہوتل بابا“ کے قلمی نام سے شہر کی ادبی سرگرمیوں کی روداد ”تحفہ ملتان“ کے عنوان سے ہفت روزہ ”دید شنید“ میں لکھا کرتے تھے۔بقول رضی الدین رضی”ہوتل بابا“کاقلمی نام ڈاکٹر انور سدید کا دیا ہوا تھا۔اسی مناسبت سے اس کتاب کا نام ”کالم ہوتل بابا کے“ چُنا گیا۔کتاب کے فلیپ پرمیرزا ادیب، ڈاکٹر انور سدید، رفیق ڈوگر، بشریٰ رحمن،ڈاکٹرانواراحمد،شاکرحسین شاکر اور ڈاکٹرخاورنوازش کی آراشائع کی گئی ہیں۔208صفحات پرمشتمل یہ کتاب گردوپیش پبلی کیشنز نے شائع کی ہے۔
رضی الدین رضی کی نثر کی سب سے بڑی خوبی ان کا چاشنی بھرا اور رواں دواں اسلوب ہے جس میں سادہ الفاظ،سادہ بیانیہ لیکن طلسماتی فضا پڑھنے والے کو رہا نہیں کرتی،ان کی یہ خوبی اس کتاب میں بھی دکھائی دیتی ہے۔زیرِ نظر تصنیف اس عہد کی جیتی جاگتی تصویر ہے جس سے اس دور کی ادبی فضا ،مزاج، ادبی سرگرمیوں ، ادبی گروہ بندیوں ، ادبی معرکوں کا نقشہ کھنچ جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ”آتش“ یعنی صاحبِ کتاب کے ”عہدِ شباب“کی آتش فشانی کا بھی بخوبی پتہ چلتا ہے۔یہی ارتقاءکا عمل ہے،یہی انسانی مزاج کے ٹھہراؤاورنظریات کی تشکیل نو کا ثبوت ہے کہ آج کا رضی الدین رضی مزاج میں زیادہ تحمل اور وسعت رکھتا ہے بہ نسبت اس وقت کے رضی کے جب سارا سسٹم ولن لگتا ہے اور خون رگوں میں ٹکریں مارتا ہے،آج کا رضی اپنا تجزیہ کرتے ہوتے یہ اعتراف کرنے میں ذرا سی بھی جھجھک محسوس نہیں کرتا کہ عاصی کرنالی نے ان کے چند تحفظات پر کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی کا ثبوت پیش کیا تھا،اکتوبر 1978میں جب وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے تو تقریری مقابلے میں انعام عاصی کرنالی نے دیا اور تصویر بنوانے کے لئے رضی الدین رضی کا ہاتھ تھاما،رضی تسلیم کرتے ہیں کہ عاصی کرنالی نے پھر ان کا ہاتھ عمر بھر نہ چھوڑا۔سب سے مشکل کام اپنی انا پر پتھر رکھنا ہوا کرتا ہے،اپنا محاسبہ بہت کم لوگ کر پاتے ہیں اور رضی الدین رضی میں اتنا حوصلہ اور ظرف ہے کہ وہ پہلا پتھر خود پر پھینکنے کی جرات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔سچ کے اس سفر میں انہوں نے سینئر اور جونیئر کا کوئی فرق نہ رکھا اور وہی لکھا جو سچ تھا،بعض جگہوں پہ تو بطور کالم نگار اپنے آپ کو بھی نہ بخشاجس کی چند مثالیں دیکھئے ۔
”اب آئیے آپ کو شاکر حسین شاکر کی شادی کا احوال سناتے ہیں۔ یہ بچونگڑہ رضی الدین رضی کا لنگوٹیا ہے۔ جب تک یہ دونوں فسادی ملتان میں رہے، اہل ملتان کی نظروں میں کھٹکتے رہے۔“ اسی طرح ایک اور کالم میں کچھ یوں لکھتے ہیں”رضی کو بھی ملتان کا نمائندہ شمار کیا جائیے تو بھی کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ یہ عزیز تین میں ہے نہ تیرہ میں۔ ہر وقت اپنی عینک کے میلے شیشے صاف کرتا رہتا ہے اور منہ سے بولتا تک نہیں۔ بالکل سلیم اختر کی طرح مردم بیزار ہے“مزید دیکھئے ”ایک رضی الدین رضی باقی بچا،سو اس کی شاعری کوآج کل صحافت کی دیمک چاٹ رہی ہے/رضی کو ویسے بھی متنازع باتیں اچھالنے میں لطف آتا ہے“
ہر شہر میں ضلعی انتظامیہ سرکاری فنڈز سے ادب نوازی کا سٹیج تیار کرتی ہے ،کہیں محض خانہ پُری اور کہیں واقعی ادب کی پرورش احسن انداز میں کی جاتی ہے ۔اس دوران کچھ ادبی شعبدہ گر ”واہ واہ“ کی گردان کرتے، تحسین کے بنڈل بغل میں دبائے انتظامیہ کے گرد جمع ہوجاتے ہیں،اس ماحول میں ”نعرہ ہُو “بلند کرنے والے جانباز ستائش کے حق دار ہوا کرتے ہیں ،رضی الدین رضی کا شمار بھی ان تھوڑے لوگوں میں ہوتا رہا ہے جو ڈنکے کی چوٹ پر ڈرے اور جھکے بغیر سچ لکھنے کی کوشش کرتے رہے ۔
اس کتاب کی تحریروں سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ رضی الدین رضی نے بارہا کلمہ حق کہنے کا جگرا بھی دکھایا،شعراءکی اس چاپلوسی پر بھی تنقید کی جو وہ بیوروکریسی کی قربت کے لئے کرتے رہتے تھے۔آپ لکھتے ہیں”واقعی آج کل ادب کے نام پر یہ بیوروکریٹ حضرات جس فراخ دلی کے ساتھ قومی خزانہ لُٹا رہے ہیں،اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے جیسے انہیں ان عہدوں پر فائز ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ مشاعرے کرائیں،سیمینار منعقد کرائیں،اپنے اپنے دوستوں کو بلوائیں،انہیں زادِ سفر عطا کریں اور پھر اخبارات میں اپنی تصاویر شائع کروائیں“۔یہ بے باکی و حق گوئی مذکورہ تصنیف میں بارہا دکھائی دیتی ہے۔اے ڈی سی جی شہزاد قیصر کے متعلق کالم ” بیورو کریٹ ادیب کیسے بنتا ہے“ کی تو ہر سطر ”آئینِ جواں مردی،حق گوئی و بے باکی “ کا نمونہ ہے۔اس کالم کی آخری سطر پیشِ خدمت ہے کہ چاول کا دانہ پوری دیگ کا نمائندہ ہوتا ہے ”دعا ہے کہ ملتان کا نیا ڈپٹی کمشنر نہ ادب دوست ہو اور نہ ادیب ورنہ ملتان اردو ادب کے مرگھٹ میں تبدیل ہو جائے گا “۔اس جملے کی شدت اور وسعت کا ہزارواں حصہ کم جرات لکھنے والوں کو ساری عمر نصیب نا ہو سکی جس کا مظاہرہ رضی الدین رضی نے کم عمری میں کر دکھایا تھا ۔سرقہ،دوسروں سے کلام لکھوانا،جانبدارانہ تنقیدی مضامین، سرکاری افسران کا کتاب کی تقریب رونمائی میں دفتری عملے کی حاضری لازمی قرار دینا،اعلیٰ عہدوں پر فائز ادیبوں کی اس وقت تک خوشنودی کرنا جب تک وہ سیٹ پر ہیں،یہ ان پہلووں میں سے چند ہیں جورضی الدین رضی نے اس کتاب میں اجاگر کئے ہیں۔
ایک کالم میں آپ لکھتے ہیں”ہم افسر ساجد،شہزاد قیصر اور مرتضیٰ برلاس کو یہ باور کرادینا چاہتے ہیں کہ آج کل شہر والے ان کے ساتھ جو محبت بھرا سلوک کررہے ہیں،اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خدانخواستہ وہ آپ لوگوں کو بڑا ادیب یا شاعر سمجھتے ہیں بلکہ اس کی وجہ صرف وہی کرسی ہے جو آپ کے پاس ہے اور اسی حوالے سے ان کے کچھ مفادات بھی آپ سے وابستہ ہیں،کرسی کے جاتے ہی سارا ادب ودب بھی خاک میں مل جائے گا“مذکورہ جملے میں بے باکی اور سچائی تو قابل تعریف ہیں ہی،ساتھ ساتھ لفظ”خدانخواستہ“ کا بھی لطف اٹھائیے۔
جگہ جگہ برجستہ اور چُٹکیاں لیتے جملے ،لطیف پیرایہ اس کتاب کی خوبیوں میں سے ایک ہے۔”جب تک رس گلے ختم نہیں ہوتے ڈاکٹر محمد امین ہی ہائیکو کے بانی ہیں/جب سے شاکر حسین شاکر نے کتابوں کی دکان کھولی ہے،حسین سحر نے احباب کو کتابیں مفت دینا بند کردی ہیں/ بیوروکریٹ کا ادیب ہونا ضروری نہیں،ادیب اسے یہاں کے قلم کار خود بنا لیتے ہیں/دکان پر ہی کتاب کی سرسری ورق گردانی کی تو ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر کتاب کے اندر بھی سیاہی کم اور سفیدی زیادہ ہوتی تو بہتر تھا/اگلے روز یہ واقعہ ہوا کہ حیدر گردیزی کو نذیر قیصر اور اسلم انصاری کے اشعار میں زنانہ لہجہ نظر آ گیا، بالکل اسی طرح جیسے لوگوں کو بعض خواتین کی غزلوں سے مردانہ لہجہ جھلکتا دکھائی دیتا ہے /اختر شمار اب ہائیکو پروری کا ثبوت یوں فراہم کررہے ہیں کہ ایک فلم کی کہانی اور گیت لکھ رہے ہیں،فلم کا نام ہے۔۔۔ہائیکو میرے ویر دا / بالکل اسی طرح جس طرح نظمیں تو پروین شاکر کہتی ہیں مگر وہ نظمیں احمد ندیم قاسمی کے نام سے پہلے ہی شائع ہو جاتی ہیں“
رضی الدین رضی کی اس تاریخی دستاویز سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسی کی دہائی میں ملتان یا شاید ہر ادبی حلقے میں یہ رجحان عام تھا کہ دل کے پھپھولے کاغذ پر پھوڑے اور پھر اسے فوٹو اسٹیٹ کروا کے سماج میں تقسیم کردیا گیا یعنی اسے سماجی میڈیا ( سوشل میڈیا )کی ابتدائی شکل کہہ سکتے ہیں،پھر متاثرین اور شائقین اس کاپی کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیتے تھے اورمحرمانِ فوٹو اسٹیٹ”غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر“کی مثال بن جاتے تھے!!
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ چند شخصیات پر تھوڑی زیادہ تنقید اور بار بار تنقید اس دور میں رضی کے قلم سے پھوٹتی رہی،شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ اس عمر میں انسان اپنے عقائد و نظریات کو درست سمجھتے ہوئے ان پر جما رہتا ہے، نظریات سے رجوع کرنا یا ان کی درستی کرنا ایک ارتقائی عمل ہے جو وقت سکھا دیتا ہے ،مزید یہ کہ چونکہ ہم اس دور کے شاہد نہیں اور نہ ہی ان شخصیات کے قابلِ تنقید پہلووں سے آگاہی رکھتے ،ان سے ہم جیسے قاری کا تعارف ان کی تخلیق تک رہا ،ان کے فروعی معاملات وہ بہتر جانتے تھے جن کا ان سے واسطہ رہا،اس لئے اس تنقید کی شدت کی درستی کا فیصلہ کرنا مشکل ہے لیکن بہرحال یہ بات بطور قاری چبھتی ضرور ہے لیکن اس تنقید کے ذریعے بھی ملتان کی تاریخ کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں،اس میں شک نہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ رضی الدین رضی کے بہتے پانی جیسے رواں اور ملتانی آم جیسے میٹھے اندازِ تحریر سے سجی یہ کتاب یقیناً ملتان کی ادبی تاریخ میں ایک عمدہ اضافہ ہے،موجودہ اور آنے والے دور میں اس کتاب کی اہمیت،قدر و قیمت برقرار رہے گی،ویل ڈن محترم رضی الدین رضی،اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!!
فیس بک کمینٹ