صوبہ سندھ کا تعلقہ رتو ڈیرو ڈسٹرکٹ لاڑکانہ کا سب ڈویژن ہے، جو اپنی دھان اور چاول کی فصلوں، دیسی مٹھائیوں اور دستکاری والی سندھی ٹوپیوں کے ساتھ ساتھ اس لحاظ سے بھی منفرد و مشہور ہے کہ یہاں سے پاکستانی سیاست کو بہت سے معروف و کامیاب سیاستدان ملے، جیسے ذولفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، ممتاز بھٹو مگر لگتا کچھ یوں ہے کہ اس علاقے کو کسی کی نظر کھا گئی ہے۔ دکھ بھرا المیہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگ بالخصوص بچے بڑی تعداد میں ایڈز جیسے لاعلاج و موذی مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔ بات کچھ یوں چل نکلی کہ ایک مقامی شخص اپنی ایک سالہ بیٹی کی دن بہ دن بگڑتی صحت سے بہت پریشان تھا، اس نے شہر کے تقریباً سب ہی ڈاکٹرز سے علاج کر ا لیا تھا مگر کوئی علاج کارگر ثابت نہیں ہو پا رہا تھا، آخر ایک ڈاکٹر نے چند ٹیسٹ لکھ کر دیئے جن کے نتائج دیکھ کر وہ بہت پریشان ہو گیا، کیونکہ اس کی بیٹی کے ٹیسٹ کا نتیجہ ایڈز مثبت آیا تھا، شدید پریشانی کے عالم میں جب اس نے اپنے ہمسائے سے تذکرہ کیا تو اس نے بتایا کہ اس کا نوعمر بیٹا بھی اس موذی مرض میں مبتلا ہے، رفتہ رفتہ اس پر یہ آشکار ہوا کہ شہر کے بچے بڑی تعداد میں ایڈز کا شکار ہیں اور حکومتی مدد اور توجہ کے طلبگار ہیں۔
سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام (SACP) کے مطابق رتو ڈیرو میں 2,533 لوگوں کو HIV ٹیسٹ کیا گیا جن میں سے 1,438 ایڈز زدہ پائے گئے، ان میں 1,076 بچے ایڈز میں مبتلا پائے گئے۔ جن میں 666 لڑکے اور 410 لڑکیاں ہیں۔ یہ دل دہلادینے والے اعداد و شمار ہیں۔ SACP نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ اب تک اس مرض کا شکار 34 بچے اور چار بالغ لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ لوگ شاید معاملے کی نزاکت تک آج بھی نہ پہنچ پاتے اگر ایک ایڈز میں مبتلا ڈاکٹر خبروں میں نہ آجاتا، کہا جاتا ہے کہ وہ مجرمانہ طورپر لوگوں میں اس موذی مرض کو پھیلا رہا تھا۔ ایک ڈاکٹر کی جانب سے کیا جانے والا گھناؤنا عمل ہمارے نظام کی خرابی اور لوگوں کی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ دیدہ دلیری اس لئے ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہاں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے جو مرضی کر گزریں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ جو لوگ ایڈز میں مبتلا ہیں وہ یہ بتاتے ہوئے رو پڑے کہ ہمیں لوگوں نے قطع تعلق کر کے سماجی طور پر بالکل تنہا کر دیا ہے رشتہ دار اور دوست احباب اب ہم سے ملنا پسند نہیں کرتے، رتو ڈیرو میں آنے والی ایڈز کی آفت کا موجب کیا تھا سب کو معلوم تھا مگر نہ ارباب اختیار کی جانب سے کوئی عملی قدم اٹھایا گیا نہ ہی میڈیا نے کو ئی کردار ادا کرنے کی کوشش کی نتیجہ قیمتی جانوں کا نقصان۔
رتو ڈیرو میں ایڈز کے پھیلاؤ کا بڑا سبب وہ آلودہ سرنج تھیں جو ایڈز سے آلودہ ہونے کے باوجود بار بار مریضوں پر استعمال ہو رہی تھیں۔ خون کے متعدی امراض کے ماہرین infectious diseases experts کا یہ کہنا ہے کہ رتو ڈیرو لاڑکانہ میں ایڈز کے پھیلاؤ کا موجب ایک سرنج کا بار بار مختلف مریضوں پر استعمال کیا جانا، خون لگانے سے پہلے برابر جانچ نہ کیا جانا، عملے کا احتیاطی تدابیر SOPs کا اہتمام نہ کرنا ہے۔ نشے کے عادی لوگ بھی اس مرض کو بڑھاوا دینے میں بڑی حد تک ذمہ دار ہیں، وہ بلا تکلف ایک دوسرے کی سرنج استعمال کرلیتے ہیں اور ان نشے کے عادی لوگوں کی بڑی تعدا د ایڈز کا شکار ہے جو شہر بھر میں چلتے پھرتے ایڈز بم کی مانند ہیں۔ ساتھ ساتھ صحت کی ناقص سہولیات لاڑکانہ کی عوام کے ساتھ وہ بیہودہ مذاق ہیں جو وہاں لوگوں میں ایڈز کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔
رتو ڈیرو کے عمومی لوگ غریب اور ناخواندہ ہیں، جس کی وجہ سے انہیں معاملے کی سنگینی کا شاید احساس بھی نہیں ہے وہ شدید پریشان ہیں کہ اب کیا کریں، کس سے مدد طلب کریں، غربت کے مارے لوگ بیماری اور حالات کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ان متاثرہ لوگوں کی بحالی کیلئے کوئی جامع منصوبہ بندی کی جائے اور اس پر پوری ایمانداری سے عمل بھی کرایا جائے۔ حکومت نے رتو ڈیرو کے ایڈز متاثرین کیلئے ایک ارب روپے مختص کئے ہیں، جن کا صحیح اور بروقت استعمال ہونا نہایت بھی ضروری ہے۔
UNAIDS کے سروے کے مطابق دنیا بھر میں قریب اٹھائیس لاکھ 2.8 million لوگ ایڈز میں مبتلا پائے گئے، جن میں بڑی تعداد ان نوجوانوں کی ہے جن کی عمریں دس سے بیس سال کے درمیان ہیں، ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنہیں یہ مرض اپنے والدین بالخصوص والدہ سے منتقل ہوا ہوتا ہے، جسے vertical transmission بھی کہا جاتا ہے، اس صورت میں بچہ یا تو شکم مادر میں دوران حمل یا پھر ایڈز زدہ ماں کا دودھ پینے سے متاثر ہوتا ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر رتو ڈیرو میں کچھ بچے ایسے بھی ہیں جن کے والدین بالکل صحتمند ہیں اور ان کے تمام ٹیسٹ نارمل آئے ہیں مگر بچے ایڈز میں مبتلا پائے گئے ہیں، جس کی وجہ آلودہ یا استعمال شدہ سرنج کا استعمال، آلودہ خون کا چڑھایا جانا، آلودہ طبی آلات Dialysis Machinesکا استعمال بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں ایڈز کے بڑھتے ہوئے کیسز ایک بہت ہی سنگین صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ امر حیرت یہ ہے کہ اکیس فیصد مریض یہ تک نہیں جانتے کہ وہ ایڈز کے مرض میں مبتلا ہیں۔ UNAIDS کے مطابق پاکستان بھر میں قریب 190,000 ایڈز کے مریض موجود ہیں جن میں سے صرف بارہ فیصد کو علاج کی سہولت میسر ہے۔ لہذا مریضوں کی بڑھتی ہوئی شرح اموات 385% فیصد تک پہنچ گئی ہے، حیرت انگیز طور پر اسی دوران بعض افریقی ممالک میں اس مرض کی شرح کم ہو رہی ہے، پاکستان اس وقت دنیا بھر میں ایڈز کے سب سے تیز پھیلاؤ کا شکار ملک ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دنیا بھر میں یہ مرض کم ہو رہا ہے تو پاکستان میں کیوں بڑھ رہا ہے اور تیزی سے پھیل بھی رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید مناسب رقم کا مختص نہ کیا جانا بھی ہے کہ حکومت مستقل بنیادوں پر ایڈز سے بچاؤ یا اس کی روک تھام کے اقدامات پر مناسب رقم خرچ نہیں کر رہی۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان صحت کی مد میں صرف تین فیصد خرچ کرتا ہے جو دنیا بھر میں صحت کی مد میں مختص جانے والی کم ترین رقم ہے، جبکہ جنگ کا شکار پڑوسی ملک افغانستان اس مد میں دس فیصد رقم مختص کرتا ہے۔ پاکستان میں فی کس طبی معاونت کی مد میں سالانہ قریب $45 خرچ کئے جاتے ہیں جن کا انحصار بھی بیرونی امداد پر ہوتا ہے۔ امر استعجاب یہ ہے کہ اور بہت سے غریب ممالک صحت کے معاملات میں پاکستان سے کہیں بہتر حالت میں ہیں، انہوں نے عوام کی بنیادی صحت کی ضروریات کو نہ صرف اہمیت دی ہے بلکہ ان پر زبردست عملی کام بھی کیا ہے اور عام آدمی کی صحت کی سہولیات کو نہ صرف مستحکم کیا ہے بلکہ مستقل اور یقینی بھی بنایا ہے۔
رتو ڈیرو کی عوام کا وزیر اعظم پاکستان، بلاول بھٹو اور دیگر ارباب اختیار سے یہ مطالبہ ہے کہ ان کے مسائل پر فوری توجہ دی جائے، ان کیلئے مالیاتی فنڈز مہیا کئے جائیں انہیں احساس ہیلتھ پروگرام کا حصہ بھی بنایا جائے تاکہ وہ اور ان کے بچے صحتمند زندگی گزار سکیں۔
فیس بک کمینٹ