اپریل کی پندرہ تاریخ کل ہی گذری ہے، اپریل 2020۔ پچھلے بیس پچیس روز بہت تکلیف میں گذرے۔ حکومت نے لاک ڈاﺅن کا اعلان کیا کر دیاکہ ہر طرف سناٹا پھیل گیا۔ پہلے ایک دو دن تو میرا خیال تھا کہ سارے حکومتی احکامات لوگ ہوا میں اڑا دیں گے، سڑکوں پر یونہی رونق اور چہل پہل رہے گی، رات گئے تک چائے خانے آباد رہیں گے، تقریبات اور دوستوں کی محفلوں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا ، ابتدا میں تو ایسا ہی ہوالیکن پھر لوگ سمجھ گئے، کچھ ڈر بھی گئے، نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو گھروں میں محصور کرلیا۔سب کی طرح مجھے بھی خود کو گھر تک محدود کرنا پڑا۔بیوی بچوں نے بھی ڈرایا کہ کرونا پچاس سال سے زیادہ عمر والوں کو آسانی سے نشانہ بناتا ہے، اور جن کو شوگر ہو، وہ تو کرونا سے بچ ہی نہیں سکتے،میرے بچوں نے میرے موبائل پر اس واٹس ایپ پیغام کی بھرمار کردی کہ ’کرونا خود چل کے نہیں آتا، آپ جا کر لائیں گے‘۔ شروع کے تین چار دن بڑی اذیت میں گزارے ، گھر سے بالکل بھی باہر نہیں نکلا، پھر برداشت جواب دے گئی، رات گئے جاگرز پہن کر خاموشی سے باہر نکل گیا، ابھی مشکل سے سو قدم ہی آگے گیا تھاکہ ذہن میں وہی جملہ گونجنے لگا، کرونا خود چل کر نہیں آتا، آپ جاکر لائیں گے۔ میں وہیں سے گھر کو واپس ہوگیا۔
اس تمام عرصے میں دنیا سے رابطے کا ذریعہ سوشل میڈیا، ٹی وی اور اخبار کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ سوشل میڈیا کا معاملہ تو ایسا ہے جیسے بندر کے ہاتھ استرا آگیا ہو۔ان گنت، انجانے لوگ، پتہ نہیں کہاں کہاں سے کیسی کیسی معلومات لے کر آجاتے ہیں اور انہیں فیس بک، واٹس ایپ، ٹوئیٹر اور میسنجر کے ذریعے شیئر کرنا شروع کردیتے ہیں اور یہ سب کچھ اس رفتار سے ہوتا ہے کہ چند ہی گھنٹوں میں موبائل فون کی میموری جواب دینے لگتی ہے۔ انوکھے نسخے، حیران کن ٹوٹکے، محیرالعقل ترکیبیں، تاریخ کے حوالے، طاعون کے زمانے کے واقعات اور پھر اٹلی ایران اور سپین میں کرونا کی المناک تباہ کاریوں کی خبریں۔سچ پوچھیں تو سوشل میڈیا نے جینا مشکل کردیاہے۔اخبارات کے لیے تو اب اس طرح کی سنسنی پھیلانا ممکن ہی نہیں رہا ہے اور جب ممکن تھا تب بھی اخبارات نے سنسنی خیزی کو عمومی طور پر اپنانے سے گریز ہی کیا ۔ رہ گئے ٹی وی چینل تو ان میں سے ایک آدھ دل جلے، زخم خوردہ کو چھوڑ کر اکثرنے اپنے سسٹم کو محض کرونا رپورٹنگ اور کرونا کے حوالے سے مثبت راہنمائی تک محدود رکھا۔
اصل اودھم اور طوفان سوشل میڈیا پر رہا۔’ایران میں ہر پانچ منٹ بعد ایک مریض دم توڑ رہا ہے،اٹلی میں کرونا سے مرنے والوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر گئی، سپین کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خدشہ، چین کرونا کے نتیجے میں سو سال پیچھے چلا گیا۔پاکستانیوں نے احتیاط نہ کی تو پاکستان کا حشر اٹلی اور سپین سے بھی برا ہوگا۔‘ کچھ بدخواہوں نے ناسٹر ڈیمس کی پیش گوئیوں پر مشتمل کتاب کا وہ صفحہ بھی فوری طور پر ڈھونڈ نکالا اور سوشل میڈیا پر پھیلا دیا جس میں 2020میں آنے والی آفت اور اس کے نتیجے میں دنیا کی تباہی کا تذکرہ کیا گیا تھا۔سوشل میڈیا یوزرز نے بغیر کسی تصدیق کے کتاب کے اس صفحے کی تصویر کو مزید پھیلانا شروع کردیا۔ سچ پوچھیں ، مجھے تو یہ سب دیکھ کر یوں لگنے لگا کہ بس چند دن کی بات ہے، ہم سب ختم ہوجائیں گے، یہ رونقیں، شور ہنگامہ، میل جول، آنا جانا، گھومنا پھرنا، کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ پاکستان کا بھی وہی حال ہوہ گا جو سپین اور اٹلی کا ہوا ہے، ہر طرف موت کا سناٹا۔
صورت حال میں مزید سراسیمگی پھیلانے کے لیے کچھ ایسے آسودہ حال حضرات اور خوشحال خواتین بھی میدان میں اتر آئے جن کے پاس اچھے ویڈیو کیمروں والے موبائل فون ہیں۔ادھر ادھر سے کرونا کے بارے میں کچھ نامکمل سی معلومات جمع کیں ، کیمرہ آن کیا اور خود ہی اپنی گفتگو ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی۔دوستوں یاروں سے کہ کر اس ویڈیو کی شیرنگ بھی کروا دی۔
ویسے بھی ہمارے ہاں جسے دیکھو موٹیویشنل سپیکر بننے کی کوشش میں لگا دکھائی دیتا ہے ۔ پاکستان میں ناکارہ لوگوں کے لیے Motivational Speaker بننے سے زیادہ آسان اور کوئی بھی پیشہ نہیں ، لہٰذا ہر شخص یہ آسان روزی کمانا چاہتا ہے۔ ایسے شعبدہ بازوں نے سہمے ہوئے لوگوں کو بہت بھٹکایا۔لہسن ، نیبو، ٹماٹر، الائیچی، انار دانہ، کیلے حتیٰ کہ پوٹے کلیجی تک میں کرونا کا علاج تلاش کرلیا۔تاہم گنتی کے ان چند لوگوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو مسلسل یہی کہتے رہے کہ کرونا کوئی لاعلاج اورجان لیوامرض نہیں۔ بس لوگوں سے میل جول میں احتیاط کریں۔ بے مقصد گھر سے باہر نہ نکلیں اورہاتھ منہ کی صفائی کا خیال رکھیں۔یقین کیجیے، زندگی، روشنی اور امید کی بات کرنے والے یہ چند لوگ بھی نہ ہوں تو خوف ہمارے معاشرے کو قبرستان بنا دے۔
ان گذشتہ بیس پچیس دنوں میں ایک بات بہر حال بہت اچھی ہوئی، مجھے اپنے اس یقین کو مزید پختہ کرنے کا موقعہ مل گیا کہ انسان اپنی ہزارہا ترقی کے باوجود بھی قدرت کے سامنے بالکل بے بس ہے۔احمق اور نادان ہیں وہ لوگ جو اس خوبصورت سی عارضی سی زندگی کو اپنی لالچ اور حرص کی نذر کر دیتے ہیں، لوگوں کا حق مارتے ہیں،دوسروں کا مال غصب کرتے ہیں،ظلم کرتے ہیں اور نا انصافیوں کا حصہ بنتے ہیں۔ ان میں لوگوں کی جائیدادوں پر قبضے کرنے والے بھی ہیں،رشوت لے کر بے بس انسانوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے والے بھی، ذخیرہ اندوز بھی اور ملاوٹ کرنے والے بھی اور یقینا وہ بھی جو ظالم کے ظلم کو تقویت دینے کے لیے کسی نہ کسی صورت مددگار ہوتے ہیں۔ اپنی خباثتوں سے زندگی کے معصوم اور دلکش چہرے کو بھیانک بنانے کے خواہشمندوں کے لیے کرونا جیسی وبائیں قدرت کی طرف سے ایک اشارہ ہوتی ہیں۔
بہر حال اب سختی کے دن گذر چکے ہیں، کل اپریل 2020کی 15تاریخ تھی، محض بیس پچیس روز کی احتیاط نے ہمارے ملک کو اس بربادی سے بچالیا جس کا بہت سے ممالک ابھی تک سامنا کر رہے ہیں۔ ہم بنیادی طور پر ایک انتہائی مددگار طبیعت قوم ہیں، بے ربط اور بے ترتیب ضرور ہیں مگر بے حس نہیں۔سختی کے ان دو تین ہفتوں میں حکومتی امداد نے بھی ساتھ دیا اور خوشحال لوگوں نے بھی بھرپور مدد کی،ہمارے دیہاڑی دار مزدور بھی زندہ رہے اور ان کے گھروں کے چولہے بھی جلتے رہے۔اب بیس پچیس روز بعد، سڑکوں بازاروں میں وہی پہلے جیسی رونق ہے، کام کاروبار جاری ہے، جگہ جگہ ویسا ہی ٹریفک جام، وہی گول گپوں اور دہی بھلوں کی ریڑھیاں، مصنوعی رنگ کے شربت، گلے سڑے پھلوں کی فروٹ چاٹ، گندے تیل میں بنے ہوئے گرما گرم سموسے اور پکوڑے، سب کچھ بک رہا ہے۔مجھے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ان تمام غیر معیاری چیزوں نے مضر صحت ہونے کے باوجود ہماری قوت مدافعت کو وہ مضبوطی عطا کردی ہے جس کا مغربی ممالک تصور بھی نہیں کر سکتے۔ماہرین طب اسی مضبوطی کو Immunity کا نام دیتے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں ہماری قومی قوت مدافعت کا تذکرہ ہمیشہ سورج چاند اور ستاروں جیسے روشن لفظوں میں کیا جائے گا۔اور یقینا کوئی نہ کوئی مورخ ہماری قوت مدافعت کے لیے فولادی پہاڑ کی اصطلاح بھی ضرور استعمال کرے گا۔
فیس بک کمینٹ