اسلام آباد پولیس یا دیگر حکام کو صحافی مطیع اللہ جان سے متعدد شکایات ہوں گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی رپورٹنگ بے بنیاد ہو اور وہ ناکافی شواہد کی بنیاد پر ایسے واقعات بیان کررہے ہوں جن کا کوئی وجود نہ ہو لیکن گرفتاری کے لیے منشیات فروشی، دہشت گردی اور کار سرکار میں مداخلت کے الزامات مضحکہ خیز اور خود پولیس کی کارکردگی پر سوالات اٹھانے کا سبب بنتے ہیں۔ مطیع اللہ جان کی گرفتاری پر اسی لیے ہر طرف سے سوالات کی بوچھاڑ ہے۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناللہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو مطیع اللہ جان پر عائد کیے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر آئی جی پولیس اسلام آباد سے اس معاملہ کی وضاحت مانگ رہے ہیں۔ رانا ثنا اللہ خود سابقہ دور حکومت میں منشیات اسمگلنگ کے ایک جھوٹے مقدمے میں قید رہے تھے۔ انہوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ کیسے پولیس جعلی مقدمات قائم کرکے شہریوں کو ہراساں کرتی ہے۔ رانا ثناللہ نے مطالبہ کیا کہ مطیع اللہ جان کو رہا کیا جائے اور پولیس کے ان اہلکاروں کے خلاف مقدمہ بنایا جائے جنہوں نے یہ جھوٹا مقدمہ قائم کیا اور قانون کا مذاق اڑانے کا سبب بنے۔
رانا ثنا اللہ البتہ موجودہ حکومت میں مشیر کے عہدے پر فائز ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے اہم اور بااثر لیڈر ہیں۔ ان کی طرف سے ٹی وی ٹاک شو میں بات کہہ دینے سے حکومت کی ذمہ داری پوری نہیں ہوجاتی۔ انہیں چاہئے کہ وہ اس معاملہ کو وزیر اعظم کے سامنے اٹھائیں اور جلد از جلد حکومتی سطح پر اس معاملہ کی وضاحت کے لیے دو ٹوک اعلان کیا جائے۔ مطیع اللہ جان کو نہ صرف رہا کیا جائے بلکہ جھوٹے اور بے بنیاد الزامات عائد کرنے پر ان سے اور ان کے اہل خاندان سے معافی بھی مانگی جائے۔ رانا ثناللہ وزیر اعظم کو سیاسی و عوامی امور پر مشورے دینے پر مامور ہیں۔ عوام میں حکومت کی شہرت کے بارے میں درست مشورہ دینا اور اس پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کرانا ہی ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوتے تو انہیں اس عہدے پر فائز رہنے کا کوئی حق بھی نہیں ہونا چاہئے۔
تاہم صحافت کی طرح سیاست بھی جعل سازی اور دوہرے معیارات کا ایسا شعبہ بن چکا ہے جہاں بیک وقت مختلف بیانات دینے اور دعوے کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا۔ ایک ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے مختلف لوگ متضاد بیانات دیتے ہیں اور خوشی خوشی ایک ہی جگہ بیٹھ کر اپنے اپنے جھوٹ کا جشن بھی مناتے ہیں۔ البتہ یہ سب لوگوں کے مختلف طبقات کو گمراہ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ سیاسی ماحول میں اسی تضاد بیانی اور دوہرے معیار کی وجہ سے پاکستان میں گزشتہ تین دن سے اسلام آباد میں ہونے والے تحریک انصاف کے احتجاج اور اس کے ڈرامائی اختتام کے بارے میں ہر سیاسی جماعت کے مختلف لیڈر اپنی ’استطاعت‘ کے مطابق غلط بیانی کا اہتمام کررہے ہیں۔ لیکن نہ تو کوئی قانون زبان بندی کرسکتا ہے اور نہ پاکستانی سیاست میں کوئی ایسی اخلاقی بنیاد دریافت کی گئی ہے جس کا احترام کرنا ہر کوئی خود پر لازم سمجھتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو گمراہ کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینے والے صرف اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈر ہی نہیں ہوتے بلکہ حکومتی پارٹی اور اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ بھی غلط بیانی سے کام لیتے ہیں لیکن کبھی نہ تو اپنے جھوٹ پرشرمندہ ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں کسی سطح پر جواب دہ ٹھہرایا جاتا ہے۔
سیاست کے رنگ اب صحافت میں بھی نمایاں ہونے لگے ہیں۔ صحافت میں سنسنی خیزی کا چلن تو ہمیشہ سے موجود رہا ہے لیکن اسے جس شدت اور سنگینی سے اس وقت استعمال کیا جارہا ہے، اس کی مثال ماضی کے کسی دور میں تلاش نہیں کی جاسکتی۔ ملک میں میڈیا پر ہر دور میں پابندیاں عائد رہی ہیں لیکن ا س کے باوجود بعض حوصلہ مند صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں پوری کرتے رہے ہیں۔ اگر حکومت کی طرف سے خبروں یا تبصروں کی اشاعت پر پابندی عائد کی گئی تو خالی کالموں کے ساتھ اخبار شائع کرکے صحافیانہ احتجاج کا مظاہرہ بھی اسی ملک کی تاریخ کا حصہ ہے۔ پابندیوں اور جبر کے باوجود کبھی بھی صحافیوں نے اخلاقی و قانونی ذمہ داریوں سے گریز کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ کسی اچھے رپورٹر نے جان بوجھ کر کبھی غلط خبر فراہم نہیں کی اور نہ ہی کسی کی فرمائش پر بے بنیاد معلومات قارئین تک پہنچانے کا چلن پایا جاتا تھا۔ تاہم دھیرے دھیرے یہ ماحول تبدیل ہوتا گیا۔ پہلے مالکان کو نیوز پرنٹ کے لائسنس دینے یا اشتہارات کے لالچ میں کسی حد تک سنسر شپ قبول کرنے پر آمادہ کیا گیا۔ شائع ہونے والے اخبارات کے بعد الیکٹرانک میڈیا کے دور میں حکومت و مالکان کی ملی بھگت سے میڈیا ہاؤسز میں ایڈیٹوریل کی بجائے مارکیٹنگ منیجرز کا کنٹرول عام ہوگیا۔ وہی خبر یا پروگرام نشر کرنے کے قابل ٹھہرنے لگا جس کی وجہ سے زیاد ہ لوگوں تک رسائی ہو اور زیادہ اشتہار حاصل ہوسکیں اور آمدنی کا باعث بنیں۔ اس دور میں خبر کی بجائے قابل فروخت شے اور صحافیانہ اقدار کی بجائے مارکیٹ کی ضرورتیں میڈیا ہاؤسز کی بنیادی پالیسی بن گئی۔ یہ ماحول ملک کی ان سب حکومتوں کے لیے خوش آئیند تھا جو میڈیا کو کسی بھی طرح کنٹرول میں رکھنے اور عوام تک حالات و واقعات کی یک رخی مگر گمراہ کن تصویر پہنچانے میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ مختلف ٹی وی چینلز ایک دوسرے کے مدمقابل ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود ایک ہی طرح کے پروگرام ایک ہی طرح کے مہمانوں کے ساتھ یکساں جوش و خروش سے نشر کرتے رہے ہیں۔ البتہ الیکٹرانک میڈیا میں دوہری سنسر شپ (معاشی و سرکاری) کے باوجود بعض صحافی، مبصر، تجزیہ نگار اور اینکر درست تصویر دکھانے یا سامعین تک متوازن خبر پہنچانے کی اپنی سی کوشش بھی کرتے دکھائی دیتے تھے۔
ابھی یہ صورت حال مکمل طور سے آؤٹ ڈیٹ تو نہیں ہوئی لیکن یو ٹیوب چینلز، وی لاگ اور سوشل میڈیا کے ذریعے صحافت میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے ماحول نے ایڈیٹوریل ذمہ داری کے تصور کر بری طرح پامال کیا ہے۔ منظم ادارتی حکمت عملی کا تصور قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ زبان و بیان ہی نہیں بلکہ مواد کے معیار و صداقت کے بارے میں بھی کوئی اصول یا ضابطہ ، معیار نہیں رہا۔ اب ایک ہی معیار کام کرتا ہے کہ کسی کے پاس مائیک اور سمارٹ فون ہو اور وہ کوئی بھی ’خبر‘ براہ راست اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یوٹیوب سے آمدنی کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ لوگ کسی پوسٹ کو کتنی زیادہ تعداد میں دیکھتے ہیں۔ اس دوڑ میں کامیابی کے دو ہی طریقے کامیاب ٹھہرے ہیں۔ ایک یہ کہ پوسٹ کرنے والا غیرجانبداری بھلا کر کسی ایسے گروہ کے ساتھ وابستہ ہوجائے جو دھڑا دھڑ اس کی خبروں و رپورٹوں کو دیکھنے لگیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صرف وہی شے سامعین و ناظرین تک پہنچائی جائے جو وہ سننا چاہتے ہوں خواہ وہ سو فیصد جھوٹ پر مبنی ہو اور عقل و شعور کے کسی معیار پر پوری نہ اترتی ہو۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے فری لانس صحافیوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے ان طریقوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی تقدیر بدل لی۔ بدقسمتی سے چند لوگوں نے اپنے مالی مفادات کے لیے صحافت و صداقت کو نیلام کیا اور وہی مال مارکیٹ میں پھینکنا شروع کردیا جو لوگ دیکھنا یا سننا چاہتے ہیں۔ یہ رجحان اخبارات، ٹی وی اسٹیشنز ،ریڈیو نشریات یا آن لائن جرائد میں بھی کسی نہ کسی حد تک موجود ہے لیکن یوٹیوب چینلز چونکہ آمدنی کا نادر روزگار موقع بن چکے ہیں لہذا ان چینلز میں صحافت کے نام پر جھوٹ بولنے اور بیچنے کی علت عروج پر پہنچی ہے۔
یہ صورت حال حکومتوں کے لیے پریشانی کا سبب ہے ۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر کنٹرول کے نام پر صحافیوں کی زبان بندی کے متعدد طریقے اختیار کیے گئے ہیں۔ جن یو ٹیوبرز کے حالات نے اجازت دی یا انہیں کوئی ایسا ’جھوٹ‘ تجزیہ کے نام پر بیچنا تھا جسے پاکستان سے نشر کرنا ممکن نہیں ، انہوں نے یورپی ممالک میں اپنی دکانیں کھول لیں۔ کسی یوٹیوب چینل کے لیے چونکہ کوالٹی، ادارتی عملے، خبر کی فراہمی و تصدیق کا کوئی معیار نہیں ہوتا بلکہ ایک ہی شخص من چاہی معلومات کو سمارٹ فون کے ایک بٹن کے ذریعے لوگوں تک پہنچا سکتا ہے لہذا یہ ’کاروبار‘ اس وقت عروج پر ہے۔ پاکستانیوں کو معلومات فراہم کرنے والے بیرون ملک بیٹھے ہوئے یو ٹیوبرز یا وی لاگرز شاید اس وقت ملک میں سب سے سے زیادہ دیکھے یا سنے جاتے ہیں اور ان لوگوں کی آمدنی میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔ البتہ پاکستان سے ایسی ہی کاوش کرنے والے لوگ ہمہ وقت حکومت کے علاوہ مذہبی و سیاسی گروہوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔ کیوں کہ ان میں سے ہر گروہ کی خواہش ہوتی ہے کہ صرف ان ہی کی بات ان کی مرضی کے مطابق عوام تک پہنچائی جائے۔ ایسے میں خاص طور سے حکومت کی ریڈ لائن عبور کرنے والے لوگوں کو مطیع اللہ جان جیسے انجام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مطیع اللہ جان کے صاحبزادے کی اطلاع کے مطابق انہیں کل رات پمز کے باہر سے ایک ساتھی کے ہمراہ اٹھایا گیا تھا ۔ ان کے ساتھی کو تھوڑی دیر بعد یہ کہہ کر چھوڑ د یاگیا کہ ان سے حکام کو کوئی مسئلہ نہیں ہے البتہ جان کو ’غائب‘ کردیا گیا۔ دوسری طرف پولیس نے آج انسداد دہشت گردی عدالت میں مطیع اللہ جان کے خلاف چالان پیش کرتے ہوئے جو ایف آئی آر پیش کی اس کے مطابق وہ رات گئے نشے کی حالت میں گاڑی چلا رہے تھے۔ انہیں رکنے کا اشارہ کیا گیا لیکن انہوں نے کار پولیس اہلکاروں پر چڑھا دی جس سے ایک پولیس کانسٹیبل زخمی ہوگیا۔ اس دوران جان کار سے اترے اور پولیس اہلکار سے رائفل چھین کر پولیس والوں پر ہی تان لی۔ تاہم پولیس نے کسی طرح انہیں قابو میں کرلیا۔ تلاشی پر ان کی گاڑی سے 246 گرام ’آئس‘ نامی منشیات برآمد ہوئی۔ پولیس نے اب دہشت گردی ، کار سرکار میں مداخلت، سرکاری عملے پرحملے اور منشیات رکھنے کے الزامات میں گرفتار کرکے عدالت سے دو دن کا ریمانڈ لے لیا ہے۔
مطیع اللہ جان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ نشہ تو دور کی بات وہ سگریٹ بھی نہیں پیتے۔ انسانی حقوق و صحافی تنظیمیں اسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور آزادی رائے پر حملہ قرار دے رہی ہیں۔ ملک بھر سے سول سوسائیٹی کے ارکان اور صحافی ان کی رہائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ تاہم ملک کا قانون اپنا راستہ بنانے کے راستے پر گامزن ہوچکا ہے۔ اس طریقے کو تبدیل کرنے کے لیے صرف ایک مطیع اللہ جان کی رہائی سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ حکومت کو ضرور شہریوں کے بنیادی حقوق اور صحافیوں کی پیشہ وارانہ آزادیوں کا احترام کرنا ہوگا لیکن صحافی تنظیموں کو بھی کسی ادارتی کنٹرول کے بغیر نشر ہونے والے پروگراموں اور جھوٹ کی بنیاد پر عام کی جانے والی اشتعال انگیزی کا طریقہ محدود کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ ورنہ مطیع اللہ جان جیسے لوگ اگر بیباکی سے تصدیق کے کسی فلٹر کے بغیر معلومات نشر کرنے پر اصرار کرتے رہیں گے تو حکومت کو بھی اپنے جھوٹ کو سچ کہنے کا موقع ملتا رہے گا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔نیوز )
فیس بک کمینٹ