پنجاب اسمبلی پنجاب کے بارہ کروڑ سے زیادہ افراد کی نمائندہ اسمبلی ہے۔ پنجاب اسمبلی جس میں 297 براہ راست منتخب ارکان جبکہ 66 خواتین اور 8 اقلیتی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں کل تین سو اکہتر 371 ارکان پر مشتمل یہ ایوان پنجاب کے عوام کے لیے قانون سازی، عمل درآمد اور انتظامیہ کی نگرانی اور مالیاتی بلوں کی منظوری کی ذمہ داری پوری کرتا ہے۔
تقسیم ہندوستان سے قبل مغربی پنجاب اور بھارتی پنجاب کی مشترکہ اسمبلی ہوتی تھی۔ آزادی سے پہلے اور اس کے بعد ملک کے دیگر پارلیمانی اداروں کی طرح پنجاب اسمبلی نے بھی ایک طویل آئینی ارتقائی سفر طے کیا ہے۔ یہ سفر 1897 ء میں شروع ہوا جب پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر کی مشاورتی کونسل وجود میں آئی، جو دس نامزد اراکین پہ مشتمل تھی۔ یہ مشاورتی کونسل 1921 ء میں قانون ساز ادارے میں تبدیل ہوئی جس نے بعد میں 1937 ء میں تبدیل ہو کر قانون ساز ایوان کا درجہ حاصل کیا۔ آزاد پاکستان میں تمام صوبائی قانون ساز ادارے 1955 ء تک کام کرتے رہے جس کے بعد 1955 ء ہی میں مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ملا کر ایک یونٹ تشکیل دیا گیا۔ جولائی 1970 میں ایک یونٹ نظام ختم کر کے صوبوں کی حیثیت پھر سے بحال کر دی گئی اور 1973 ء کے آئین نے موجودہ اسمبلی کو ”پنجاب کی صوبائی اسمبلی“ کی حیثیت دے دی۔
اسمبلی کو مضبوط اور حقیقی عوامی طاقت کا سرچشمہ بنانے کے حوالے سے مختلف ادوار میں کوششیں ہوتی رہی ہیں تاکہ انتظامیہ کو منتخب نمائندوں کے سامنے جوابدہ بنایا جا سکے۔ اس حوالے سے حکومتی محکموں کی کارکردگی سے متعلق ضروری معلومات حاصل کرنے، حکومت کی کارکردگی کی نگرانی کرنے، اور عمومی اہمیت عامہ کے امور مثلاً اسمبلی سوالات، توجہ دلاؤ نوٹس، تحاریکِ التوائے کار، قراردادیں اور عمومی بحث پر سفارشات مرتب کرنے کی غرض سے رولز اور پروسیجرز صوبائی اسمبلی پنجاب موجود تھے ان قواعد ضوابط کو مزید موثر بنانے کی غرض سے گزشتہ روز پنجاب اسمبلی نے ملک احمد خان سپیکر کی قیادت میں ایک اور تاریخ ساز فیصلہ کیا اور پنجاب اسمبلی نے اپنے ضوابط میں اہم ترامیم کی ہیں، اور اسپیکر نے اہم اختیارات کو تقسیم کر دیا ہے اور ایوان کو با اختیار کر دیا گیا ہے۔ جس سے اسمبلی کی کمیٹیوں کو با اختیار بنا دیا گیا اور ایوان کو ایک نمائندہ اور جوابدہ ادارے کے طور پر مضبوط کیا گیا ہے۔ اسمبلی کی کارروائیوں کو اب لائیو اسٹریم کیا جائے گا اور ریکارڈنگز آن لائن دستیاب ہوں گی، جس سے تمام شہریوں کو حقیقی وقت میں اسمبلی کے امور سے آگاہی حاصل ہوگی۔
پنجاب اسمبلی کے حوالے سے ایک تاریخی دن تھا جب سپیکر پنجاب اسمبلی نے اسمبلی رولز اور پروسیجرز میں ترامیم منظور کرائیں جس کی بدولت اپنے بہت سے اختیارات اسمبلی اور مختلف کمیٹیوں کو منتقل کیے ہیں یہ کل 78 ترامیم ہیں۔
ان رولز پروسیجرز کی لانچنگ کے حوالے سے اسمبلی کی بلڈنگ میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں منتخب اراکین اسمبلی کے ساتھ سول سوسائٹی، مختلف ماہرین، یونیورسٹیوں کے اساتذہ، کو بھی شرکت کا موقع دیا گیا تھا۔ مجھے بھی اس اہم تقریب میں شامل ہونے کا موقع ملا جو میرے لئے اعزاز سے کم نہ تھا کیونکہ ان رولز میں ترامیم سے براہ ِراست عام آدمی کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوں گی جس کے لئے سول سوسائٹی کوشاں ہے۔
جو ترامیم کی گئیں ان کا مختصر سا جائزہ لیں تو اہم نکات درجہ ذیل ہیں۔
· اسمبلی سے پاس ہونے والی قرارداد پر عمل درآمد کے لئے 60 دن کا وقت مقرر کیا گیا متعلقہ محکمہ عمل درآمد کی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرے گا اور اسمبلی میں پیش ہونے والی ہر رپورٹ پبلک کے لئے دستیاب ہوگی۔
· ہمارے نمائندے ہمارے لئے کیا کر رہے ہیں اسمبلی کی تمام کمیٹیوں کی کارروائی براہ ِراست عوام کو دکھائی جائے گی۔
· لا ریفارم کمیٹی قائم کی جا رہی ہے جو پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے تمام قوانین پر عمل درآمد کا جائزہ لے گی اس طرح وہ قوانین جن کے ابھی رولز نہیں بن سکے ان پر عمل درآمد کا راستہ ہموار ہو گا اور کچھ اچھی ترامیم بھی ہو سکیں گی۔
پہلے ارکان اسمبلی صرف اردو میں بات کر سکتے تھے، کسی اور زبان میں بات کرنے کے لئے اجازت لینی پڑتی تھی اب اراکین قومی و علاقائی زبانوں میں بھی خطاب کر سکتے ہیں۔
· مختلف محکمہ جات کے متعلق اسمبلی میں اٹھائے گئے سوالات کے جوابات محکمے 8 دن کے اندر جمع کرانے کے پابند ہوں گے جبکہ متعلقہ اراکین کو یہ جوابات سیشن سے ایک دن پہلے فراہم کر دیے جائیں گے تاکہ وہ ضمنی سوالات تیار کرسکیں۔
· کمیٹیوں کے ممبران کی تعداد گیارہ سے پندرہ کردی گئی ہے ہر کمیٹی میں دو خواتین لازمی ہوں گی۔
· کوکسز کو رولز میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اب وومن کوکس، یوتھ کوکس، اقلیتوں کے حوالے سے کوکس وغیرہ اب ہر اسمبلی بنانے کی پابند ہوگی پہلے یہ رولز میں نہ ہونے کے باعثِ کبھی نہیں بھی بنتے تھے۔
· کمیٹیوں کو سوموٹو کا اختیار حاصل ہو گا پبلک پٹیشن کا اختیار اسمبلی کو حاصل ہو گا۔ اسی طرح بجٹ پر بحث کے لئے وقت بڑھا دیا گیا ہے۔
· اراکین کو اب پنجابی، سرائیکی، میواتی اور پوٹھوہاری سمیت علاقائی زبانوں میں اسمبلی سے خطاب کرنے کی اجازت مل گئی ہے، اس کے علاوہ اردو اور انگریزی میں بھی خطاب کیا جا سکے گا۔ یہ تبدیلی پنجاب کی ثقافتی اور لسانی تنوع کی عکاسی کرتی ہے اور زیادہ شمولیت کو فروغ دیتی ہے۔
· اب ہر قائمہ کمیٹی میں کم از کم 2 خواتین ارکان کی شمولیت لازمی ہے، جس سے خواتین کے نقطہ نظر کو ہر قانون سازی کے شعبے میں شامل کیا جا سکے گا اور اسمبلی میں صنفی نمائندگی کو مضبوط کیا جائے گا۔
· قائمہ کمیٹیوں میں اراکین کی تعداد 11 سے بڑھا کر 15 کردی گئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نقطہ نظر شامل کیے جا سکیں اور وسیع تر نمائندگی یقینی بنائی جا سکے۔
· ترامیم میں مختلف کاکسز کے قیام کی حمایت شامل ہے، جن میں خواتین پارلیمانی کاکس، مقامی حکومتوں کا کاکس اور اقلیتی کاکس شامل ہیں، تاکہ اسمبلی کے دائرہ کار میں کم نمائندہ گروہوں کے مسائل پر توجہ دی جا سکے۔
· اسمبلی کی کمیٹیوں کو اب یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اسپیکر کی پیشگی منظوری کے بغیر اپنے مخصوص شعبوں سے متعلق معاملات کی تحقیقات اور مسائل کو حل کرسکیں۔
· اب اسمبلی بجٹ کے سہ ماہی ریلیز اور استعمال پر بعد از بجٹ مباحثے کرے گی، جس سے مالیاتی نگرانی میں بہتری آئے گی۔
· قانونی اصلاحاتی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو تمام قوانین پر عمل درآمد اور رکاوٹوں کو دیکھے گی یہ کمیٹی اب 18 ویں ترمیم کے نفاذ اور صوبائی قوانین کی نگرانی میں اہم کردار ادا کرے گی۔
· اسمبلی اب سیشنز کا سالانہ کیلنڈر شائع کرنے کی پابند ہوگی، جس سے بہتر منصوبہ بندی اور عوام اور اراکین کے لیے پیش گوئی ممکن ہوگی۔ ترامیم نے اراکین کے لیے مزید ذرائع متعارف کرائے ہیں تاکہ وہ عوامی اہمیت کے مسائل کو فوری طور پر ایجنڈا کے معمول کے آئٹمز کے بعد اٹھا سکیں۔
· ترامیم نے اراکین کے لیے مزید ذرائع متعارف کرائے ہیں تاکہ وہ عوامی اہمیت کے مسائل کو فوری طور پر ایجنڈا کے معمول کے آئٹمز کے بعد اٹھا سکیں۔
· بزنس ایڈوائزری کمیٹی قائم کی گئی ہے اور اس کو اب اخلاقیات کا کام بھی سونپا گیا ہے، جو سینیٹ کے نمونے پر مبنی ہے۔ یہ کمیٹی اراکین کے لیے ضابطہ اخلاق کی نگرانی کرے گی اور اسپیکر کی طرف سے تفویض کردہ اختیارات کے تحت اراکین کی معطلی سمیت نظم و ضبط کے امور دیکھے گی ضابطہ اخلاق کے کمیٹی بھی قائم ہوگی اسی طرح اور بے شمار ترامیم شامل ہیں ان کی تفصیل اسمبلی کی ویب سائٹ سے مل سکتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ سپیکر کا ایک اور شاندار کام پنجاب اسمبلی میں پارلیمنٹری ڈویلپمنٹ یونٹ (پی ڈی یو) کا قیام ہے۔ جس کا بنیادی مقصد اراکینِ اسمبلی کے لئے تحقیق کا انتظام کرنا اور ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کی کوششوں کو فروغ دینا اور ان کی صلاحیتوں کے مطابق ان کے لئے مواقع پیدا کرنا، ساتھ ساتھ مختلف سول سوسائٹی تنظیموں اور انٹرنیشنل پارٹنرز کے ساتھ مل کر مختلف تربیتوں اور پروگراموں کا اہتمام کرنا بھی شامل ہے۔
یہ تقریب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اس سے قبل بھی اقلیتوں کے قومی دن اور لوکل گورنمنٹ کی ضرورت اور اہمیت پر بھی اسمبلی میں مکالمہ کرایا جا چکا ہے۔ امید ہے مستقبل میں پنجاب اسمبلی اور عوامی نمایندے مزید مضبوط ہوں گے اور اسمبلی عوام کے حقوق کے تحفظ کے موثر اقدامات کرنے کے قابل ہوگی، اس حوالے سے سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کی کوششیں قابل تحسین ہیں۔
( بشکریہ : ہم سب )
فیس بک کمینٹ