کہتے ہیں کہ سکندرِ اعظم اپنی ایک خوبصورت کنیز پر دل و جان سے فدا تھا۔ فرصت کے اکثر لمحات اس کی رنگین صحبت میں گزارا کرتا۔ سکندر کے استادِ دانا کو یہ بات کھٹکتی کہ کہیں یہ حسین صحبت سکندر کو اس کے اصل مقصد سے دور نہ کر دے۔ ایک دن اس نے سکندرِ اعظم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ تمہارا مقصد فاتحِ عالم بننا ہے۔ اور حسن و عاشقی کا چکر انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ اس لیے بہتر ہے کہ تم اس کنیز کی صحبت سے کنارا کر لو۔ سکندر بھی پیٹ کا کچا نکلا۔ جھٹ سے یہ بات اس حسینہءدلنواز کو جا بتائی۔ حسن کا مان اور پھر حسن بھی ایسا کہ آدھی دنیا کو فتح کرنے والا جس کے آگے ہار مان لے۔ سو وہ حسینہءطنّاز تلملائی تو بہت۔ مگر اپنے عشوے اور نازوادا کی طاقت پر اعتماد تھا۔ سکندر کو کہنے لگی کہ فلاں دن اور فلاں وقت میرے خیمے میں آ جانا۔ آپ کو اپنی بات کا جواب مل جائے گا۔ اب مقررہ وقت پر جب سکندرِ اعظم اپنی محبوبہ کے خیمے میں داخل ہوا تو اندر کا منظر دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ اس کا استادِ بزرگ گھوڑا بنا ہوا ہے۔ اور وہ مہ جبیں اس کے اوپر سوار ہے۔سکندر کا استاد اسے یوں اچانک سامنے پا کر کھسیانا سا ہو گیا۔ اور وہ حسینہ اپنی آنکھوں میں فتح کی چمک لیے مسکرا رہی تھی۔سکندرِ اعظم گویا ہوا کہ استادِ محترم! مجھے تو آپ اس حسینہ سے دور رہنے کی نصیحت کیا کرتے تھے اور خود آپ یہاں اس حال میں۔ استاد بھی آخر سکندرِ اعظم کا ہی استاد تھا۔ کہنے لگا کہ اب آپ خود سوچیئے کہ اس قتالہءعالم کا حسن مجھ جیسے جہاں دیدہ بوڑھے کی عقل و دانائی یوں سلب کر سکتا ہے، تو آپ جو ابھی کم عمر اور نوجوانی کے جذبات سے معمور ہیں، آپ کے لیے حسن کا یہ سحر کیسا زہرِ قاتل ہے۔
سکندرِ اعظم استادِ محترم کی اس چرب زبانی سے کس قدر متاثر ہوا، اس بارے میں تاریخ کے صفحات خاموش ہیں۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ مرد جس قدر بھی دولت و شہرت اور قیادت و سیادت ہی کیوں نہ حاصل کر لے، اپنی اس فطری کمزوری کے ہاتھوں کہیں نہ کہیں مار کھا ہی بیٹھتا ہے۔ کوئی حسینہءگلبدن اپنے ناز و ادا اور حسن کے بانکپن سے کمزوری کےلمحات میں اس کی کی عقل وہوش کی سب حالتیں جنوں کے سانچے میں ڈھال دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس لیے کوئی بھی شہرت یافتہ شخصیت ہو یا کوئی سیاسی قائد، بشری کمزوری کے ہاتھوں مجبور، کہیں نہ کہیں اپنی پیاس بجھانے کا چور رستہ ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔ کوئی بھی انسان فرشتہ نہیں ہو سکتا۔ ہر انسان کی ذاتی زندگی میں گرے ایریاز ہوتے ہیں۔ انسانی معاشرے میں سب فرشتے گنجے ہی نکلتے ہیں، بس ضرورت صرف ایک منٹو جیسے سفاک لکھاری کی ہوتی ہے جو ان فرشتوں کے منڈے ہوئے سر دنیا کو دکھائے، تاکہ لوگ انسانوں کو انسان ہی سمجھیں، اپنی اندھی عقیدت میں انہیں دیوتا کے درجے پر فائز نہ کر دیں۔
تو کچھ ایسی ہی صورتحال عائشہ گلالئی کے الزامات کے نتیجے میں سامنے آئی۔ عمران خان کو دیوتا کی طرح پوجنے والے تحریکِ انصاف کے متوالے اپنی عقیدت کے اس بت کو اوندھے منہ گرتے کیسے دیکھ سکتے تھے۔ سو ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہو گیا۔ خصوصاً سوشل میڈیا پر جہاں کوئی روک ٹوک نہیں، عائشہ گلالئی کے خوب لتّے لیے گئے۔ ان کی بہن کی اسکواش کھیلتی کی تصاویر سے لے کر ان کی اخلاقی اور مالی کرپشن کی داستانیں ہوں یا پھر سازش کا الزام اور بزعمِ خود سازش کے ذمہ داروں کا تعین اور ان کی متعلق بدتہذیبی اور ان کی کردار کشی۔ کیا کیا کیچڑ ہے جو نہیں اچھالا گیا۔
پہلے تو یہ دعویٰ تھا کہ عائشہ گلالئی کی کیا اوقات کہ عمران خان جیسی قدآور شخصیت اس کو میسجز کرے۔ پھر عمران نے اپنے انٹرویو میں یہ تسلیم کر لیا کہ انہوں نے کوئی نازیبا میسج تو نہیں کیا، بلکہ صرف عائشہ گلالئی کو شادی کا مشورہ دیا تھا۔ پھر فرمایا کہ ہاں پارلیمنٹری کمیٹی بنا لیں، مجھے منظور ہے، اور تحقیقات کر لیں۔ اب جب کمیٹی بن گئی تو اس کو ماننے سے انکاری ہو گئے، اور فرماتے ہیں کہ یہ جنہوں نے کمیٹی بنائی ہے، یہی تو ہیں اس سازش کے پیچھے۔ تو میں کیسے مان لوں کہ یہ کمیٹی انصاف کر گی۔ ادھر نعیم الحق صاحب کو عین موقع پر کسی سیانے نے عقل دے دی، اور اکاؤنٹ ہیک ہونے کے بہانے کی آڑ لیتے ہی بنی۔
عائشہ گلالئی کے الزامات میں کس حد تک حقیقت ہے، یہ جاننا آزادانہ تحقیقات کا متقاضی ہے۔ مگر قرائن بتاتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا تو ضرور ہے۔ ادھر مقابلے میں عائشہ احد کو تحریکِ انصاف باقاعدہ سپانسر کر کے میدان میں لے آئی۔ عائشہ گلالئی کی پریس کانفرنس میں ایک نیوز چینل کے رپورٹرز کی موجودگی اور اس کے والد کے لقمے دینے کو سازش کا ثبوت بنا کر پیش کرنے والوں نے باقاعدہ دھوم دھڑکے سے اپنی رہنماؤں کے جلو میں پریس کانفرنس کا اہتمام کروایا۔ ادھر ریحام خان کو بھی میدان میں گھسیٹ لیا گیا ہے۔ اور با خبر ذرائع آنے والے دنوں میں مزید ایسے خفیہ نکاح اور تعلقات کے اسکینڈلز منظرِ عام پر آنے کی پیش گوئی کرتے نظر آتے ہیں۔
عرض یہ ہے کہ ذاتی کردار پر کیچڑ اچھالنے والی ایسی سیاست میں سب کی پوشاک داغ دار ہونے کے سوا کیا حاصل ہو گا۔ سیاست کو سیاست ہی رہنے دیجیے۔ ہم سب گنجے فرشتے ہیں۔ ہم سب سالوں کا کریکٹر کہیں نہ کہیں سے ڈھیلا ہے۔ شیشے کے گھرمیں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر برسانا کہاں کی دانشمندی ہے۔ گندگی کے چھینٹے اڑتے ہیں تو زد میں آئے ہر شخص کا اجلا لباس داغدار کرتے چلے جاتے ہیں۔ نئی پود کو ایسی سیاست مت سکھائیے۔
فیس بک کمینٹ