تقریباً دو ماہ پہلے کی بات ہے کامریڈ دلاور عباس میرے ہاں تشریف لائے ان کے ہاتھ میں علی عباس جلالپوری کے مکاتیب والی کتاب تھی جس کو جلالپوری کی ہونہار بیٹی (جو خود بھی ادب شناس ہونے کے علاوہ افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں) پروفیسر لالہ رخ بخاری نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب مَیں چند سال پہلے پڑھ چکا تھا۔ مکاتیبِ جلالپوری ویسے تو پوری کتاب ہی قابلِ مطالعہ ہے لیکن میرے لیے اس میں دلچسپی کی بات یہ تھی کہ سیّد علی عباس جلالپوری نے بہت سے خطوط ملتان بیٹھ کر تحریر کیے۔ یہ خطوط انہوں نے اس وقت ملتان سے لکھے جب ہم دنیا میں بھی نہیں آئے تھے۔ شاہ جی ان خطوط میں ملتان کی گرمی کا تذکرہ کرتے ہیں تو کبھی ملتان کے لوگوں کی محبت کو رقم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب ہم واپس دلاور عباس کی طرف آتے ہیں جنہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی بیٹی پروفیسر لالہ رخ بخاری کی بھی کئی کتابیں آ چکی ہیں۔ مَیں ان سے کہوں گا کہ وہ آپ کو اپنی کتابیں بھجوائیں۔ مَیں نے سوچا کہ ایک بڑے باپ کی بڑی بیٹی کے پاس اتنی فرصت کہاں ہو گی کہ وہ ملتان بیٹھے ایک کتاب دوست کو کوئی کتاب بھجوائے۔ دن گزرتے گئے اور مَیں ایک دن پھر مکاتیب سیّد علی عباس جلالپوری لے کر بیٹھ گیا۔ کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے سوچتا رہا 16 کتب کے مصنف پروفیسر علی عباس جلالپوری نے کتنے مشکل حالات میں بیٹھ کر منفرد اور متنازعہ موضوعات پر کام کیا۔ انہوں نے روایاتِ تمدن قدیم، رسومِ اقوام، کائنات اور انسان، اقبال کا علمِ کلام، مقاماتِ وارث شاہ، روایاتِ فلسفہ، جینیاتی مطالعے، عام فکری مغالطے، وحدت الوجود تے پنجابی شاعری اور دیگر موضوعات کو کتابی شکل میں قلم بند کیا۔ ڈاکٹر طارق جاوید ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
”علی عباس جلالپوری ان ہستیوں میں سے تھے جنہوں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا خواہ کے لیے انہیں کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑی۔ اقبال پر تحریر کردہ ان کے مظامین پر سخت ہنگامے کی کیفیت پیدا ہوئی۔“
پرفیسر علی عباس جلالپوری ملتان کے مشہورِ زمانہ ایمرسن کالج میں پڑھاتے رہے۔ ملتان میں پل شوالہ کے قریب رہے۔ ان دنوں کی یادوں کے حوالے سے جلالپوری صاحب کا بیٹا پروفیسر حامد رضا (جو ملتان میں کچھ عرصہ اپنے والد کے ہمراہ رہا) لکھتے ہیں:
”ابو جان کی ایمرسن کالج میں اُردو کے لیکچرار کے طور پر تقرری ہوئی۔ کالج کی لائبریری بہت شاندار تھی جہاں بیٹھ کر والد صاحب نے خوب استفادہ کیا۔ پل شوالہ کے قریب جس گھر میں ہم رہتے تھے اس میں دو بڑے کمرے ایک وسیع صحن ہوتا تھا جہاں ہر وقت دھول اڑتی رہتی تھی۔ بجلی ندارد۔ کالج سے واپسی سے آرام کے بعد وہ میز کرسی پر براجمان ہوتے کسی کتاب کو پڑھتے اور پھر اسے کاپی پر منتقل کرتے۔ ملتان کی شدید گرمی لیکن ابو کے ایک ہاتھ میں قلم اور دوسرے ہاتھ میں دستی پنکھا۔ مَیں لیٹا لیٹا انہیں دیکھتا ہوا اکثر سو جاتا۔ درمیان میں جب کبھی آنکھ کھول کے دیکھتا تو وہی منظر دوبارہ دکھائی دیتا۔“
علی عباس جلالپوری کی کتب میں ان کی شخصیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ ترقی پسندی و روشن خیالی ان کی زندگی کا منشور تھا۔ انہوں نے ہر اس موضوع پر قلم اٹھایا جو متنازعہ لیکن تشنہ طلب تھا۔ لیکن انہوں نے ہر موضوع کے ساتھ کچھ اس طرح انصاف کیا کہ اس کے بعد کسی اور کو اس موضوع پر اختلاف کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ ان کے ایک شاگرد کے بقول کسی بڑی حقیقت کی نشاندہی کرنا شاہ صاحب کا ہی شیوہ تھا۔ یہی ایک فلسفی کا کمال ہے۔ دانشور مستقبل سے آگاہ کرتا ہے دلیل سے بات کرتا ہے ان کی تحریروں کو جھٹلانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ (محمد اسلم حمید)
ایسے اُجلے شخص کی کوئی نہ کوئی کتاب میرے مطالعہ میں رہتی ہے کہ ایک دن رجسٹرڈ ڈاک سے گوجرانوالہ سے ان کی قابلِ فخر بیٹی پروفیسر لالہ بخاری کا نیا ناول ”جہاں گلزار موسم تھے“ ملا۔ مجھے کامریڈ دلاور عباس یاد آ گئے جنہوں نے کہا تھا کہ مَیں پروفیسر لالہ رخ بخاری سے کہوں گا کہ وہ آپ کو اپنی کتابیں بھجوائیں گی۔ مون سون کے موسم میں گلزار موسم کا ملنا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ کتاب کے بیک ٹائیٹل پر عرفان احمد خان ان کے بارے میں لکھتے ہیں ”ان کا یہ ناول ایسے دور میں آیا ہے جو ناول کے عروج کا زمانہ ہے۔“
مَیں عرفان احمد خان کی اس رائے سے اختلاف کرتا ہوں کیونکہ آج کا دور تو ناول کے زوال کا زمانہ ہے۔ آپ کے دور میں نہ انتظار حسین ہیں نہ بانو قدسیہ، قراة العین حیدر کو کہاں تلاش کریں، عبداﷲ حسین، اشفاق احمد، رحیم گل، ممتاز مفتی کے بعد مستنصر حسین تارڈ، اشرف شاد، اطہر بیگ، نیلوفر اقبال اور دیگر غنیمت ہیں۔ ورنہ نسیم حجازی نے جہاں سے سلسلہ تمام کیا تھا اس کو خواتین اہلِ قلم کی بڑی تعداد نے وہیں سے شروع کر کے پوری نئی نسل کو اس کے انجام تک پہنچانے کا کام کر لیا ہے۔ ایسے میں پروفیسر علی عباس جلالپوری کی بیٹی پروفیسر لالہ رخ بخاری کا ناول شائع ہو جانا بڑی خبر ہے۔ اس سے ان کے پہلے ان کے دو ناول اور ایک افسانوں کا مجموعہ آ چکا ہے۔ اس ناول کا آغاز بھی بڑے خوبصورت انداز سے ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخی پس منظر میں لکھا گیا یہ ناول ہمیں بتاتا ہے ہمارے لکھنے والوں نے تاریخ کے نام پر تاریخ کے ساتھ کس طرح ظلم کیا ہے۔ لالہ رخ بخاری کے پیشِ نظر اپنے والد کی کتب ہیں اس لیے ان کے ناول میں تاریخی حوالوں کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ناول مارکیٹ میں دستیاب روایتی ناول سے ہٹ کر اپنے موضوع سے انصاف کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے آپ سرسری انداز سے نہیں پڑھ سکتے۔ صرف ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
٭…. جاگیرداری نظام شخصی حکومتوں سے آج تک کی نام نہاد جمہوری حکومتوں تک ایک ہی نظریہ پر چلا آ رہا ہے کہ ایک آدمی اس وقت تک عیشِ بے حساب کی زندگی نہیں بسر کر سکتا جب تک دوسروں کا حق نہ مارے۔ (ص84)
یہ ناول ہماری اسلامی تاریخ کے اُن گوشوں کو سامنے لاتا ہے جو فسادِ خلقِ خدا کی وجہ سے ہم سے اوجھل رکھے گئے جیسا کہ مَیں آغاز میں بیان کر چکا ہوں کہ پروفیسر لالہ رخ بخاری نہ تو عصمت چغتائی ہیں اور نہ ہی رضیہ بٹ۔ وہ بشریٰ رحمن، اے آر خاتون اور نادرہ خاتون کے اسلوب سے بھی دور ہیں۔ واجدہ تبسم، ہاجرہ مسرور، جمیلہ ہاشمی، قرة العین حیدر اور خدیجہ مستور سے بھی متاثر دکھائی نہیں دیتیں۔ انہوں نے اپنا اسلوب متعارف کرایا۔ خاص حوالوں کو ساتھ لے کر جب وہ اپنے قلم کو رواں کرتی ہے تو پھر تاریخی واقعات کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہماری تاریخ کتنی مظلوم ہے جس کو قلم بند کرنے والے جانبدار مؤرخ میسر آئے۔ ہم نے اس نسلوں کو اپنی تاریخ سے واقف کرایا جو ہمیں مولوی، مسلک اور تعصب نے دی۔ آج اگر ہم نسلِ نو کا مرثیہ پڑھتے ہوئے ہر جگہ دکھاوی دیتے ہیں تو اس میں ہمارا اپنا قصور ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ کو ان مؤرخین کے سپرد کر دیا جو آخری چٹان سے لے کر من چلے کا سودا لے کر بازار میں آئے۔ تاریخ کے ایسے حبس کے موسم میں اگر پروفیسر لالہ رخ بخاری ”جہاں گلزار موسم تھے“ اگر لے کر آئی ہیں تو ہمیں گلزار موسموں کو خوش آمدید کہنا ہوگا کہ نئی نسل کی بقا اسی قسم کی تحریروں میں پوشیدہ ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ