اس نے ایک گہری سانس بھری اور اپنی ہتھیلی پر رکھی موبائل سمز پر ایک الوداعی نظر ڈالی. اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ سی پل بھر کے لیے ابھر کر یوں غائب ہو گئی جیسے کوئی بجلی کا کوندا لپکا ہو. یوں جیسے کوئی دلچسپ یاد لمحے بھر کے لیے اس کی سوچوں کو گدگدا کر چلی گئی ہو. اس کے رومانوی جذبات کے شیش محل پر قدم رکھنے والا ہر لڑکا اس کے لیے ایک سم ہی تو تھا. اس کے لیے یہ ہر سم ایک ایسی کھڑکی کی مانند تھی جس کے ذریعے مڈل کلاس کے گھٹے ہوئے روایت زدہ ماحول میں جوانی کی امنگوں کو تروتازہ رکھنے والے باہر کی تازہ ہوا کے جھونکے اس کے ارمانوں کے آنگن میں بسی حبس کو کچھ پل کے لیے کم کر دیتے تھے. کانوں میں رس گھولتی مدھم سی سرگوشیاں جذبوں کی آنچ پر دھری جوانی کی ہنڈیا کے ابال کو دھیرے دھیرے بڑھاتی جاتیں. سب گھر والوں کی نظروں سے پوشیدہ اپنے بسترمیں دبکی بے قابو سانسوں کو سنبھالتی کبھی کبھار تو وہ سچ میں ہانپنے لگتی تھی. جیسے کوئی لمبی دوڑ لگا کر آئی ہو. بدن میں دوڑتی سرسراہٹیں کبھی اتنی شدت اختیار کر جاتیں کہ کہ اس کا دل چاہتا کہ کوئی اس کے بدن کو کسی شکنجے میں زور سے کس دے. ہر کال کے بعد جسم میں اٹھتی درد کی میٹھی میٹھی لہریں ایک سرور بھرا احساس بخشتیں. اس نے ان لڑکوں میں سے کسی کو بھی دیکھا نہیں تھا. بس ان کی آواز سے اس کے ذہن میں ہر کسی کا ایک خاکہ سا بنا ہوا تھا. کوئی جذبات کو گدگدانے والی باتیں کرتا اور کوئی اپنے دکھ درد اس سے بانٹا کرتا. کوئی اس کے جذبات کو ہلکی آنچ پر ابالا دیتا اور کوئی باتوں ہی باتوں میں اس کو لذت و سرور کے نئے جہانوں سے آشنا کروا دیتا. ان کے نام اصل تھے یا نہیں وہ تو یہ بھی نہیں جانتی تھی. مگر اس کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہ تھی. اس نے خود بھی آج تک کسی کو اپنا اصل نام نہ بتایا تھا. سب سے بڑھ کر طمانیت بخشنے والا احساس تو یہ تھا کہ وہ سارا کنٹرول اپنے ہاتھ میں محسوس کرتی تھی. وہ اپنی بسائی اس دنیا کی ملکہ تھی. کب کون سی سم آن کرنی ہے اور کون سی سم کو کب تک بند رکھنا ہے سب اس کی صوابدید پر تھا. اور اس سے بات کرنے والا ہرلڑکا کم از کم اس کے سامنے تو یہی ظاہر کرتا تھا کہ وہ اس بات پر مکمل یقین کرتا ہے کہ اس کا تعلق صرف اسی ایک لڑکے سے ہے اور اسے وہ اپنے گھر والوں کے ڈر سے ہر وقت سم آن نہیں کر سکتی. آخرکار وہ ایک ایک کر کے ساری سمیں توڑتی چلی گئی. وہ ہمیشہ سے اس دن کے لیے تیار تھی مگر پھر بھی جانے کیوں اسے اپنے اندر اداسی کا احساس جاگتا ہوا محسوس ہوا.
صبح ابھرتے سورج کی روشن کرنیں بند کھڑکی کی درزوں سے کمرے کی تاریکی میں جھانک کربند کمرے میں پھیلی اس نوبیاہتا جوڑے کے پرلطف لمحات کی خوشبو سے اپنی سانسوں کو مہکا رہی تھیں. اس نے دوبارہ سے آنکھیں موندیں اور اپنا چہرہ لحاف میں ڈھانپ لیا. اچانک اس کو یاد آیا کہ کل جاوید کی آخری چھٹی تھی اور آج اس نے آفس جانا ہے. وہ جلدی سے آنکھیں ملتے ہوئے بیدار ہو گئی. جاوید اس کی جانب پشت کیے محوِخرام تھا. ‘دن گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا’ اس نے جاوید کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے سوچا. ابھی کل ہی کی بات تھی وہ عروسی جوڑا پہنے دلہن بنی بیٹھی تھی. اور پھر وہ ارمانوں بھری رات. ہنی مون کے دن ایک خوبصورت یاد بن کر اس کے ذہن میں محفوظ تھے. جاوید قربت کے لمحات میں اس کی گھبراہٹ اور جھجک سے کس قدر محظوظ ہوا تھا. ‘کس قدرسادہ اور پروقار ہے جاوید. ان سب لڑکوں سے بالکل مختلف’ یہ سوچتے ہوئے اس نے ایک لمحے کے لیے خود کو جاوید کے مقابلے میں بہت گرا گرا محسوس کیا.
صبح نا شتہ کرنے کے بعد آفس کے لیے روانہ ہوتے وقت جاوید نے اس کا ایک طویل بوسہ لیا تھا. اس کے جاتے ہی ریحانہ کو گھر خالی خالی لگنے لگا تھا. وہ خود کو مصروف رکھنے کے لیے بکھری ہوئی چیزوں کو ترتیب سے رکھنے لگی. جاوید دفتر پہنچتے ہی کام میں جت گیا تھا. اس کی چھٹیوں کے دوران کافی کام اکٹھا ہو گیا تھا اور اس کی میز پر فائلوں کا ایک انبار جمع تھا. دفتر کے ساتھی اسے شادی کی مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ اشارے کنایوں میں نوبیاہتا جوڑے کے رنگین لمحات کی بابت سوال کر رہے تھے اور وہ مسکرا مسکرا کر سب سوالوں کو ٹالے جا رہا تھا. لنچ بریک میں جب اس نے گھر سے ساتھ لایا لنچ باکس کھولا تو کمرہ کھانے کی خوشبو سے مہک اٹھا. اس نے خیالوں ہی خیالوں میں اپنی شریکِ حیات کو ڈھیر سارا پیار کیا اور کھانے کی جانب متوجہ ہو گیا. لنچ کے بعد جب وہ دوبارہ اپنی سیٹ پر پہنچا تو اچانک جیسے اسے کوئی خیال آیا. اس نے اپنے پیچھے پڑی الماری کھولی. ایک دراز اس کے ذاتی سامان کے لیے مختص تھی. اس نے چابی لگا کر دراز کھولی اور اس میں پڑے کاغذ اٹھائے. کاغذوں تلے دراز کی دیوار کے ساتھ لگی کچھ موبائل سمز پڑی ہوئی تھیں.
فیس بک کمینٹ