یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے امریکہ کی طرف سے دھمکی آمیز پیغامات پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ آج قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں اور افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن کے ان دعوﺅں کو مسترد کیا کہ امریکہ جانتا ہے کہ طالبان شوریٰ کے ارکان پشاور اور کوئٹہ میں موجود ہیں۔ قرارداد میں ان الزامات کو مسترد کیا گیا ہے۔ دوسری طرف سینیٹ نے بھی امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر غور کرتے ہوئے حکومت کو بعض موثر اقدامات کرنے کی تجاویز دی ہیں۔ تاہم آج قومی اسمبلی میں ہونے والی کارروائی کے حوالے سے یہ سوال کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ایوان میں منظور کی جانے والی قرارداد یا وہاں ہونے والی تقریروں کا بنیادی مقصد امریکہ کی مذمت کرنا تھا یا پاک فوج کی تعریف و توصیف اس کا مقصود تھا۔ کیوں کہ ایک تو قرارداد میں صرف وہ پہلو نمایاں ہیں جن پر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ رائے دیتے رہے ہیں۔ اس قرارداد میں معاملات کو اسی تناظر میں دیکھا گیا ہے جو افغانستان اور بھارت کے حوالے سے فوجی ترجمان کی باتوں اور بیانات سے سامنے آتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے منظور کی جانے والی قرارداد میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی قربانیوں کے ذکر سے بھی یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ملک کی سول قیادت اور جمہوری منتخب ادارہ کسی غوروخوض کے بغیر خارجہ پالیسی کے مشکل ترین دور میں صرف وہی نقطہ نظر اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو فوج کی طرف سے سامنے لایا جا رہا ہے۔
عام لفظوں میں اسے قومی یکجہتی کا اظہار بھی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن حکومت نے قومی اسمبلی میں اس معاملہ کو اٹھاتے ہوئے بحث شروع کرنے یا ارکان اسمبلی کو پاک امریکہ تعلقات، افغانستان کی جنگ میں پاکستان کے کردار اور بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعہ اور مشکلات پر تفصیل سے اظہار خیال کی دعوت دینے کی بجائے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے ایک مذمتی قرارداد پیش کی۔ ایوان میں سب جماعتوں کے نمائندوں نے اس قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کرنے سے پہلے انہی خطوط پر اظہار خیال کیا۔ حکومت کے علاوہ اپوزیشن نمائندوں نے بھی انہی جذبات کا اظہار کیا جو قرارداد میں پہلے سے ہی درج تھے۔ اس طرح اس مذاکرہ کو ایک اہم قومی پالیسی کے حوالے سے بحث و مباحثہ قراردینا مشکل ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کو امریکی صدر کی اشتعال انگیز باتوں، اس کے بعد امریکی جنرل نکلسن کے ٹھوس الزام اور وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی طرف سے پاکستان کے خلاف اقدامات کے حوالے سے بیانات کو بنیاد بنا کر اظہار خیال کی دعوت دی جاتی۔ قومی اسمبلی کے سارے پارلیمانی گروپ اور پارٹیاں اپنی پالیسی لائن کے مطابق اس صورت حال پر اظہار خیال کرتے اور اس کے بعد کوئی قرارداد سامنے لائی جاتی۔ قرارداد ایوان کی طرف سے امریکہ کے تبدیل ہوتے ہوئے رویہ پر اظہار تاسف کے طور پر تو قبول کی جا سکتی ہے لیکن اگر یہ صرف نعرے بازی اور قومی وقار کے پرجوش بیانات پر استوار ہو اور اس میں کسی واضح پالیسی کا اظہار نہ ہو تو اس کی حیثیت اس کاغذ کی قیمت کے برابر بھی نہیں رہتی جس پر اسے تحریر کیا گیا ہوگا۔
آج قومی اسمبلی کی کارروائی سے یہ احساس اجاگر ہوا ہے کہ ملک میں اگرچہ جمہوریت کے تسلسل اور جمہوری اداروں کی بالادستی کی باتیں بہت زوروشور سے کی جاتی ہیں لیکن ان جمہوری اداروں کو حکومت اور ملک کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اپنے اپنے طور پر ربر اسٹیمپ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ آج کی قرارداد سے یہ تاثر زیادہ قوی ہؤا ہے کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے یہ قرارداد اس لئے ایوان میں پیش کی تھی کیوں کہ پاک فوج کی خواہش تھی کہ ملک کا منتخب ادارہ جو جاری نظام کے تحت بظاہر سب سے مقتدر ادارہ ہے، اس کے موقف کی تائید کر دے۔ کیوں کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے جو الزامات عائد کئے گئے ہیں، ان کا تعلق دراصل پاک فوج کی حکمت عملی اور طریقہ کار سے ہے۔ ورنہ عوام کے منتخب نمائندوں کو تو اصل حقائق تک نہ تو دسترس حاصل ہے اور نہ ہی شاید وہ اس کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایوان میں آج ارکان قومی اسمبلی نے اپنی سیاسی وابستگی سے قطع نظر جس طرح بڑھ چڑھ کر امریکہ کی مذمت اور پاک فوج کی تعریف و توصیف کرنے کی کوشش کی اس سے یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ ملک کا مقتدر ترین ادارہ بھی حکومت کے ایک ذیلی ادارے یعنی فوج کی خواہش و مرضی کے خلاف بات کرنے یا رائے دینے کی تاب نہیں رکھتا۔
اسی پر موقوف نہیں مختلف سیاسی پارٹیاں جو معمولی اختلاف پر ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں، قومی سلامتی کے ایک اہم مسئلہ پر کسی خودمختارانہ رائے کا اظہار کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ یہ امر باعث حیرت ہونا چاہئے کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے قومی اسمبلی کے کسی بھی رکن کے پاس نہ تو کوئی نئی رائے تھی اور نہ ہی وہ کسی مختلف طریقے سے صدر ٹرمپ کی تقریر اور پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی پر اظہار خیال کرنے کے قابل تھا۔ کیا یہ مان لیا جائے کہ قومی اسمبلی میں عوام کی حاکمیت کی دعویدار سب سیاسی جماعتیں دراصل امریکہ کو نہیں فوج کو یہ پیغام دینا چاہتی تھیں کہ وہ خارجہ اور قومی سلامتی کے امور پر فوج کے موقف سے سرمو اختلاف کرنے کا نہ تو حوصلہ رکھتی ہیں اور نہ ایسا کرنا چاہتی ہیں۔ کیوں کہ وہ بہرحال اپنی اپنی سیاسی زندگی کے لئے فوج کی ”سرپرستی“ کو ضروری سمجھتی ہیں۔
دوسری طرف وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف جو ماضی میں پنجوں کے بل کھڑے ہو کر فوج پر تنقید کرنے کی شہرت رکھتے ہیں، اب نواز شریف کی نااہلی کے بعد دست بستہ فوج کو یہ عرضی بھیجنا چاہتے تھے کہ ان کی پارٹی ہی دراصل فوج کی سب سے زیادہ وفادار اور تابعدار ہے۔ اس لئے 2018 کے انتخابات میں فوج کو کسی دوسرے مدمقابل کو تلاش کرنے اور مسلم لیگ (ن) کو نظرانداز کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ کی دھمکیوں اور لب و لہجہ نے درحقیقت حکومت کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ بظاہر ٹرمپ کے سامنے ڈٹ جانے کا عذر تراشتے ہوئے فوج کے ساتھ تنازعات حل کرنے کی کوشش کر سکے۔ اس طرح بعض حلقوں میں ابھرنے والے اس تاثر کو بھی زائل کیا جا سکے گا کہ شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں جو لوگ شامل کئے گئے ہیں، وہ دراصل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکر لینے کی پالیسی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا ثبوت دینے کے لئے نواز شریف کی غصیلی اور جارحانہ تقریروں کا حوالہ دیا جاتا ہے، جن میں وہ دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اس ملک میں صرف میں ہی نہیں، کسی بھی وزیراعظم کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے وہ صرف سپریم کورٹ کے بنچ اور اس کے فیصلہ کو ہدف تنقید نہیں بنا رہے تھے۔ اب حکومت نے امریکہ مخالف قرارداد کے ذریعے فوج کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ تصادم اور ٹکراﺅ کی افواہیں دشمن کی پھیلائی ہوئی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت داخلی یا خارجی امور میں فوج کی رہنمائی کو نظرانداز کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
امریکی صدر کے لب و لہجہ اور امریکی حکومت کی پالیسیوں کو ضرور مسترد کیاجائے لیکن اس کی مذمت کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جائے کہ امریکہ کیوں برس ہا برس سے پاکستان پر دوغلی حکمت عملی اختیار کرنے کا الزام لگاتا ہے۔ اگر افغان طالبان سے کسی سطح پر تعلق استوار رکھنا ہی پاکستان کے مفادات میں ہے تو برملا اس کا اظہار کیا جائے اور کھل کر اسے قومی پالیسی کا حصہ بنایا جائے۔ فوج کے بعد کابینہ اور قومی سیکورٹی کمیٹی اور اب قومی اسمبلی نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ امریکی صدر کے بیان پر ردعمل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ حالانکہ دنیا کی واحد سپرپاور کے طاقتور صدر کی باتوں کی روشنی میں پاکستان کو اپنی پالیسی اور حکمت عملی واضح کرنے کی ضرورت تھی۔ قومی اسمبلی کی قرارداد میں حسب معمول پاکستانی فوج کی قربانیوں، کشمیر میں بھارتی استبداد اور افغانستان میں پاکستان دشمن گروہوں کی موجودگی کے الزامات کو دہرایا گیا ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے صرف ایک اشتعال انگیز بیان کی مذمت نہیں کی گئی بلکہ یہ واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کی پالیسی میں کوئی کمی نہیں ہے اور امریکہ اس کے کردار کے بارے میں جھوٹ بول رہا ہے۔ حالانکہ کوئی بھی ذی شعور یہ بتا سکتا ہے کہ اگر امریکہ نے غلطی یا زیادتی کی ہے تو پاکستان کی طرف سے بھی غلطیوں کا ارتکاب ہوا ہے۔
یوں بھی امریکہ کےساتھ معاملات طے کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کرنا کہ وہ بھارت کے ساتھ کیوں پینگیں بڑھا رہا ہے، پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسے میں تو یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ جب پوری دنیا بھارت کے ساتھ تعاون اور دوستی کے راستے پر گامزن ہے تو پاکستان ہی کیوں اپنے قریب ترین ہمسایہ کو دشمن قرار دینے پر اصرار کرتا ہے۔ آخر اس دشمنی کو ختم یا کم کرنے کی ہر کوشش کیوں ناکام ہو رہی ہے۔ پاکستان کی پالیسی کے وہ کون سے خفیہ پہلو ہیں جن کی وجہ سے ہر معاملہ کی تان بالآخر کشمیر پر آ کر ٹوٹتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان، افغانستان کے معاملہ کو کشمیر اور بھارت سے علیحدہ کرکے دیکھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔
امریکہ ایک بڑا ملک ہے۔ اس کے ساتھ تعلقات بحال رکھنا پاکستان ہی نہیں ان سب ملکوں کی بھی مجبوری ہے جن کی حمایت کے سہارے اب پاکستان کے پالیسی ساز امریکہ کے ساتھ ٹکر لینے کا طرز عمل اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کی زیادتی کا جواب صرف زمینی صورت حال کو تبدیل کرکے دیا جا سکتا ہے۔ اگر پاکستان ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو امریکہ سے دشمنی عالمی سطح پر اس کی بھیانک تنہائی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
(بشکریہ:کاروان۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ