سمرا پبلک سکول حسن پروانہ روڈ پر میر حسان الحیدری نے 6؍اپریل 1962ء کو ایک اجلاس کا اہتمام کیا جس میں ڈیرہ غازی خان، بہاولپور اور ملتان ڈویژن کے تقریباً تمام قابل ذکر ادیبوں اور شاعروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ مَیں اور اقبال ارشد بھی اس میں موجود تھے۔ میر صاحب نے اس اجلاس میں یہ تجویز پیش کی کہ جو مقامی زبان ملتان، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور کے علاقے میں بولی جاتی ہے اسے کہیں ڈیرے والی زبان کہا جاتا ہے، کہیں ریاستی یا بہاولپوری اور کہیں ملتانی جبکہ یہ معمولی سے فرق کے ساتھ ایک ہی زبان ہے۔ اگر اسے ایک مشترکہ مرکزی نام دے دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس پر سب نے کہا جو بولے وہ کنڈا کھولے۔ یعنی آپ نے یہ تجویز پیش کی ہے تو نام بھی آپ ہی تجویز کریں۔ جواباً انہوں نے اس کے لیے ایک نام دیا ۔۔۔سرائیکی۔۔۔
سب لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ یہ سرائیکی کیا ہے؟ جب دوبارہ میر صاحب سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے وضاحت کی کہ ہمارے سندھ میں پہلے سے اس زبان کے لیے یہ نام موجود ہے۔ شمالی سندھ میں اسے سرائیکی کہتے ہیں اور کا مطلب بھی یہی ہے کہ سرا یعنی شمال کی زبان۔ بس پھر کیا تھا سب نے تالیوں سے اس نئے نام کا استقبال کیا۔ اب وہ دن اور آج کا دن اس زبان کے لیے سرائیکی ہی کا نام رائج ہے۔ گویا اس زبان کے نئے نام کے ہم چشم دید گواہ ٹھہرے
کتاب : شام و سحر ِ۔۔ مصنف حسین سحر ( صفحہ 71 )