یہ بات mاتنی پرانی بھی نہیں ہے لیکن 2017ءمیں جب گزرے ہوئے لمحات کو سوچتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے یہ بات بہت پرانی ہو گئی ہے۔ وہ جو احمد فراز نے کہا تھا
ع…. یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
تو وہ بات جشنِ آزادی کے حوالے سے ہے۔ جب میرے تینوں بچے سکول میں پڑھتے تھے اگست شروع ہونے سے پہلے ہی جب گلی محلوں میں سبز پرچموں کی بہار دکھائی دینے لگتی تو جاذب اور ثقلین ضد کر کے یکم اگست کو گھر میں پرچم لہرا دیتے۔ جیسے جیسے یہ دونوں بڑے ہوتے گئے ان کے جشنِ آزادی منانے کے جوش میں اضافہ ہوتا گیا۔ میرے گھر میں جشنِ آزادی کا آغاز یکم اگست کو پرچم لہرانے سے ہوا تو پھر یہ دونوں اپنی بہن کو ساتھ ملا کر جشن کو اس کے شایانِ شان منانے کے منصوبے ترتیب دینے لگے۔ جھنڈا تو پہلے ایک آتا تھا اب تینوں بچے اپنے الگ الگ جھنڈے خریدنے لگے۔ ایک سے تین جھنڈوں کے بعد مجھے یہ بھی فرمائش کی جاتی کہ 14 اگست سے پہلے گھر کو جھنڈیوں سے سجایا جائے۔ عنیزہ بیٹی ان دونوں سے دو ہاتھ آگے نکلی اور ایک سال اُس نے اپنی ماں سے ضد کر کے پاکستان کے پرچم والا لباس بنوا لیا۔ بازار سے سفید اور سبز رنگ کی چوڑیاں خرید لائی یعنی جو وہ تیاری عیدالفطر اور عیدالاضحی پر کیا کرتی تھی اب وہی تیاری عیدِ آزادی پر کرنے لگی۔ جس سال اس نے پہلی مرتبہ پاکستان کے پرچم والا لباس اور چوڑیاں پہنیں تو اس سال اس نے مجھ سے عیدِ آزادی کے موقع پر عیدی بھی طلب کی۔ دوسری جانب جاذب اور ثقلین اپنے ماموں کے ساتھ جا کر بازار سے قومی ترانوں کی آڈیو کیسٹ لے آتے اور 10 اگست سے لے کر 14 اگست تک وہ مسلسل ملی نغمے ہی سنتے رہتے۔
وقت تبدیل ہوتا گیا۔ اس تبدیلی نے میرے بچوں کی وطن سے محبت کے جذبے کو تبدیل نہ کیا۔ اب ہر سال وہ بیجز، کیپس، جھنڈیاں،لائٹنگ، جھنڈے اور پتہ نہیں کیا کچھ گھر میں جمع کرتے اور 14 اگست تک میرے بچوں کو بس ایک ہی دھن ہوتی جشنِ آزادی منانا ہے۔ پورے پاکستان کی طرح ملتان بھی دلہن کی طرح اگست میں سجایا جاتا ہے۔ مَیں 14 اگست کی بجائے 13 اگست کی رات کو تینوں بچوں کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر پورے شہر کی سیر کراتا۔ چوک گھنٹہ گھر سجا ہوا دیکھ کر یہ تینوں بے ساختہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے۔ چونکہ موبائل کا زمانہ نہیں تھا اس لیے نہ کوئی سیلفی نہ کوئی تصویر۔ مَیں تینوں بچوں کو چوک گھنٹہ گھر سے چوک کچہری، فلائی اوور، سٹیٹ بینک، ریلوے اسٹیشن، کینٹ بازار اور دیگر جگہوں کی سیر کراتا ہوا رات گئے گھر آتا تو یہ تینوں بچے عیدِ آزادی کی چاند رات مناتے۔ پاکستان ٹیلیویژن پر شو دیکھتے اور خوش ہوتے۔ 14 اگست کی صبح مَیں حسبِ معمول ضلعی حکومت یا میونسپل کارپوریشن کے زیرِ اہتمام پرچم کشائی کی تقریب کی نظامت کے لیے روانہ ہو جاتا۔ دوپہر کو جب واپسی ہوتی تو یہ تینوں بچے گھر کے تمام کزنز کو اکٹھا کر کے جشنِ آزادی منا رہے ہوتے۔ شام ہوتے ہی گھر کی تمام بتیاں روشن کر کے اس کو چراغاں کا نام دیتے۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے اور یوں 14 اگست کی رات کو تھک ہار کے سو جاتے۔
قارئین کرام یہ تمام باتیں اور منظرنامے 15، 20 برس پرانے ہیں۔ بچے بڑے ہوتے گئے۔ جاذب بیٹا F.Sc کے بعد انجینئرنگ کے لیے اسلام آباد چلا گیا۔ عنیزہ بی ایس ہوم اکنامکس میں مصروف ہو گئی جبکہ سب سے چھوٹا بیٹا ثقلین چھوٹا ہی رہا اور ہر سال وہ ان دونوں کی تعلیمی مصروفیت کے باوجود اگست کے مہینے گھر کو سجاتا رہا۔ وقت گزرتا رہا اور اگست آنے پر میری مصروفیت بڑھتی گئی۔ ایف۔ایم ریڈیو، ٹیلیویژن کے پروگرام، جشنِ آزادی کے حوالے سے تقریبات اور مشاعروں کی مصروفیت۔ یہ سب کچھ اب بھی جاری و ساری ہے۔ تصویر کا ایک اور منظر بھی ملاحظہ فرمائیں۔ چار برس قبل بیٹی اپنے گھر کو سدھار گئی اور اب تقریباً ڈیڑھ سال سے اوپر ہو گیا ہے وہ جرمنی میں حمزہ حسن کے ساتھ رہ رہی ہے۔ جاذب انجینئرنگ کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے گزشتہ تین برسوں سے جرمنی میں مقیم ہے۔ جب وہ پہلی مرتبہ جرمنی گیا تو اس کو آخن یونیورسٹی میں پاکستانی کمیونٹی کے طلبا نے کہا کہ اگرچہ آپ ستمبر میں جرمنی آ رہے ہو ہم نے اس سال جشنِ آزادی کی مرکزی تقریب ستمبر میں رکھی ہے کیونکہ اگست میں انجیئنرنگ یونیورسٹی آخن میں امتحان ہو رہے ہیں۔ آپ پاکستان سے آتے ہوئے ڈیڑھ سو سے زیادہ پاکستانی پرچم کے بیجز اور ایک بڑا پرچم لے کر آئیے گا۔ جاذب کو جب یہ پیغام ملا تو اس وقت تک ملتان کی مارکیٹ سے قومی پرچم تو مل گیا لیکن اچھے بیجز نہ ملے۔ مَیں نے لاہور میں اپنے ایک دوست کے ذمے لگایا تو اس نے بڑی مشکلوں سے 150 بیجز لے کر بھجوا دیئے۔ جاذب کے جرمنی جاتے ہی اس کے سینئر یونیورسٹی فیلوز نے جشنِ آزادی کی تقریب منائی اور تب سے لے کر اب تک مجھے جاذب نے کبھی نہیں بتایا کہ جرمنی کی یونیورسٹی میں ہم جشنِ آزادی بھی مناتے ہیں۔ عنیزہ بیٹی کو گھر داری سے فرصت نہیں۔ تو ایسے میں اس کے گھر میں بھی جشنِ آزادی ٹیلیویژن کے پرگراموں کے ذریعے ہی آیا۔
اب مَیں آپ کو اس سال اپنے گھر کے جشنِ آزادی کے متعلق بتانا چاہتا ہوں۔ میری کالونی میں نامور تاجر رہنما خواجہ محمد شفیق بھی رہتے ہیں۔ انہوں نے اگست کے آغاز میں فون کر کے حکم دیا کہ مَیں نے کالونی کو سجانے کا پروگرام بنایا ہے۔ کالونی کی بیرونی دیوار پر آرائشی لائٹنگ آویزاں کر دی جائیں گی۔ میری خواہش ہے کہ کالونی کے ہر گھر پر پاکستان کا پرچم لہرایا جائے۔ شاید اس طریقے سے ہم وطن سے محبت کا کچھ قرض اتار سکیں۔ مَیں نے خواجہ شفیق صاحب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ثقلین بیٹے سے کہا کہ وہ ایک بڑا قومی پرچم لائے جس کو مَیں اپنے گھر میں لہرانا چاہتا تھا۔ جیسے جیسے 14 اگست قریب آتا گیا مَیں نے دیکھا کالونی کے ہر گھر میں پرچم لہرا رہا ہے۔ البتہ جن گھروں میں چھوٹے بچے رہتے ہیں انہوں نے جھنڈیوں اور دیگر آرائشی سامان سے اپنے گھروں کو سجایا۔ مَیں نے ایک دو مرتبہ ثقلین بیٹے سے کہا کہ وہ پرچم لے آئے اور آخرکار وہ ایک پرچم لے کر آ ہی گیا۔ وہ پرچم کار پر لگانے والا تھا۔ مَیں نے کہا مجھے گھر پر لہرانے والا پرچم چاہیے۔ کہنے لگا پرچم تو مَیں لے آتا لیکن 14 اگست کے بعد ہم پرچم کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ وہ پرچم آہستہ آہستہ پھٹنا شروع ہو جاتا ہے اور چند ہفتوں بعد اس کے حصے سڑکوں پر پڑے ہوتے ہیں۔ پاپا جان مجھ سے قومی پرچم کی یہ تذلیل نہیں دیکھی جاتی۔ مَیں نے کہا تم پرچم لہراؤ 15 اگست کو پرچم خود اُتار کے محفوظ کر لوں گا۔ اس نے مجھے انکار نہیں کیا اور پھر وہ پرچم نہ لے کر آیا۔ البتہ جو گاڑی پر لگانے والا پرچم لایا اپنی مصروفیت کی وجہ سے اسے بھی گاڑی کا حصہ نہ بنا سکا۔ مَیں بھی ضلعی حکومت کی جشنِ آزادی کی تقریبات میں ایسا مصروف ہوا کہ صبح سویرے جاتا اور رات گئے واپس آتا۔ انہی تقریبات میں 14 اگست گزر گیا نہ میرے گھر قومی پرچم لہرایا گیا نہ گاڑی پہ ثقلین نے پرچم سجایا۔ 15 اگست کی صبح جب اٹھا تو مَیں نے اپنے گھر کو ایک مرتبہ پھر دیکھا کہ شاید ثقلین نے 14 اگست کو پرچم لہرا ہی دیا ہو لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ جن گھروں میں بچے چھوٹے ہوتے ہیں وہاں آج بھی پرچم لہرایا جاتا ہے۔ پاکستانی پرچم کے رنگوں سے لباس سلوائے جاتے ہیں۔ گھروں میں جھنڈیاں اور قومی گیت چل رہے ہوتے ہیں۔ میرے بچے بڑے ہو کر اپنے کاموں میں اتنے مصروف ہو گئے کہ انہیں جشنِ آزادی منانا یاد نہیں رہا۔ میرا گھر جشنِ آزادی میں بھی سجایا نہیں گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے بچے بڑے ہوگئے۔ اور اب مَیں اس اُمید میں ہوں کہ میرے بچوں کے بچے ہوں اور وہ ایک مرتبہ پھر میرے گھر کو اگست میں سجائیں۔ یوں میرا گھر ایک مرتبہ پھر جشنِ آزادی کا حصہ بن جائے۔
(بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ