تجزیےعمار غضنفرلکھاری
مہاجر قومیت اور مہاجروں کی سیاست ۔۔ عمار غضنفر

نوعِ انسانی کی تاریخ مسلسل ہجرت کی داستانوں سے مالا مال ہے۔ مختلف انسانی گروہوں کو بدلتے حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی جائے سکونت کو خیرباد کہہ کر اجنبی زمینوں کی جانب ہجرت کرنا پڑتی ہے ۔ کبھی موسمی تبدیلیاں اس کا سبب بنیں تو کبھی قحط سالی اور خوراک کی قلت ، کبھی اپنی جان کا خوف اور پرامن جائے سکونت کی تلاش تو کبھی معاشی ترقی کی خواہش یا پھر ابتر سیاسی حالات۔ وجہ چاہے جو بھی رہی ہو مگرکوئی خاندان یا نسلی گروہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ آج جو وطن، شہر یا خطہءزمین اس کا مسکن ہے، اس کے اجداد نسلِ انسانی کے آغاز سے یہیں کے مکین رہے ہیں۔ ہم اگر اپنے برِصغیر پاک و ہند میں مختلف نسلوں کی آبادکاری کی تاریخ ہی پر نظر دوڑائیں تو اجنبی سرزمینوں سے آکر آباد ہونے والے گروہ کے گروہ نظر آتے ہیں,،چاہے وہ بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ آ کر یہاں آباد ہو جانے والی قومیں ہوں یا پھر نقل مکانی کر کے آنے والے قبائل ۔کول، بھیل اور دراوڑ نسل کے سیاہ رنگت، پستہ قامت اور چپٹی ناکوں والے قبائل یہاں زمانہ ما قبل از تاریخ کے دور سے آباد تھے۔ پھر یہاں بلند قامت ،سنہری بالوں ، سرخ و سپید رنگت اور اونچی ناکوں والے آریاء حملہ آوروں کے گروہ مختلف ادوار میں آتے رہے اور مقامی باشندوں کو شکست دے کر یہاں کے حکمران بن بیٹھے۔ اس کے بعد یہاں یونانی طالع آزما،سیتھی قبائل، ساکا قبائل اور ہن حملہ آور تاریخ کے مختلف ادوارمیں داخل ہوتے رہے۔ ہمیشہ نیا آنے والا گروہ یہاں پہلے سے آباد گروہوں کے لیے اجنبی تھا، مگر یہاں سکونت اختیار کر لینے کے بعد انہوں نے یہاں کے مقامی قبائل میں شادیاں کیں اور ان میں ضم ہوتے چلے گئے۔
اسی طرح جب ظہورِ اسلام کے بعد عرب حملہ آور اس دھرتی پر آئے تو وہ یہاں کے باشندوں کے لیے غیرملکی تھے، اور اب مقامی باشندے کہلانے والوں نے ان غیر ملکی عربوں کا مل کر ایسے ہی مقابلہ کیا جیسے شائد ان سے پہلے یہاں آن بسنے والوں نے ان کے اجداد کی اس سرزمین میں آمد کے وقت انہیں اجنبی جان کر کیا ہو گا۔ اسی طرح آنے والے وقتوں میں ترکی، ایران اور افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں کی اولادیں یہاں بستی چلی گئیں اور ایک مشترکہ ثقافت ترتیب پاتی چلی گئی۔
قیام پاکستان یا تقسیمِ ہند کے بعد ہندو اکثریتی علاقوں میں مقیم مسلم آبادی کی ایک بڑی تعداد نے نوزائیدہ مملکت کی جانب ہجرت کی اور بدلے حالت کے سبب اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک نئی سرزمین پر آ کر نئے سرے سے آبادکاری پر مجبور ہو گئے۔ ان مہاجرین کی بڑی تعداد مشرقی پنجاب,، ہریانہ ، راجستھان ، یو.پی اور بہار کے علاقوں سے نکل مکانی کر کے آنے والے افراد پر مشتعمل تھی.
مشرقی پنجاب سے آنے والے مہاجرین کے لیے نئے ملک میں اصل مسئلہ دوبارہ سے معاشی استحکام حاصل کرنا تھا۔ وہ شناخت کے بحران کا شکار نہ تھے کیونکہ پنجاب کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں شامل تھا جہاں کی ثقافت، رسم ورواج اور بولی کم و بیش وہی تھی جو ان کے وطنِ مالوف کی تھی ۔ اس پر مستزاد یہ کہ پاکستانی پنجاب میں حکومتِ برطانیہ کے آباد کردہ باروں کےعلاقے اور لائل پور اور منٹگمری کے شہر بھی شامل تھے جہاں پر یوں بھی زیادہ تعداد آبادکاروں کی تھی جنہیں ان علاقوں میں آ کر بسے ایک یا دو نسلیں ہی گزری تھیں۔ سو مشرقی پنجاب سے آنے والے مہاجرین نے خود کو یہاں اجنبی محسوس نہ کیا اور مقامی آبادی میں گھل مل گئے۔ ہریانہ اور راجستھان کے مہاجرین کی ایک تو تعداد اتنی کثیر نہ تھی۔ اور دوسرے ان کے لیے یہاں بہتر معاشی مواقع موجود تھے. ان میں سے اکثریت گروہوں کی شکل میں مخصوص علاقوں میں آباد ہوئی اور اپنی بولی اور ثقافت کو سینے سے لگائے رکھنے کے باوجود یہاں کی مقامی آبادی میں گھل مل گئی۔
مسئلہ یو.پی کے اردو بولنے والے علاقوں سے آنے والے مہاجرین کی کثیر تعداد کا تھا۔ ان لوگوں کی بنیادی آبادکاری تو کراچی شہر میں کی گئی، مگر اس کے علاوہ سندھ کے دیگر اضلاع خصوصاً حیدرآباد اور سکھر میں بھی ان کی ایک کثیر تعداد آباد ہوئی. اس کے علاوہ یہ لوگ نسبتاً کم تعداد میں پاکستان کے دیگر علاقہ جات میں بھی آن بسے۔
ان اردو بولنے والے مہاجرین کی پاکستان میں آبادکاری کے ساتھ کچھ ایسے سوال جڑے ہوئے تھے کہ جن کی سنگینی کا ادراک اس وقت کے اربابِ اختیار کو نہ تھا. ویسے بھی ہجرت یا نکل مکانی کے اس پورے عمل کے لیے کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہ کی گئی تھی۔
پہلا المیہ تو ان مہاجرین کا یہ تھا کہ مشرقی پنجاب سے آنے والے مہاجرین کے برعکس ان کے لیے اس نئی سرزمین پر کوئی خطہ ایسا نہ تھا جہاں کے رہنے والوں کا رہن سہن، زبان اور تہذیب و ثقافت ان کے لیے آشنا ہو۔ ایک تو ان مہاجرین میں شرحِ خواندگی دیگرعلاقوں کے افراد کی نسبت زیادہ تھی، دوسرا یہ کہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا مرکز ان کا آبائی علاقہ رہا تھا اور نوزائیدہ مملکت کے اربابِ اختیار جو کہ مسلم لیگ کی چوٹی کی قیادت میں سے تھے، انہی کے علاقے سے تعلق رکھتے تھے.۔شرح خواندگی زیادہ ہونے اور دفتری ملازمتوں کی جانب زیادہ جھکاءو کے باعث بیوروکریسی کی اکثریت بھی اترپردیش کے اردو بولنے والے علاقوں سے تعلق رکھتی تھی۔ پنجاب میں سکندر جناح پیکٹ سے قبل مسلم لیگ کوئی قابلِ ذکر پوزیشن نہیں رکھتی تھی۔ یہاں کی سب سے با اثر جماعت یونینسٹ پارٹی تھی جو درحقیقت مقامی زمینداروں کی نمائندہ جماعت تھی اور تقسیم ہند کی مخالف ۔ جب اس کے لیڈروں کو پاکستان کا قیام ناگزیر نظر آنے لگا تو سر سکندر نے جو کہ یونینسٹ پارٹی کے صدر تھے۔ قائدِ اعظم سے معاہدہ کر کے اپنی جماعت کو مسلم لیگ میں ضم کردیا اور پنجاب میں مسلم لیگ کے کرتا دھرتا بن بیٹھے۔
سو ایک جانب تو تحریکِ پاکستان کے مرکز سے تعلق رکھنے کا زعم, اور اپنے تعلیم یافتہ اور شائستہ ہونے کا گھمنڈ اور دوسری جانب ہزارہا سالہ کنگا جمنی تہذیب کا وارث ہونے کا احساس۔ یہ سب وہ عوامل تھے کہ جن کے باعث یہ مہاجرین اس نئے خطے کے باشندوں کی ثقافت کو اپنانے سے گریزاں رہے اور خود کو اس نئی مملکت میں اجنبی محسوس کرنے لگے۔
ان مہاجرین کی اکثریت صوبہءسندھ میں آباد ہوئی۔ سندھ کی دھرتی خود بھی ہزارہا برس قدیم تہذیب کی امین تھی۔ سندھ کی مقامی آبادی یہ توقع رکھتی تھی کہ ہجرت کے کے آ بسنے والے ان کی زبان ، ثقافت اور رسم و رواج کو اپنا لیں گے جبکہ دوسری جانب یہاں آنے والے مہاجرین اپنی انفرادیت کے احساس کو تج دینے کو تیار نہ تھے۔ وقت کے ساتھ سوچ کا یہ فرق دونوں فریقین کے درمیان پیدا ہو جانے والی خلیج کو وسیع کرتا چلا گیا. ایک.وقت آ یا کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا زور توڑنے اور جماعت اسلامی کے ووٹ بنک کو تقسیم کرنے کے لیے ہماری اسٹیبلشمنٹ نے مہاجر کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور مہاجروں کے حقوق کی جدوجہد کے بام پر ایم.کیو.ایم کا قیام عمل میں آیا ۔ مہاجر سیاست کا یہ جن بوتل سے باہر آیا تو اس کے تخلیق کاروں کے قابو سے بھی باہر نکلتا چلا گیا. کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا خون میں نہانے لگا.
آج پھر کراچی میں مہاجروں کی سیاست کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پہلے ایم.کیو.ایم کی طاقت کو کم کرنے کے لیے اس کے ٹکڑے کیے گئے اور اب پیپلزپارٹی کی سندھ میں طاقت سے خائف ہو کر ایم.کیو.ایم کے ان حصوں کو آئیندہ الیکشن میں متحد کر کے میدان میں لانے کی کوششیں جاری ہیں۔ طاقت اور اختیار کی اس جنگ میں اصل نقصان کراچی کے عام شہریوں کا ہو رہا ہے. گزشتہ ادوار میں کی گئی جماقتوں سے سبق سیکھ کر اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے کی بجائے کراچی کی سیاست کو اپنے ڈھب سے چلانے کی کوشش یقیناً کراچی شہر کے مسائل کے حل کی بجائے مزید پیچیدگیوں کا سبب بنے گی.