ایک بین الاقوامی ادارے کا نام ہے ،آئی ایم ایف۔ یعنی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ۔ سلیس اردو میں اس ادارے کو آپ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ کہہ سکتے ہیں۔ یہ ادارہ غریب اور نادار ممالک کی مالیاتی دیکھ بھال اور امداد کرتا ہے ۔دنیا کے سخی بابا ممالک اس ادارے کو چلاتے ہیں۔ ہمارے دیرینہ دشمن ممالک اس ادارے کو چلانے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہیں ہم اس ادارے سے مالی معاونت اور امداد لینے والے ممالک میں شامل ہیں۔ مگر آپ گھبرائیں مت۔ اگر کپتان لاجواب ہو تو پھر کھڑوس سے کھڑوس ٹیم بھی غیر معمولی کارنامے کر کے دکھا سکتی ہے۔ آپ دیکھ لیجئے گا۔ عنقریب ہم آئی ایم ایف کو چلانے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہونگے۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سر فہرست ہونگے ۔یہ وقت وقت کی بات ہے۔ سردست ہم آئی ایم ایف سے مالی معاونت اور امداد لینے والے ممالک کی فہرست میں نمایاں نمبر پر موجودہیں۔ ہم غیر معمولی کارنامے تب سر انجام دے سکتے ہیں جب ہم پھنے خان بننا چھوڑ دیں۔
آئی ایم ایف سے ملنے والی معاونت اور امداد کڑی تنقید سے نتھی ہوتی ہے۔اگر آپ کو لفظ نتھی اچھا نہیں لگتا تو پھر نتھی کی جگہ آپ لفظ مشروط استعمال کر سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ماہرین امداد اور مالی معاونت لینے والے ممالک کی آمدنی اور اخراجات پر لگاتار نظر رکھتے ہیں۔ ہمارے آنے اور جانے والے حکمران سینہ تان کر بتاتے رہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہیں۔ ہمارےپاس سونے ،چاندی ،پیتل، اور تانبے کے لا محدود ذخائر ہیں۔ گندم ،چاول، کپاس ،پھل ،سبزیوں اور ہر نوعیت کی زرعی پیداوار میں ہم خود کفیل ہیں، بلکہ وافر پیداوار کے دھنی ہیں۔ ہم بھوکے، مفلس، اور نادار ممالک کو کھانے پینے کی اشیا بھیجتے رہتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ماہرین اپنے بال نوچتے رہتے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ قدرتی ذخائر سے مالا مال ملک مالی خسارے میں کیوں رہتا ہے ؟ ماہرین کو یقین ہے کہ پاکستان میں کہیں نہ کہیں شاہ خرچیاں ہو رہی ہیں۔ یا پھر بااثر بادشاہوں کے ہاتھ خزانوں کی کنجیاں لگ گئی ہیں ! آئی ایم ایف کے ماہرین کو شک تھا کہ ہمارے حکمران مراعات کے نام پر دولت کے انبار اپنے آپ پر لٹا رہے ہیں۔ مگر کھوجیوں نے ان کے شبہات دور کر دیے ہیں۔ ہمارے صدر مملکت، وزیر اعظم، وزرا، مشیروں کے ٹولے ،ایم این ایز ، ایم پی ایز، اور سینیٹر اعلیٰ نسل کی گاڑیوں کی قطار نہیں رکھتے۔ محل نما کوٹھیوں میں نہیں رہتے۔ ہوائی جہازوں کو کتھا چونا خریدنے نہیں بھیجتے۔ اور یہ ہمارے اگلے پچھلے حاکموں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے وارثوں اور ولی عہدوں کی شادی بیاہ پر اربوں روپے پانی کی طرح بہا دیتے ہیں، قطعی غلط الزام ہے۔ اعلیٰ افسران کی بہتات اور ان کے رہن سہن، علاج معالجہ ،دنیا بھر کے دوروں پر اٹھنے والے اربوں روپوں کے قصے مفروضے ہیں۔ ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
پاکستان میں افسران نہایت سادگی سے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ اگلے پچھلے حکمران بھی سادگی سے اپنے ولی عہدوں کی شادی بیاہ کی رسمیں پوری کرتےہیں۔ آئی ایم ایف کے ماہرین اقتصادیات حیران ہیں کہ قدرتی خزانوں سے مالا مال ملک کا پیسہ کہاں جاتا ہے؟ کہاں خرچ ہوتا ہے ؟ ا س ملک کا انحصار امدادوں اور قرضوں پر کیوں ہے ؟بڑی کھوج کے بعد آئی ایم ایف کو پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں پنشن لینے والے بڈھوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ چھان بین کے بعد پتا چلا کہ پنشن لینے والے بڈھوں نے آسانی سے مرنا چھوڑدیا ہے۔ ماضی میں ریٹائر ہونے والے پنشنر دو چار برس زندہ رہتے تھے اور پھر چپکے سے کوچ کر جاتے تھے۔ یعنی اللہ سائیں کو پیارے ہو جاتے تھے۔ تب مشکل سے پینسٹھ برس کے بڈھے چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔ زیادہ تر بڈھے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق مسجدوں، مندروں، کلیساؤں میں عبادت کرتےہوئے نظر آتے تھے۔آئی ایم ایف کے کھوجیوں کو پتہ چلا کہ آج کل کے بڈھے پارکوں میں چہل قدمی اور جوگنگ کرتے ہیں۔ ہلکی پھلی ورزش بھی کرتے ہیں۔ٹیلی وژن پر کشتی اور باکسنگ کے پروگرام دیکھتے ہیں۔ یو ٹیوب پر اپنے جوانی والے دور کے دل پسند گانوں کی ویڈیو چلا کر دیکھتے ہیں۔ موبائل فون پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ صحت اور تندرستی سے متعلق ویب سائٹس کو سبسکرائب کرتے ہیں ۔ہدایات کے مطابق معالجوں سے رابطے میں رہتے۔وہ دن ہوا ہوئے جب ساٹھ برس کی عمر میں ریٹائر ہونے والے پنشنر پینسٹھ کی عمر تک پہنچنے سے پہلے اللہ سائیں کو پیارے ہو جاتے تھے۔آئی ایم ایف کے ماہرین نے پتہ چلا لیا ہےکہ ملک میں پنشنرز کی تعداد اس قدر بڑھ گئی ہے کہ بجٹ کا اسی فیصد بڈھے پنشنروں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ بجٹ کا باقی، دس فیصد ،دفاع، تعلیم ،صحت عامہ،زراعت ،نظم و ضبط، پر خرچ ہوتا ہے۔ مالی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی ایم ایف نےحکومت وقت پر شرط عائد کر دی ہے کہ بڈھے پنشنرز پر اٹھنے والے اخراجات ہر صورت میں ہر قیمت پر کم کر دیئے جائیں۔ بڈھوں کی تعداد گھٹانے کے لئے سختی سے منصوبہ بندی کی جائے۔ اس سلسلےمیں آئی ایم ایف کے ماہرین بغیرکسی معاوضے کے حکومت وقت کی مدد کریں گے۔ منصوبہ بندی کے تحت کس طرح بڈھے پنشنرز کی تعداد کم کی جائےگی؟ اڑتے اڑتے کچھ اس طرح کی خبریں ہم بڈھوں تک پہنچی ہیں جو میں آپ سے آنے والے منگل کے روز شیئر کروں گا۔ بڈھے پنشنر غیر معمولی چونکا دینے والے اقدام کے لئے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ اپنے ملک کو اقتصادی طور پر مستحکم کرنے اور پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے پنشنروں کی تعداد کم کرنا حکومت کیلئے لازمی ہوچکا ہے۔ ورنہ آئی ایم ایف ہماری مالی معاونت اور امداد سے ہاتھ کھینچ لے گا۔ ملک کو مالی بحران سے نکالنے کیلئے پنشنروں کو قربانی دینے کیلئے تیار رہنا پڑے گا۔ پنشنروں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ تعداد گھٹانے کیلئے پنشنروں کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا نہیں کیا جائے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ