پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے یوم دفاع پاکستان کے موقع پر ولولہ انگیز تقریر میں عوام اور فوج کے لازوال تعلق و رشتہ کی بات کی ہے اور کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے کمزور نہیں کرسکتی۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے عوام اور فوج مل کر ملک کو درپیش ہر چیلنج سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ البتہ تقریر کی لذت سے علیحدہ ہوکر دیکھا جائے تو آرمی چیف کے خوابوں میں بسائی دنیا کا نام و نشان دکھائی نہیں دیتا۔
پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہؤا ہے لیکن وہ اس عزم کو دہراتے ہوئے یہ تخصیص کرنے سے قاصر رہتے ہیں کہ کون ریاست کے خلاف جنگ آزما ہے اور کون صرف احتجاج کے ذریعے اس دکھ و کرب کو بیان کرنے کا موقع تلاش کرتا ہے، جس کی وجہ سے بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے وسیع علاقوں میں عوامی بے چینی اور بے قراری میں دن رات اضافہ ہورہا ہے۔ پاک فوج ان ہی دونوں صوبوں میں نام نہاد ’خوارج یا دہشت گردوں‘ کے خلاف نبرد آزما ہے اور کسی قیمت پر اس جنگ سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہیں ہے۔ ہر جنگی حکمت عملی میں عسکری کارروائی جاری رکھتے ہوئے ، مسلسل جائزہ لیا جاتا ہے کہ کیا زمینی حالات اس کاوش میں معاون ہوں گے یا فوج کو عوامی حمایت کے بغیر ہی کارروائی کرنا پڑے گی۔ ایسی صورت میں ہر دانشمند عسکری قائد لڑائی کے متبادل راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وسائل و صلاحیت ضائع نہ ہو۔
پاک فوج نے خیبر پختون خوا میں تحریک طالبان پاکستان کے لیے ’فتنہ خوارج‘ کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کی ہے۔ گویا اس گروہ کو اسلام کے دائرہ سے خارج کرکے انہیں ہر قیمت پر ہلاک کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ طریقہ یا ہتھکنڈا ملکی افواج سے برسرپیکار عناصر سے ہی مستعار لیا گیا ہے۔ ٹی ٹی پی ایک باغی گروہ ہے جس نے آئین پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ اسی لیے وہ فوجی ٹھکانوں پر حملے کرتے ہیں اور ملک پر نظام حکمرانی تبدیل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اس حکمت عملی میں وہ اپنے حامیوں یا جنگجوؤں کو باقی پاکستانیوں سے علیحدہ کرکے کسی بلند مقام پر فائز کرتے ہیں اور پھر انہیں افواج پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھاکر موت قبول کرنے کے لیے تیا رکیا جاتا ہے کیوں کہ ان کے خیال میں وہ ’حق‘ پر ہیں اور ان کی لڑائی کسی گمراہ فوج یا لوگوں کے ساتھ ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی یہ حکمت عملی درحقیقت باقی پاکستانیوں کو اسی طرح دائرہ اسلام سے خارج سمجھتی ہے جیسے پاک فوج اب ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو ’خوارج‘ قرار دے کر معتوب قرار دے رہی ہے۔ حالانکہ ایک جنگجو گروہ کے برعکس ریاست کا کام لوگوں کو خود سے الگ کرنا نہیں بلکہ اپنے ساتھ شامل کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے کوئی ملک یامعاشرہ مجرموں کو بھی ملک بدر کرنے کی بجائے انہیں سزا دے کر سدھرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ریاست کا بنیادی فریضہ اپنے تمام لوگوں کو ان کے تمام تنوع، ہر قسم کے رنگ و نسل یا عقیدہ و سیاسی نظریات سمیت قبول کیا جاتا ہے۔ قانون شکنی کرنے والے عناصر کی روک تھام کی جاتی ہے اور اس جد و جہد میں مسلح محاذ آرائی پر آمادہ ہونے والوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے واپسی کا راستہ کھلا رکھا جاتا ہے۔
اگر ریاست ہی کسی گروہ کو خوارج اور کسی کو دہشت قرار دے کر اپنے ہی لوگوں میں تفریق پیدا کرنے والے عناصر کی طرح ’تقسیم کرو پالیسی‘ اختیار کرے گی تو اسے کسی کامیابی کی نوید سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کو خوارج کا فتنہ کہنے کے علاوہ پاک فوج سرکاری طور سے بلوچستان میں علیحدگی کی جد و جہد کرنے والے عناصر کو ’دہشت گرد ‘ کہنے پر مصر ہے۔ اور اب انہی عناصر کی بیخ کنی تک چین سے نہ بیٹھے کا عزم دہرایا جارہا ہے۔ بلوچ قوم پرستوں کے لیے عام طور سے ’علیحدگی پسند جنگ جو‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی رہی ہے۔کسی بھی ملک سے علیحدگی کے لیے سیاسی کوشش کرنا ہرگز غیر قانونی نہیں ہوتالبتہ جو لوگ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے جنگ یا شورش برپا کریں ، ان سے نمٹنا ریاست اور اس کے اداروں پر لازم ہوتا ہے۔ تاہم ایسا کرتے ہوئے ریاست کو اپنا دل بڑا اور بازو کھلے رکھنےکی ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ جنگ پر اترے ہوئے عناصر اگر امن کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ ہوں تو انہیں واپس قبول کرلیا جائے۔ البتہ جب دہشت گرد جیسی اصطلاح سے پورے قوم پرست گروہ کو خود سے کاٹ کر پھینکا جائے گا تو یہ طریقہ کیسے قومی یک جہتی اور عوام و فوج کے بیچ رشتہ مضبوط کرنے کا سبب بن سکتا ہے؟
اس جد و جہد میں پاک فوج اس حقیقت کو بھی خاطر میں لانے پر آمادہ نہیں ہے کہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں جاری شورش اور عسکری چیلنج کوئی نیا وقوعہ نہیں ہے بلکہ یہ قضیہ دہائیوں پر محیط ہے۔ جنرل عاصم منیر پہلے آرمی چیف نہیں ہیں جو عسکری گروہوں کو نیست و نابود کرنے کا اعلان کررہے ہیں کیوں کہ ان سے پہلے اس عہدہ جلیلہ پر فائز رہنے والے تمام جرنیلوں نے بھی ایسے ہی عزم کا اظہار کیاتھا۔ البتہ دیکھا جاسکتا ہے کہ فوج ابھی تک اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئی۔ خالصتاً جنگی نقطہ نظر سے کیا دہائیوں پر پھیلی ان ناکامیوں کے بعد عسکری قیادت کو ملک کی سیاسی قیادت کے ساتھ مل بیٹھ کر اس ایک نکاتی ایجنڈے پر غور نہیں کرنا چاہئے کہ عسکری کوشش ناکام ہونے کے بعد کون سا سیاسی راستہ یا عوامی رابطہ مہم کا طریقہ اختیار کیاجائے؟ ملکی سیاسی قیادت سے تو کسی حوصلہ مندی یا سیاسی شعور پر استوار رویہ اختیار کرنے کی توقع عبث ہے لیکن جنرل عاصم منیر کو تو چالیس پچاس سال تک فوج کو ملک کے اندر برپا شرشوں میں اپنے فوجیوں کی قربانی دینے کے بعد کسی متبادل حکمت عملی پر کام کرنا چاہئے۔ لیکن آج یوم دفاع پاکستان کے موقع پر بھی پرانی ناکام حکمت عملی جاری رکھنے پر اصرار پاکستان کے مستقبل کے لیے کیسے خوش آئیند اور حوصلہ افزا ہوسکتا ہے؟
یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اب بھی بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں ایسی سیاسی قوتیں موجود ہیں جو آئین پاکستان کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق کی بات کرتی ہیں۔ ان میں بلوچستان یکجہتی کمیٹی کے علاوہ خیبر پختون خوا میں پشتون تحفظ موومنٹ شامل ہیں۔ یہ دونوں تحریکیں نئی ہیں اور ان کا کوئی سیاسی ماضی نہیں ہے اور نہ ہی ان پر کسی قانون شکنی کا الزام ہے۔ یہ دونوں گروہ نوجوان قیادت کے تحت نوجوان آبادی کو متحرک کررہے ہیں۔ یہ پر امن احتجاج کے ذریعے بعض ایسے بنیادی مسائل پر بات کرتے ہیں جن کے بارے میں عسکری قیادت کوئی رائے سننے پر آمادہ نہیں ہے۔ اسی لیے کسی جواز کے بغیر آئی ایس پی آر ان تحریکوں کو پاکستان دشمن اور جرائم پیشہ مافیاز کا آلہ کار قرار دے کر مسترد کرتا ہے۔ حالانکہ عوام کے ساتھ اتحاد کے جس بنیادی اصول کی بات کی جاتی ہے، اس میں کسی تحریک کے اکا دکا لیڈر کے اشتعال انگیز بیان کی بجائے، مجموعی صورت حال کا جائزہ لے کر ایسی سیاسی تحریکوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے اور انہیں ملکی سیاسی ماحول میں عزت و وقار دینے کی ضرورت ہے۔
خاص طور سے پاکستان اس وقت جس داخلی جنگ کے عفریت کا سامنا کررہا ہے، اس میں آئین اور پاکستان کی بنیاد پر بات کرنے والے کسی بھی گروہ کو گلے لگانا ریاست ، افواج پاکستان اور سیاسی حکومت کا اولین فرض ہونا چاہئے۔ یوں بھی شرپسندوں کے خلاف کارروائی میں جنرل عاصم منیر جس عوامی حمایت کی بات کرتے ہیں، وہ مقامی سیاسی و نمائیندہ گروہوں کی اہمیت و طاقت کو تسلیم کیے بغیر کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ یہ سب باتیں خلا میں کی جائیں اور مسائل پر غور کرنے سے انکار کیا جائے۔ مسائل کا تعلق اس دھرتی پر آباد شہریوں کی روزمرہ زندگی سے ہے۔ جو بھی ان مسائل کو اجاگر کرتا ہے، اسے غدار قرار دینے کی بجائے ملک دوست سمجھ کر اپنا خیر خواہ سمجھنا چاہئے۔ اگر دوستوں میں دشمن تلاش کرنے کی سرکاری پالیسی جاری رکھی جائے گی تو جنگجوؤں کو خوارج یا دہشت گرد قرار دینے سے جنگ جیتنے کا امکان روشن نہیں ہوگا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی اور پشتون تحفظ موومنٹ کا ایک مشترکہ اور اہم ترین مطالبہ لاپتہ افراد کے بارے میں ہے۔ ملکی عدالتیں اور تمام انسان دوست اس طریقہ کو غیر انسانی اور خلاف قانون قرار دیتے رہتے ہیں۔ دو سے تین دہائی تک اس غیر قانونی طریقے کو آزمانے کے بعد بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ حالات میں بہتری نہیں آسکی۔ اس لیے اب اس فرسودہ پالیسی کو ترک کرنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ آئی ایس پی آر کے دعوے کے مطابق کچھ لاپتہ افراد خود ’لاپتہ‘ ہوتے ہوں اور عسکری اداروں کا ان میں ہاتھ نہ ہو۔ لیکن جب تک عسکری ادارے قومی سلامتی کے غیر واضح تصور کی بنیاد پر لوگوں کو گھروں سے اٹھانے اور غیر قانونی طور سے عقوبت خانوں میں بند رکھنے اور ان پر تشدد کرنے کے ہتھکنڈے ترک کرنے کا باقاعدہ اعلان نہیں کرتے، بلوچستان اور کے پی کے میں اطمینان پیدا نہیں ہوگا۔ خوف کی اس فضا میں عوام ، فوج کو دوست نہیں سمجھ سکیں گے۔ ایسادعویٰ کرنے سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوسکتے۔
آج مسلح افواج نے یوم دفاع پاکستان منایا۔ اس سلسلہ میں تقاریب منعقد ہوئیں اور میڈیا میں خصوصی نشریات دیکھنے و سننے میں آئیں۔ یہ دن 6 ستمبر 1965 کی یاد میں منایا جاتا ہے جب ہندوستان کے حملہ کو ’پسپا‘ کرکے افواج پاکستان نے ملک کا کامیاب دفاع کیا تھا۔ اس جنگ میں فوجی جوانوں و افسروں کی شجاعت اور قربانی کی متعدد لازوال کہانیاں سنی اور سنائی جاتی ہیں ۔ البتہ جب ملک کے حالت پر نگاہ پڑے ، حالات کی بگڑی ہوئی تصویر دکھائی دے، مستقبل پر مایوسی کے بادل نظر آئیں تو اس موقع پر افواج پاکستان کے ساتھ اظہار یک جہتی کیسے کیا جائے۔ فوج جو ہر قیمت پر اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ جاری رکھناچاہتی ہے، دھیرے دھرے مفاہمت کے امکانات ختم کیے جارہے ہیں۔ ایسے میں دل دکھ سے بھاری ہوتا ہے۔ افسروں جوانوں کو سلام پیش کرنے کے باوجود ، ملک کے عوام کے لیے اس ادارے کے ساتھ اپنی شناخت قائم کرنا مشکل ہورہا ہے جس نے قومی سلامتی و سیاسی حکمت عملی کے ایک خود ساختہ تصور کے تحت ان دونوں شعبوں میں ملک کو کمزور کیا ہے۔
یوم دفاع کے موقع پر پاک فوج زندہ باد کہنا تو حب الوطنی کا تقاضہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اگر کچھ تلخ سوالات سر اٹھائیں تو جنرل عاصم منیر بتائیں کہ ’غدار‘ کی تہمت کے بغیر وہ سوالات نہایت ادب و احترام کے ساتھ کس کے گوش گزار کیے جائیں؟ 6ستمبر 1965 کو دشمن کے جس ’حملہ‘ سے دفاع کیا گیا تھا، پاکستانی قوم کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ اس کا آغاز خود پاکستان کی طرف سے کیا گیا تھا۔ پھر آج کا شہری ہی نہیں بلکہ شہیدوں کا لہو بھی سوال کرتا ہے کہ اس خوں ریزی سے کیاحاصل ہؤا؟ ملکی دفاع کےجس عظیم مقصد کے لیے ملک کے بیٹوں نے قربانیاں دی تھیں، کیا انہیں 16 دسمبر1971 کو خود پاکستانی فوج نے ہی سقوط ڈھاکہ کی دستاویز پردستخط کرکے ضائع نہیں کیا۔
ہم نے جنگ ستمبر کے سایے میں تین نسلیں جوان کی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ حقیقی معلومات کی بجائے پروپیگنڈے پر مبنی سلیبس ازبر کرنےکے باوجود یہ نسلیں ملک سے فرار ہو کر دنیا میں کہیں بھی کوئی گوشہ عافیت تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق سال رواں کے دوران سات لاکھ نوجوان ملک چھوڑ چکے ہیں۔ ملکی وقار ، حفاظت اور عوام کے ساتھ محبت کے دعوؤں کے باوجود ، ان مشکل سوالوں کے جواب کہاں تلاش کیے جائیں؟
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ