ناروے کی پارلیمنٹ ستورتنگ نے آج ملک کی حقیقی آبادی سامی اور دیگر چھوٹے اقلیتی گروہوں کے ساتھ ماضی میں برتے جانے والے ناروا سلوک پر معافی مانگی ہے۔ اسی دوران پاکستان کے صوبے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کا بی بی سی اردو کو دیا گیا انٹرویو بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے علاقائی حقوق کا مطالبہ کرنے والے گروہوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے اور طاقت کے زور پر پاکستان کی حفاظت کا تقاضہ کیاہے۔
ان دونوں خبروں میں واضح تضاد کے باوجود یہ مماثلت موجود ہے کہ ان میں ایک ملک کے اندر اقلیتی گروہوں کی زبان ، ثقافت و بنیادی سہولتوں کا معاملہ زیر بحث ہے۔ ناروے کے سامی اور دیگر اصل باشندے 1850 سے لے کر اس صدی میں ساٹھ کی دہائی کے دوران اپنے ساتھ برتے جانے والے جابرانہ سلوک پر احتجاج کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ناروے کی حکومت نے ان کی شناخت، زبان اور ثقافت کو مٹانے کی حکمت عملی کو سرکاری پالیسی کے طور پر اختیار کیا جو کسی بھی گروہ کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ اسی طرح کا مطالبہ بلوچستان کے قوم پرست گروہ بھی کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت نہ صرف بلوچ عوام کے ثقافتی حقوق سلب کررہی ہے بلکہ صوبے کے وسائل یہاں کے حقیقی باشندوں پر صرف نہیں کیے جاتے اور نہ ہی انہیں ان میں ان کا جائز حصہ دیا جاتا ہے۔ اس حد تک ان دونوں گروہوں کے مؤقف میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہے۔ بلکہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی اسی قسم کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ البتہ ان احساسات کو سامنے لانے کے لیے پرتشدد تحریک دیکھنے میں نہیں آتی۔ شاید اسی لیے یہ معاملات قومی مباحثہ کا حصہ بھی نہیں بنتے۔
ناروے کے سامیوں اور پاکستان کے بلوچوں کے درمیان اس یکسانیت کے علاوہ ایک بہت بڑا تضاد بھی موجود ہے۔ ناروے کے سامی اور دیگر حقیقی باشندوں کی تنظیمیں کبھی اپنے ثقافتی حقوق اور شناخت سے درست بردار نہیں ہوئیں۔ انہوں نے اس پالیسی کے نفاذ کے دوران سرکاری حکمت عملی کی مزاحمت میں انفرادی اورگروہی طور پر کوششیں جاری رکھیں، اپنے بچوں کو اپنی زبان و ثقافت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی اور سیاسی طور سے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔ انہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ 1960 کے بعد سے بتدریج ناروے میں سامی و دیگر اقلیتی گروہوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ادراک کیا گیا اور انہیں ثقافتی و مالی حقوق دینے کے لیے اقدامات دیکھنے میں آئے۔ ناروے کے اصل باشندوں کی سیاسی آواز کو قومی منظر نامہ پر لانے کے لیے 1989 میں سامی پارلیمنٹ قائم کی گئی جہاں سامی اقلیت کے لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائیندے مقامی مسائل پر بات چیت کرکے انہیں حل کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہی کوششوں کے نتیجہ میں نارویجئن پارلیمنٹ نے سامیوں و دیگر اقلیتوں کے خلاف اختیار کی گئی جابرانہ اور یک طرفہ حکمت عملی کا جائزہ لینے اور ناانصافی کی نوعیت کا احاطہ کرنے کے لیے 2018 میں ’نارویجئن بنانے اور ناانصافیوں کی تحقیقات کرنے والا کمیشن‘ قائم کیا ۔ اس کمیشن نے گزشتہ سال ایک ضخیم رپورٹ پیش کی جس میں سینکڑوں متاثرین کے انٹرویو کرنے کے بعد وہ سارے حقائق جمع کیے گئے جن سے سامی و دیگر چھوٹی اقلیتوں کے ساتھ دو صدی سے زائد مدت تک روا رکھے گئے سلوک کی تفصیلات سامنے لائی گئیں۔ آج نارویجئن پارلیمنٹ کی کمیٹی نے اسی رپورٹ کی بنیاد پر سامیوں و دیگر اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والی ناانصافی پر غیر مشروط معافی مانگنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس تجویز کو ناروے کی بیشتر سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے۔ کمیٹی نے اس تاریخی ناانصافی کا تدارک کرنے کے لیے متعدد تجاویز بھی پیش کی ہیں تاکہ سامیوں اور اصل باشندوں کے دیگر گروہوں کی سہولت اور ان کی زبان و ثقافت اور طرز زندگی کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
یہ نوٹ کیا جانا چاہئے کہ ناروے کے سامیوں اور دیگر اقلیتوں نے صدیوں تک ریاستی جبر کا سامنا کرنے کے باوجود کبھی ناروے کی ریاست کے خلاف بغاوت کرنے کا اعلان نہیں کیا بلکہ مسلسل اپنی بات منوانے کے لیے پر امن جد و جہد جاری رکھی۔ اس کے برعکس پاکستان کے بلوچ شہریوں کے بعض گروہوں نے چند دہائیوں سے نہ صرف بغاوت کا علم بلند کیا ہے بلکہ ہتھیار اٹھا کر ریاست سے ٹکر لینے کا طریقہ بھی اختیار کیا ہے۔ یہ قوم پرست گروہ بلوچ عوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ جب وہ پرتشدد کارروائیاں کرتے ہیں یا دیگر صوبوں سے آئے ہوئے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں یا ریاست کے اقتصادی اہداف کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان ساری کارروائیوں کو واقعی صوبے کی اکثریت کی تائد و حمایت حاصل ہے۔ بلوچ قوم پرست تحریک اور ناروے کے اصل باشندوں کی قومی شناخت و اثاثے کے لیے ہونے والی جد و جہد میں یہ نمایاں تضاد موجود ہے۔ سامیوں کی جد و جہد اور بلوچ عوام کی مسلح بغاوت میں یہ فرق بھی موجود ہے کہ سامی اپنے مطالبات میں یک زبان ہیں جبکہ بلوچ قوم پرست گروہوں کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا مشکل ہے۔
البتہ اس معاملہ پر غور کرتے ہوئے اس تضاد کا حوالہ دینا بھی اہم ہے کہ ناروے کی حکومت نے اگرچہ دو صدی تک سامیوں و دیگر اصل باشندوں کی زبان و ثقافت مٹانے کی شعوری کوشش کی۔ لیکن اس مقصد کے لیے ریاستی تشدد کا استعمال نہیں کیا گیا۔ کسی ریاستی یا حکومتی ادارے نے اقلیتوں کو تشدد سے دبانے اور ان کے خلاف جنگ کرنے کا اعلان نہیں کیا۔ جس پالیسی کو اس وقت ’نارویجئن بنانے کی کوشش‘ قرار دے کر مسترد کیا گیا ہے، وہ درحقیقت اصل باشندوں کو باقی ماندہ سماج میں ضم کرنے کی پالیسی تھی۔ اس کے تحت ان کی علیحدہ شناخت ، ثقافت و زبان کو غیر اہم سمجھتے ہوئے سرکاری وسائل فراہم کرنے یا اس کی ترویج کی حوصلہ افزائی سے گریز کیا گیا۔ ان دو سو سال کے دوران میں ناروے کی خواہش تھی کہ یہ اقلیتی گروہ مین اسٹریم کا باقاعدہ حصہ بن جائیں اور خود کو علیحدہ سمجھنے کی ضد چھوڑ دیں۔ اس کے باوجود سامیوں و دیگر گروہوں کی مستقل مزاجی کی وجہ سے یہ مقصد حاصل نہیں کیا جاسکا اور اڑھائی سو سال بعد وہی ریاست اور اس کے نمائیندے ماضی کی پالیسیوں پر شرمساری کا اظہار کرتےہوئے معافی مانگ رہے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان کی عمر اگرچہ صرف 75 سال ہے لیکن اس مختصر تاریخ کے کسی مرحلے میں بھی کسی حکومت نے اقلیتی گروہوں، صوبائی و علاقائی ضرورتوں، مقامی زبان و ثقافت کی حفاظت اور سہولت کے لیے کوئی مثبت و صحت مندانہ پالیسی اختیار نہیں کی۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ایسا ملک ہوگا جو اپنے قیام کے ربع صدی بعد ہی محض اس وجہ سے دو لخت ہوگیا کیوں کہ مرکزی حکومت اپنے ہی ملک کی اکثریتی زبان بولنے والے باشندوں کے لسانی و ثقافتی حقوق تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ بنگالیوں کے ساتھ زبان کے سوال پر شروع ہونے والا تنازع بالآخر 1971 میں پاکستان کے ٹوٹنے اور بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہؤا۔ اس کے باوجود مغربی حصے کو پاکستان کہہ کر آگے بڑھنے کا قصد کرنے والے سیاست دانوں یا حکمران اشرافیہ نے دوسری زبانوں و علاقائی حقوق سے انکار کی وہی حکمت عملی جاری رکھی جو سقوط ڈھاکہ سے پہلے پاکستان کے مشرقی حصے میں روا رکھی جاتی تھی۔
کسی سرکاری یا علمی فورم پر یہ سوال اٹھانے کی کوشش نہیں کی گئی کہ جو پالیسی ناکام ہوچکی ہے اور جس ریاستی جبر کی وجہ سے ملک دو ٹکڑے ہوگیا، اسے جاری رکھنے سے گریز کیا جائے اور دیگر صوبوں اور علاقوں میں احساس محرومی کو سمجھ کر، ان کے مسائل حل کرنے کی منظم اور مسلسل کوشش کی جائے۔ پاکستان میں اس وقت صوبائی سطح پر جو بھی بے چینی دکھائی دیتی ہے وہ درحقیقت مرکز میں بننے والی حکومتوں کی عاقبت نااندیشی اور دنیا میں معاملات طے کرنے کے لیے اختیار کیے جانے والے طریقوں سے انکار کا نتیجہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ناروے کی پارلیمنٹ سامیوں اور دیگر اقلیتی گروہوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر شرمندہ ہے اور اس کا تدارک کرنے کے لیے تجاویز پر غور کررہی ہے لیکن پاکستان میں مرکزی حکومت لاپرواہ ہے اور صوبے کا وزیر اعلیٰ مفاہمت کی بجائے جبر و تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے لیے دلائل کا انبار لگا رہا ہے۔ بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر اعلی سرفراز بگٹی اگرچہ تسلیم کرتے ہیں کہ ریاستی قوتیں اس وقت گرے ایریا میں کام کر رہی ہیں یعنی دوست اور دشمن کی پہچان ناممکن ہوتی جا رہی ہے۔ جو لڑ رہے ہیں وہ یہ نہیں کہتے کہ ہماری کوئی شکایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم بلوچ شناخت کی بنیاد پر پاکستان توڑنا چاہتے ہیں۔ پورا پاکستان اس تذبذب میں ہے کہ یہ حقوق کی کوئی جنگ ہے یا مرکز کے ساتھ کوئی اختلاف ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ نہ وہ لڑنے والا بلوچ، اس دلیل پر یقین کرتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی سچائی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ صوبے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی کے علاوہ گزشتہ چند سالوں میں ان گروہوں کو خوش کرنے کی حکومتی اور فوجی پالیسی بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب اس تنظیم سے بات چیت نہیں کی جائے گی۔ حالانکہ وہ یہ بات بھی مانتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ علیحدگی کی حامی شدت پسند تنظیمیں زیادہ منظّم ہوئی ہیں اور بلوچ شہریوں خصوصاً نوجوانوں کی بڑی تعداد ان کے ایجنڈے سے متاثر نظر آتی ہے ۔ صوبے میں سکیورٹی فورسز اور سیاسی حکومتوں پر عدم اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے ’صوبے کی بدقسمتی ہے ہماری حکمت عملی میں مستقل مزاجی نہیں تھی۔ ہم نے جب بھی جارحانہ رویہ اختیار کیا بلوچستان میں امن قائم ہوا‘۔
مفاہمت اور ظلم کا اعتراف کرنے کی بجائے جبر وتشدد کی حکمت عملی آج بھی پاکستانی حکمرانوں کا پسندیدہ آپشن ہے۔ جبکہ ناروے میں رونما ہونے والے آج کے وقوعہ سے دیکھا جاسکتا ہے کہ اب دنیا انسانوں اور ان کی پسند و ناپسند کے بارے میں فیصلے مسلط کرنے کا طریقہ ترک کررہی ہے۔ البتہ پاکستانی حکام سقوط ڈھاکہ کے المناک تجربہ کے باوجود زور ذبردستی کا وتیرہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔
(بشکریہ : کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ