ڈونلڈٹرمپ نے امریکہ میں اقتدار سنبھالنے کے بعد دنیا بھر کو پیغام دینا شروع کیا ہے کہ انہیں کسی دوسرے ملک یا اتحاد کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ امریکی معاشی و عسکری طاقت کے زور پر پوری دنیا کو زیر کرکے ’امریکہ کو پھر سے عظیم ‘ (ایم اے جی اے۔ ماگا) بنانے کا اعلان کررہے ہیں۔
اس ویک اینڈ پر یہی پیغام یورپی لیڈروں کو دیا گیا ہے۔ میونخ میں منعقد ہونے والی سکیورٹی کانفرنس میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے یورپی حکومتوں پر شدید تنقید کی اور واضح کیا کہ امریکہ اور یورپ کی اقدار یکساں نہیں ہیں۔ وینس کی تقریر یورپی ملکوں کے لیے شدید دھچکے سے کم نہیں تھی۔ مبصرین کا کہنا تھا اس تقریر کے دوران ہال کھچا کھچ بھرا ہؤا تھا بلکہ جگہ کی کمی کی وجہ سے ایک علیحدہ ہال میں ٹی وی اسکرین پر یہ کارروائی دکھائی جارہی تھی۔ وہاں موجود ایک سامع کا کہنا تھا کہ تقریر کے دوران تالیاں تو کجا اتنا سناٹا تھا کہ تنکا گرنے کی آواز بھی سنی جاسکتی تھی۔ امریکی نائب صدر نے یورپ کی امیگریشن پالیسیوں کو غلط قرار دیا اور کہا کہ یہاں آزادی رائے کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے یورپی ملکوں کی متعدد لبرل اقدار کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ماہرین حیران ہیں کہ سکیورٹی کے معاملہ پر غور کے لیے منعقد ہونے والی کانفرنس میں یورپی حکومتوں پر تنقید سے ٹرمپ انتظامیہ کیا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کا ایک اشارہ جے ڈی وینس نے کانفرنس کے بعد جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کی لیڈر ایلیس وائیدال سے ملاقات کرکے دے دیا۔ امریکی نائب صدر نے جرمنی کے چانسلراولف شولز کے ساتھ ملاقات سے گریز کیا۔
یورپی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ وینس کی اس تقریر کے بعد امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں میں دراڑ بہت واضح اور گہری ہوگئی ہے۔ اس دوران امریکی نمائیندے یورپ پر یہ واضح کرتے رہے ہیں کہ وہ اپنے دفاع کے لیے نیٹو میں امریکہ کے کردار پر بھروسہ نہ کرے کیوں کہ امریکہ کی سکیورٹی ترجیحات تبدیل ہورہی ہیں۔ جے ڈی وینس نے بھی اپنی تقریر میں اس کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’ موجودہ حالات میں یورپ کو اپنے دفاع کے لیے بڑے پیمانے پر اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے‘۔ اس تقریر کے بعد یورپ میں پیدا ہونے والی پریشانی و تشویش پر غور کرنے کے لیے فرانس کے صدر میکرون نے یورپی لیڈروں کو پیرس مدعو کیا ہے۔
یورپی مبصر اب کھل کر یہ کہنے لگے ہیں کہ میونخ کانفرنس میں امریکی نمائیندوں کی باتوں اور اشاروں کے نتیجے میں ’نیٹو فوجی اتحاد‘ کا مستقبل تاریک ہوگیا ہے۔ یہ اتحاد دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم کیا گیا تھا جس میں بیشتر یورپی ملکوں کے علاوہ امریکہ و کنیڈا بھی شامل ہیں۔ امریکی فوج اس اتحاد میں اہم ترین پوزیشن کی حامل ہے۔ تاہم اب نئی امریکی حکومت کے نمائیندوں نے جو باتیں کی ہیں ، ان کی روشنی میں یہ احساس شدت اختیار کررہا ہے کہ یورپی ممالک اب اپنے دفاع کے لیے امریکہ پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔ امریکی نائب صدر کی طرف سے یورپی اقدار اور حکومتوں پر تنقید کو مختلف یورپی ممالک میں دائیں بازو کی انتہا پسند تحریکوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی حکمت عملی بھی سمجھا جارہا ہے۔ ان تحریکوں کو عام طور سے بنیادی جمہوری و انسانی اقدار کا مخالف مانا جاتا ہے اور سیاسی طور سے ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود متعدد ممالک میں انہیں مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ اگر امریکی حکومت باقاعدہ طور سے ان کی سرپرستی کا طریقہ اختیار کرے گی تو یورپی سیاسی لیڈروں کے لیے اس خطے میں جمہوری اقدار کے لیے کام کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔
تاہم میونخ سکیورٹی کانفرنس میں نائب صدر وینس کی تقریر ہی یورپ اور امریکہ کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کا نقطہ آغاز نہیں ہے۔ اس دوران امریکی وزیر دفاع ہیگ سیتھ نے بعض یورپی حلیف ممالک کی خواہش کے برعکس یہ اعلان بھی کیا تھا کہ یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اسی قسم کا اشارہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی دے چکے ہیں۔ ہیگ سیتھ اس سے پہلے یہ دعویٰ بھی کرچکے ہیں کہ ’یوکرین یہ خواب دیکھنا بند کردے کہ وہ 2014 سے پہلے والی سرحدوں پر واپس جاسکتا ہے‘۔ یاد رہے اسی سال کے دوران روس نے پہلی بار یوکرین پر حملہ کرکے کریمیا کے علاقے پر قبضہ کیا تھا۔ روس جنگ کے خاتمہ کے لیے اس علاقے پر قبضہ بحال رکھنا چاہتا ہے جبکہ یوکرین اس مؤقف کو مسترد کرتا ہے۔
اس کے علاوہ ٹرمپ کے نمائیندہ خصوصی کیتھ کیلوگ نے یورپی لیڈروں پرواضح کیا ہے کہ یوکرین جنگ کے خاتمہ کے لیے روس کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں یورپ کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اس بیان پر بھی یورپی دارالحکومتوں میں شدید بے چینی پیدا ہوئی ہے۔ نیٹو کے یورپی رکن ممالک یوکرین پر روسی حملے کو یورپ کی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ جنگ یورپی سرزمین پر لڑی جارہی ہے جس کی وجہ سے یورپی ممالک روس کے ساتھ کسی بھی امن معاہدہ میں شراکت دار بننا چاہتے ہیں لیکن ٹرمپ کے نمائیندے اس بارے میں یورپ کے کردار کو قطعی طور سے نظرانداز کررہے ہیں۔ اس نقطہ نظر نے بھی یورپ کو اپنی سلامتی کے حوالے سے تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ اب صرف یہی سوال درپیش نہیں ہے کہ نیٹو کے رکن ممالک اس فوجی اتحاد کے لیے زیادہ وسائل فراہم کریں بلکہ انہیں امریکی حکومت کی طرف سے نظر انداز کرنے اور ان کی تشویش کو نہ سمجھنے کی صورت حال کا بھی سامنا ہے۔ یورپ کے سیاست دانوں اور ماہرین کے لیے یہ بالکل نئی تصویر ہے۔ کیوں کہ نیٹو کے قیام کے بعد گزشتہ 75 سال کے دوران امریکہ نے نہ صرف یورپ کے دفاع کی ضمانت دی تھی بلکہ امریکی لیڈر یورپ کو مشترکہ اقدار میں اپنا حصہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔ اب امریکی لیڈر ان دونوں اصولوں کو نظرانداز کرنے کے اشارے دے رہے ہیں۔
اس مایوس کن صورت حال میں ایک طرف یورپی لیڈر ہنگامی ملاقاتوں اور مشاورت میں مصروف ہیں تو دوسری طرف یورپی مبصر حیرت و پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے یہ امید بھی قائم کررہے ہیں کہ ٹرمپ حکومت کے ترجمانوں نے صرف بیانات کی حد تک طرز عمل تبدیل کیا ہے لیکن سکیورٹی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ بعض عناصر کا یہ بھی اندازہ ہے کہ اس وقت ٹرمپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ روسی صدر پوٹن ان کی ہر بات مان کر امن معاہدے پر راضی ہوجائیں گے لیکن جب بھی انہوں نے صدر ٹرمپ کی باتوں کو مسترد کیا تو خود پسندی کا شکار ٹرمپ ازخود یورپی اتحادیوں کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوں گے بلکہ یوکرین کی امداد بھی بحال کریں گے۔ تاہم اس نقطہ نظر کو ٹرمپ انتظامیہ کی وسیع تر حکمت عملی کے تناظر میں زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ میونخ کانفرنس میں امریکہ کے برعکس چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ یوکرین جنگ کے خاتمہ کے لیے اس معاملہ میں ملوث سب ممالک کو حصہ لینا چاہئے۔ یورپی ممالک کو ایسے کسی امن معاہدے کا لازمی حصہ ہونا چاہئے تاکہ جنگ ختم کرکے پائیدار امن کی طرف پیش قدمی کی جاسکے۔ چین کے وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ چین واشنگٹن کے ساتھ کسی تنازعہ میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن اگر امریکہ نے زور ذبردستی کی تووہ کسی صورت پیچھے نہیں ہٹے گا۔
یوکرین جنگ کے حوالے سے اصل تنازعہ اس وقت شروع ہؤا جب گزشتہ ہفتہ کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سے ڈیڑھ گھنٹہ طویل بات چیت کی۔ اس کے فوری بعد ’امن بات چیت‘ کے لیے صدر ٹرمپ نے وزیر خارجہ کی سربراہی میں وفد بھی قائم کردیا اور اعلان کیا کہ وہ سعودی عرب میں روسی صدر سے ملاقات کریں گے۔ وائٹ ہاؤس نے ابھی تک یہی تاثر دیا ہے کہ امریکہ روس کے ساتھ معاملات طے کرکے یوکرین کو اسے قبول کرنے پر آمادہ کرلے گا۔ اسی لیے امریکی اہلکار نیٹو میں یوکرین کی شمولیت کے علاوہ تمام یوکرینی علاقوں سے روسی افواج کی واپسی کے خیال کو مسترد کررہے ہیں۔ روس پہلے ہی جنگ بند کرنے کے لیے یہ شرائط پیش کرتا رہا ہے۔ اس لیے اب یہ تاثر قوی ہورہا ہے کہ امریکی صدر پوٹن کی شرائط پر یوکرین جنگ بند کرانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یورپی لیڈروں کے لیے اس طریقے سے ان کی اپنی سلامتی کو داؤ پر لگایا جارہا ہے جس کی وہ حلیف کے طور پر امریکہ سے توقع نہیں کرتے تھے۔
اس دوران امریکہ کا محکمہ تجارت یوکرین کے نایاب معدنیات کےذخائر میں پچاس فیصد حصہ لینے کی تجویز بھی پیش کرچکا ہے۔ یہ معدنیات اسلحہ سازی کے لیے ضروری اور اہم سمجھی جاتی ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ حصص کسی ادائیگی یا شرط کے بغیر اس کے حوالے کی جائیں کیوں کہ امریکہ نے جنگ میں یوکرین کو کثیر فوجی و مالی امداد فراہم کی ہے۔ اب یوکرین کا فرض ہے کہ وہ اپنا ’قرض‘ اتارے۔ واضح رہے کہ یوکرین کی ان معدنیات کی مالیت کا تخمینہ 500 ارب ڈالر ہے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اس تجویز کو فوری طور سے مسترد کیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ معدنیات کے حوالے سے کوئی بھی معاہدہ اسی وقت ممکن ہے جب امریکہ مستقبل میں یوکرین کی حفاظت کا تحریری معاہدہ کرنے پر آمادہ ہو۔ ٹرمپ انتظامیہ ایسا کوئی وعدہ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
میونخ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کسی ایسے امن معاہدے کو بھی مسترد کیا جو ان کے ملک کی شراکت کے بغیر طے پائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یوکرین اپنی شمولیت کے بغیر کیے گئے معاہدوں کو کبھی قبول اور تسلیم نہیں کرے گا‘۔ انہوں نے یورپی لیڈروں کو متنبہ کیا کہ اب امریکہ پر تکیہ کرنا چھوڑا جائے اور یورپ کے دفاع کے لیے یورپی فوج قائم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’میرا ماننا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ یورپی ممالک کو اپنے تحفظ کے لیے مل کر ایک مشترکہ فوج بنانے کی ضرورت ہے۔ میونخ میں امریکی نائب صدر نے واضح کیا ہےکہ یورپ اور امریکہ کے درمیان دہائیوں پرانے تعلقات ختم ہورہے ہیں‘۔
یورپ کے دفاع کے لیے خود پر انحصار اور یورپی فوج قائم کرنے کے سوال پر بات کرنے والے یوکرینی صدر تنہا نہیں ہیں۔ بلکہ متعدد یورپی لیڈر بھی ان خطوط پر غور کررہے ہیں ۔ مبصرین نے بھی نیٹو کو ایک مردہ گھوڑا قرار دینا شروع کردیا ہے۔ یوکرین جنگ بند کرانے کے لیے اگر صدر ٹرمپ نے مرضی مسلط کرنے کی کوشش کی تو یورپ اور امریکہ کے راستے الگ ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ