جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ زندگی میں حرام مال کمانے کے بے شمار مواقع ملے لیکن وہ وجوہ اس رستے پر چلنے میں مانع رہیں۔ ایک تو ابا جی کی تربیت اور دوسرے اس حوالے سے انکی پوری زندگی کی عملی مثال۔ اس کی دوسری وجہ اپنی خودداری۔ میں سوچتا تھا کہ میں جو اس کی نظر میں ایک باوقار اور خوددار انسان ہوں، اس کی آفر قبول کرنے کےبعد اس کی ہی نہیں اپنی نظروں سے بھی گر جاؤں گا۔ مجھ میں اور طوائف میں کیا فرق رہ جائے گا؟ میں اس حوالے سے زیادہ مثالیں نہیں دوں گا ۔ بہرحال ایک سن لیں۔ میرا ایک مزاح نگار دوست جس کے حوالے سے بہت عرصے کے بعد پتہ چلا کہ اس کا تعلق ایک ’’ایجنسی‘‘ سے ہے، ایک دن جب وہ میرے پاس آئے اور کہا آپ ایک روزنامہ کیوں شروع نہیں کرتے۔ یہ سن کر پہلے تو میری ہنسی نکل گئی اور پھر کہا برادرم اس کےلئے ایک بڑی عمارت چاہئے، پرنٹنگ پریس چاہئے، پیشہ ور صحافی چاہئیں اور یہ کم از کم پندرہ بیس کروڑ روپے بنتے ہیں۔ دیگر ماہانہ اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ یہ سن کر انہوں نے کہا رقم کی آپ پروا نہ کریں، یہ سب کچھ ہمارے ذمے ہے۔ ہمیں اس کام کے لئے ایک محب وطن اور اس شعبے سے وابستہ شخص کی تلاش تھی اور وہ شخصیت آپ ہیں ۔
میں نے اپنے اس دوست کا شکریہ ادا کیا اور کہا الحمدللہ میں محب وطن ہوں۔ ممکن ہے میری اور آپ کے ادارے کی حب الوطنی میں اس قسم کا فرق ہو جیسے میرے مختلف دوستوں کا ہے۔ ہم جب بیٹھتے ہیں تو اس طرح کے اختلافات پر گفتگو ہوتی ہے اور ہر ایک کی رائے مختلف نظر آتی ہے۔ میرے دوست نے کہا آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر آپ اس اخبار کی آزادانہ پالیسی رکھ سکتے ہیں۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ میں نے عرض کی برادر میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے مجھے اتنی فراخدالانہ آفر کی مگر ایسا ہو نہیں سکتا کہ وہ شخص آپ کی اس رائے سے اختلاف کرسکے جسے آپ نے بیٹھے بٹھائے کچھ سے کچھ بنا دیا ہو۔ میرے اس دوست نے کافی اصرارکیا اور یقین دہانیاں کرائیں مگر میں نے پیارسے اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے کہا نہیں یار، بالآخر اس نے کہا ٹھیک ہے۔ مگر آپ میرے ساتھ ان جنرل صاحب کے پاس چلیں جنہوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا تھا۔ آپ صرف ان کے سامنے معذرت کر دیں تاکہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ میں نے اپنی ڈیوٹی صحیح طورپر انجام نہیں دی۔ میں نے اس حوالے سے بھی معذرت کی۔ پھر دوست سے کہا آپ سے میری امید ہے دوستی میں فرق نہیں آئےگا ۔
اس طرح کی دوسری آفر بہت کم تر تھی۔ یہ آفر ان دنوں ہوئی جب میں پی ٹی وی کا چیئرمین تھا۔ ایک صاحب جن سے میرے دیرینہ مراسم تھے، ایک دن میرے دفتر آئے میں ان کے احترام میں اپنی کرسی سے اٹھ کر سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔ اور ساتھ ہی نائب قاصد کو چائے کا آرڈر دیا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے اپنے برابر میں رکھا بریف کیس اٹھا کر میرے سامنے رکھ دیا اور کہا اس میں تیس لاکھ روپے ہیں اور یہ پہلی قسط ہے۔ یہ سن کر مجھے شدید تکلیف ہوئی۔ میں نے ان سے کہا آپ نے یہ اچھا نہیں کیا۔ اگر آپ نے چائے ختم کرلی ہے تو اس بریف کیس سمیت تشریف لے جاسکتے ہیں۔
اسی طرح کے زندگی میں بےشمار مواقع آئے، ان میں سے صرف ایک آپ کو سناتا ہوں جو بہت مزاحیہ قسم کا ہے۔ ایک وزیر صاحب میرے گھر تشریف لائے مٹھائی کا ڈبہ انہوں نے میرے گھریلو معاون کو تھمایا اور پھر سیاسی گفتگو شروع کر دی، جس سے مجھے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ تاہم اپنی اس نالائقی کو ’’راز‘‘ ہی رکھنے کیلئے درمیان میں ایک آدھ جملہ کہہ دیتا۔ اس جملے کو صرف بونگی قرار دیا جاسکتا ہے۔ مگروہ میرے ہر اس طرح کے ہر جملے سے سوفیصد اتفاق ظاہر کرتے رہے۔ اس حوالے سے میں نے محسوس کیا کہ وہ بے چین سے ہیں۔ ان کی یہ بے چینی اس وقت ختم ہوئی جب انہوں نے جیب سے ایک بہت پھولا ہوا لفافہ نکالا اور اس لفافے کے موٹاپے کی وجہ وہ کرنسی نوٹ تھے جو اس میں ٹھنسےہوئے تھے۔ انہوں نے یہ لفافہ میرے سپرد کیا اور کہا قاسمی صاحب یہ معمولی سی رقم ہے آپ اپنے ہاتھوں سے اسے مستحقین میں تقسیم کر دیں۔ میں نے عرض کی کہ حضورﷺ کا فرمان ہے کہ اس طرح کی نیکی اپنے ہاتھ سے کرنی چا ہئے۔ تھوڑے سے شرمسار ہوئے مگر ہتھیار نہیں ڈالے۔ فرمایا آپ ان بزرگوں کی اولاد ہیں جو ہمیشہ سے قابل احترام رہے ہیں۔ اس لئے مناسب سمجھا کہ نیکی کا کام ایک نیک شخص ہی کے ہاتھوں ہونا چاہئے۔ اپنے بارے میں ’’نیک شخص‘‘ کے الفاظ سن کر میں نے مشکل سے اپنی ہنسی روکی اور ’’جواب آں غزل‘‘ کے طور پر کہا جناب میں تو ایک گنہگار شخص ہوں نیکیوں کی دھوم تو آپ کی ہے۔ لہٰذا میں نے لفافہ ان کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا کہ یہ نیکی بھی آپ اپنے ہاتھوں انجام دیں۔
اگلی بات پر میں ان کی ذہانت کا قائل ہو گیا۔ وہ ایسے کہ جب وہ آئے تو میں نے اپنے ادبی مجلے کا تازہ شمارہ ان کی نذر کیا تھا۔ انہوں نے اس کی ورق گردانی کی اور مجھے مخاطب کیا ماشااللہ قاسمی صاحب اس وقت جب کہ سب لوگ مال بنانے میں لگے ہوئے ہیں، آپ اکیلے ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس کام میں مجھے بھی شریک کرلیں۔ یہ لفافہ رکھیں اور سب ادیبوں کو یہ قابل قدر مجلہ ارسال کر دیں۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا جناب یہ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ میں نے بھی کاپیاں ٹمپل روڈ کی ایک بک شاپ پر رکھوا دی ہیں۔ آپ ان سے جتنےچاہیں پرچے خرید لیں اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔
رشوت کی ایک نہیں کئی قسمیں ہوتی ہیں فلم انڈسٹری میں اہم کردار اور ٹی وی چینلز میں پیک ٹائم کے حصو ل کیلئے ایسے غیر مستحق خواتین و حضرات اپنے کسی نمائندے یا براہ راست جسمانی خواہشات کی تکمیل کی آفر کرتے ہیں، مگر ان شعبوں میں اپنا مقام صرف ٹیلنٹ والے لوگ بنا پاتے ہیں۔ باقی ساری عمر رینگنے اور اپنے ضمیرسے جھگڑنے میں گزار دیتےہیں۔ مجھے ایک صوبے کے گورنر کا فون آیا کہ آپ ٹیلنٹ رکھنے والی لڑکیوں کو ان کا صحیح مقام کیوں نہیں دیتے۔ مجھے یہ سن کر ہنسی آ گئی اور کہا حضور میں چیئرمین ہوں میرے انڈر یہ شعبہ ہی نہیں ہے۔ ویسے ایک صوبے کا گورنر ہوتے ہوئے اسلام آباد کی لڑکیوں کی اتنی فکر کیوں ہے اور سچ پوچھیں تو ان کی یہ فکر اس ویڈیو لیک سے سامنے آگئی تھی جس سے بہت شور مچا تھا۔ آپ اس کردار کا اندازہ لگائیں کہ ایک صوبے کا گورنر ٹیلی فون پر یہ باتیں کر رہا ہے جو جانتا ہے کہ سب کچھ ریکارڈ ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں لوگ ہاتھ دکھانے کے بہت شوقین ہیں یہاں ہاتھ دکھانا ہر دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک دھوکہ دہی اور دوسرا نجومیوں کو ہاتھ دکھانا۔ پنجاب یونیورسٹی میں دوران تعلیم مجھ سے ایک سال پیچھے میرا ایک دوست جعلی دست شناس بنا ہوا تھا۔ مردوں سے زیادہ عورتیں اور لڑکیاں اپنے مستقبل کے بارے میں جاننے کی بہت شوقین ہوتی ہیں۔ میرے اس جعلی دست شناس دوست نے اپنی یہ شہرت اللہ جانے پوری یونیورسٹی میں کیسے پھیلائی ہوئی تھی کہ وہ اس کے پاس ہاتھ دکھانے کے لئے آتیں۔ وہ پہلے لڑکی کا چہرہ دیکھتا، اگر وہ اس کے شایان شان نہ ہوتا تو ایک آدھ منٹ میں اس کے مستقبل کا احوال بیان کرکے کہتا ’ماشا اللہ آپ بہت خوش قسمت ہیں پانچوں نمازیں پڑھیں، پورے روزے رکھیں اور نوافل بھی ادا کریں تو جو ایک آدھ رکاوٹ مجھے دکھائی دے رہی ہے، وہ بھی آپ کی خوش قسمتی کا رستہ نہیں روک سکے گی‘۔
اس کے برعکس اگر کوئی خوبصورت لڑکی اپنی قسمت کا احوال جاننے کیلئے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتی تو کہتا یہاں روشنی کم ہے۔آپ کے ہاتھ کی لکیریں نہیں پڑھی جا رہیں، آپ نیچے گارڈن میں میرے ساتھ آجائیں۔ گارڈن میں وہ برگد کے درخت کے نیچے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتا اور اس کی قسمت کا احوال اتنے دلکش انداز میں اسے بتاتا، جس میں اس کیلئے خوشخبریاں ہی خوشخبریاں ہوتیں۔ وہ اس دوران اس کا ہاتھ سہلاتا رہتا اور اس کی توجیہہ یہ بیان کرتا کہ ہاتھ کی وہ لکیر صاف کرکے دیکھنا چاہتا ہوں جو اتنی نمایاں نہیں مگر وہ اس کے مستقبل کے حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔
جو بات میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں وہ میرے لئے تو حیران کن تھی ہی، مجھے یقین ہے آپ بھی ششدر رہ جائیں گے۔ پروفیسر ایم اے ملک کا نام آپ نے بھی سنا ہوگا۔ وہ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے اور دست شناسی میں ان کے مقابل اور کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے ضیاالحق کے بارے میں جتنی پیش گوئیاں کیں اس کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ یہ واقعہ کب رونما ہوگا۔ صرف ایک پیش گوئی ایسی تھی جو لفظ بہ لفظ پوری نہیں ہوئی، وہ یہ تھی کہ بالآخر انہیں جلا وطن ہونا پڑے گا۔ جبکہ وہ جہاز کے حادثے میں مارے گئے۔ اب آمدم برسرمطلب انہوں نے میرے ہاتھ کا نقش بھی لیا اور کہا میں معروف لوگوں کے حوالے سے ایک کتاب انگریزی میں لکھ رہا ہوں ، آپ کے ہاتھ کا نقش میں نے لے لیا ہے ، میرے ناقص علم میں آپ کی زندگی کے حوالے سے جو سمجھ میں آیا وہ اس کتاب میں ہوگا۔ میں نے عرض کی ملک صاحب مہربانی فرما کر کتاب کی اشاعت سے قبل ہی مجھے کچھ تو بتا دیں۔ بولے چلیں ایک ہفتے میں، میں آپ کو اپنی سمجھ کے مطابق جو سامنے آیا وہ بتا دوں گا۔ اللہ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے، انہوں نے اپنی دست شناسی کے علم کے مطابق میرے بارے میں جتنی پیش گوئیاں کیں وہ سب کی سب سچ نکلیں اور میں دم بخود رہنے کے علاوہ اس سوچ میں بھی پڑ گیا کہ کیا ہمارے لئے روزاول سے طے کر دیا گیا تھا اور یہ باتیں مرحلہ بہ مرحلہ ہمارے ہاتھ میں لکیروں کی صورت میں بتا بھی دی گئی تھیں۔
تمہید بہت طویل ہوگئی کہ اب آپ ملک صاحب کی پیش گوئیاں سن لیں۔ واضح رہے میں نے انہیں اپنا یہ ہاتھ ستمبر 1986 میں دکھایا تھا۔ پہلی پیش گوئی تھی کہ آپ کو بیرون ملک کوئی ذمہ داری سونپی جائے گی۔ آپ بہت انکار کریں گے مگر بالآخر آپ راضی ہو جائیں گے۔ اور ناروے کی سفارت کے حوالے سے یہ پیش گوئی سچ نکلی۔ دوسری پیش گوئی یہ تھی کہ 58 برس کی عمر میں آپ کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہوگا اگر بچ گئے تو لمبی عمر پائیں گے۔ ٹھیک 58 برس کی عمر میں میرے دائیں گردے کے قریب کینسر پایا گیا۔ ڈاکٹروں نے وہ گردہ نکال دیا اور یوں ملک صاحب کی دونوں پیش گوئیاں حرف بہ حرف صحیح نکلیں۔ اور وہ یوں کہ 58 برس کی عمر میں میری زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہوا مگر میری جان بچ گئی اور دوسرا جملہ کہ اگر بچ گئے تو لمبی عمر پائیں گے کے مطابق آج میں 82 برس کی عمر میں ایک گردے کی کارکردگی کے نتیجے میں زندہ ہوں۔ اب میں ’بائیں‘ گردے کے سہارے زندہ ہوں، شاید اسی لئے بائیں بازو کے کچھ دوست مجھے بھی لیفٹسٹ سمجھنے لگ گئے ہیں۔
باقی پیش گوئیاں یہ بھی تھیں ۔1۔ نئے تعلقات اتنے زیادہ ہو جائیں گے کہ اس کے نتیجے میں کچھ لوگوں کا دل بھی ٹوٹے گا کہ ان کی طرف آپ کی توجہ نہیں رہے گی۔ 2۔آپ کا ہاتھ روپیہ جمع کرنے کا نہیں خرچ کرنے کا ہے، بعض دفعہ تو آپ مستقبل میں آنے والی رقم بھی پہلے ہی خرچ کردیتے ہیں۔ اس کی گواہی میرے سب دوست اور غیر دوست دے سکتے ہیں۔ 3۔ اولاد کے ذریعےآپ کے تشنہ خوابوں کی تکمیل بھی ہوگی، آپ کے بچے تخلیق کی طرف جائیں گے اور تیسرا بیٹا مختلف حوالوں سے آپ کا نام روشن کرے گا۔ چنانچہ یاسر پیرزادہ، علی عثمان قاسمی اور عمر قاسمی کے بار ےمیں بھی یہ باتیں درست ثابت ہوئیں۔ ایک پیش گوئی یہ بھی تھی کہ ممکن ہے ایک بیٹا اور بھی پیدا ہو مگر اس دوران مجھے غیب سے آواز آتی رہی، بس کر دے بس۔ اور یوں میں ملک صاحب کی اس پیش گوئی کے آگے ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔
تیسری پیش گوئی یہ تھی کہ آپ سیلف میڈ انسان ہیں، آرام سے کھانا نہیں ملے گا۔ تاہم میں خود کو سیلف میڈ ان معنوں میں نہیں سمجھتا کہ جس نے زندگی میں اپنے ٹارگٹ کے حصول کے لئے محنت کی ہو۔ اول تو زندگی میں میرا ٹارگٹ کوئی تھا ہی نہیں، اپنی پیدائش سے آج تک مجھے جو کچھ ملا میری خواہش اور کوشش کے بغیر ملا۔ ان کی ایم اے ملک دست شناس ایم اے ملک دست شناس جنگ جوائن کرنے کے دوران میر شکیل الرحمٰن میرے اقبال ٹاؤن والے گھر میں آئے تو دوران گفتگو کہنے لگے یہ گھر آپ کے لئے چھوٹا نہیں، میں نے کہا پہلے نہیں تھا مگر اب بچے بڑے ہوگئےہیں اور یوں مجھے احساس ہوتا ہے کہ دو بیڈ روم والے گھر میں ہم اب سما نہیں سکتے۔ پوچھنے لگے آپ کے پاس کوئی پلاٹ ہے، میں نے کہا جی ڈی ایچ اے کا ایک فیز ای ایم ای بالکل بے آباد تھا۔ میں نے وہاں ا یک 27 مرلے کا پلاٹ آٹھ لاکھ میں خریدا تھا، وہ پڑا ہے۔ اس گفتگو کے بعد میر صاحب جب واپس کراچی گئے تو غالباً بیس لاکھ کا چیک مجھے بھیجا۔ جو بعد میں میری بار بار یاد دہانیوں کے بعد میں ان کی دی ہوئی رقم لوٹانے میں کامیاب ہوا کہ وہ یہ رقم واپس لینا ہی نہیں چاہتے تھے۔ اس کے بعد اقبال ٹاؤن والا پلاٹ بیچ دیاجس کی قیمت اس وقت کہیں کی کہیں پہنچ چکی تھی اور یوں ملک صاحب کی پیش گوئی جس کے پورے ہونے کی مجھے ایک فیصد بھی امید نہیں تھی، وہ بھی پوری ہوگئی۔
ملک صاحب کی ایک پیش گوئی یہ تھی کہ آپ کی ذات میں وفا داری بہت ہے تاہم ممکن ہے کہ آپ نوائے وقت چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ مگر میں اور بہت کچھ کرسکتا تھا لیکن نوائے وقت چھوڑنے کا زندگی میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ان دنوں میر صاحب مجھے جنگ آفر کر رہے تھے اور نوائے وقت سے بیس گنا سہولتیں بھی، اس سے وابستہ تھیں۔ مگر میں کوئی کام پیسے کی غرض کے لئے نہیں کرسکتا اور نہ آج تک کیا۔ ان دنوں مجھے نظامی صاحب کی طرف سے ملی ایک تحریری سرزنش سے میرا دل بہت کھٹا ہوا۔ اس کے بعد کی پوری تفصیل میں اس سے پہلے اپنے ایک کالم میں بیان کر چکا ہوں۔ سو نوائے وقت بھی میں نے زیادہ پیسوں کے لئے نہیں چھوڑا، میں کوئی کام کسی لالچ کے تحت نہیں کرتا۔ نہ جنگ زیادہ پیسوں کے لئے جوائن کیا اور نہ زیادہ پیسوں کے لئے جنگ چھوڑا۔ ملک صاحب کی یہ پیش گوئی میرے لئے ایک صدمے کی طرح تھی کہ موجودہ ادارے سے آپ کی وابستگی ختم ہو جائے گی مگر ملک صاحب آپ نے اس ناممکن کام کے ممکن ہونے کا پہلے ہی بتا دیا تھا۔
’وینس آپ کا اسٹار ہے جو گاڈ آف لو ہے، ان کے لئے روپیہ مقصود نہیں ہوتا، مقصد عزیز ہوتا ہے‘ (ایم اے ملک)۔ جمالیاتی حس بہت زیادہ ہے، ممکن ہے انہوں نے صحیح کہا ہو، ملک صاحب کی ایک پیش گوئی یہ بھی تھی کہ ازدواجی زندگی کے حوالے سے یہ ہاتھ Ambitious نہیں، اقتصادی خوشحالی کے باوجود ذہن کسی اور طرف نہیں جائے گا۔ تاہم ایک عارضی فیز ممکن ہے۔ یہ سب کچھ میرے لئے حیران کن ہونے کے علاوہ یہ سوال بھی میرے ذہن میں چھوڑ گیا کہ زندگی میں آپ ہاتھ پیر مت ہلائیں، آپ کو اس کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ کو سب کچھ پکا پکایا مل جائے گا۔ میرے حوالےسے یہ بات اس حد تک صحیح ہے کہ میں نے سفر نامے اور ڈرامے لکھنے میں بے پناہ محنت کی مگر یہ کام کسی مقصد کے حصول کےلئے نہیں تھا، یہ میرا شوق تھا۔ چنانچہ جسے محنت کہتے ہیں وہ میں نے زندگی میں کبھی نہیں کی۔ صرف اپنے شوق پورے کئے۔
لہٰذا قارئین کو میرا مشورہ ہے کہ وہ ہاتھ کی لکیریں نہ دیکھیں، اپنے ٹارگٹ کے لئے زیادہ سے زیادہ محنت کریں۔ میرا کیس بالکل مختلف ہے اور ایسے ’کیس‘ زیادہ نہیں ہیں۔ (جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)