چلاس : گلگت بلتستان کے علاقے چلاس میں دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین نے ’حقوق دو، ڈیم بناؤ‘ تحریک کا آغاز کر دیا ہے اور حکومت کے سامنے مطالبات کی ایک فہرست بھی پیش کر دی اور وفاقی حکومت کے سامنے ایک مکمل ڈیمانڈ چارٹر رکھ دیا ہے۔ متاثرین نے سوموار تک کی ڈیڈ لائن دی تھی کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے یا وفاقی سطح پر وزیراعظم کی میٹنگ نہ ہوئی تو وہ دیار بھاشا ڈیم کی طرف جا کر کام بند کروا دیں گے۔ اس بارے میں مقامی رہنما شبیر احمد قریشی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آج مقامی انتظامیہ کے ساتھ مزاکرات ہوئے ہیں اور مظاہرین کو بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے جو دو سے تین دن کے اندر اس بارے میں بات چیت کرے گی تب تک دھرنا موخر کر دیا جائے۔‘شبیر احمد قریشی نے مذید بتایا کہ متاثرین ڈیم نے دھرنا موخر کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’وہ دھرنا جاری رکھیں گے اور اگر اُن کے مطالبات پر توجہ نہ دی گئی تو وہ پھر لانگ مارچ کرکے ڈیم کر کام رکوا دیں گے۔‘
شاہراہ قراقرم پر باب چلاس کے قریب گزشتہ تین ماہ سے احتجاجی دھرنا جاری ہے اور مظاہرین کا کہنا ہے کہ ’ان کے مکانات، املاک، زرعی زمینیں اور کاروبار سب کچھ ڈیم کی نذ ر ہوگیا ہے لیکن حکومت ان کے مطالبات کی طرف توجہ نہیں دے رہی۔‘
گزشتہ روز گلگت بلتستان کے چلاس شہر میں ہزاروں متاثرین نے ’حقوق دو، ڈیم بناؤ‘ تحریک کا آغاز کرکے اپنے دیرینہ مطالبات کو ایک منظم بیانیے کی شکل دے دی ہے۔جلسے میں پیش کیے گئے 31 نکاتی ایجنڈے میں وہ تمام بنیادی مسائل شامل ہیں جو سالہا سال سے واپڈا اور وفاقی حکومت کی جانب سے عدم توجہی کا شکار ہیں۔متاثرین ڈیم کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کے روشن مستقبل کی خاطر اپنی آبائی قبریں تک نیلام کر دیں، مگر آج انھیں کے زخموں پر نمک چھڑکا جا رہا ہے۔‘
متاثرین کا کیا کہنا ہے؟
صدر دیامر ڈیم موومنٹ شبیر احمد قریشی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ احتجاج تین ماہ سے جاری ہے لیکن اس کے باوجود ان کے مطالبات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ اس تحریک کے لیے مقامی سطح پر ایک بڑی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں شامل تمام نمائندے اپنے مطالبات کے لیے متحرک ہیں۔‘مقامی صحافی فخر عالم نے بتایا کہ ’شاہراہ قراقرم پر باب چلاس کے مقام پر احتجاجی دھرنا جاری ہے جس میں بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں۔‘انھوں نے بتایا کہ ’مظاہرین کا موقف ہے کہ سرکاری ادارے اعتماد کی بحالی کے بجائے اس معاملے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں متاثرین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اگر ان کے مطالبات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو وہ لانگ مارچ کرتے ہوئے ڈیم سائٹ کا تعمیراتی کام روکنے پر مجبور ہو جائیں گے۔‘
گلگت بلتستان حکومت کا اس پر کیا کہنا ہے؟
اس بارے میں گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گلگت بلتستان حکومت اس میں ایک سہولت کار کا کردار ادا کر رہی ہے باقی یہ مسئلہ وفاقی حکومت اور واپڈا کا ہے۔‘ اس بارے میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گلگت بلتستان حکومت نے چیئرمین واپڈا کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں ان سے کہا ہے کہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پسماندہ علاقے کے لیے مناسب وسائل اور فنڈز فراہم کیے جائیں تاکہ اس علاقے میں تمام متاثرہ افراد کو ان کے نقصانات کا مکمل معاوضہ فراہم کیا جا سکے۔‘انھوں نے بتایا کہ ’اس بارے میں گلگت بلستان حکومت نے بارہا وفاقی سطح پر رابطے کیے ہیں اور ان مسائل کی نشاندہی کی ہے لیکن اب تک اس بارے میں کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہا۔‘فیض اللہ فراق نے بتایا کہ ’دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے اعلان کے بعد سے اس علاقے میں لوگوں کی مکانات، زرعی زمینیں اور دیگر املاک کو ختم کر دیا گیا اور اب یہاں جھیل بننے سے مذید مشکالات بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔‘
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ