اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ضلع کی حدود میں دفعہ 144 کے تحت دو ماہ کے لیے پانچ یا اس سے زیادہ افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کی ہے۔ اس دوران لاؤڈ اسپیکر یا ساؤنڈ سسٹم کے استعمال کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔ واضح رہے گزشتہ ہفتے کے دوران عمران خان نے 24 نومبر کو اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ مطالبے پورے ہونے تک ڈی گراؤنڈ پر دھرنا دیا جائے گا۔
ضلعی انتظامیہ کا تازہ حکم نامہ بظاہر حکومت کی طرف سےاحتجاج کی کال کا جواب ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کے احتجاج کو طاقت کے زور پر روکا جائے گا۔ تحریک انصاف نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حکم کو ناروا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمرا ن خان جب بھی احتجاج کی کال دیتے ہیں تو اسی قسم کی قانونی پابندیاں عائد کرکے سیاسی احتجاج کا راستہ روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ مؤقف کافی حد تک درست ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ تحریک انصاف دراصل فروری میں ہونے والے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو تسلیم نہیں کرتی اور کسی بھی طریقے سے اسے گرا نا اپنا جائز سیاسی حق سمجھتی ہے۔ حکومت اس طرز عمل کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
ایک جمہوری نظام میں جو بظاہر منتخب حکومت کے تحت کام کررہا ہے ، کسی قسم کے احتجاج، مظاہرے، ریلی یا دھرنے کو روکنا یا اس کی ممانعت کرنا ناجائز اور غلط رویہ ہے۔ 24 نومبر کو تحریک انصاف نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے لیکن درحقیقت عمران خان کثیر تعداد میں لوگوں کو اسلام آباد جمع کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تاکہ مؤثر طریقے سے حکومت اور عدالتوں پر دباؤ میں اضافہ ہو اور ان کی رہائی ممکن ہوسکے۔ اگرچہ اس نئے احتجاج کے لئے جو تین نکاتی مطالبات سامنے لائے گئے ہیں، ان میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ شامل نہیں ہے۔ بلکہ تحریک انصاف کے اعلان کے مطابق یہ احتجاج اور مارچ ’ مینڈیٹ کی چوری، غیرمنصفانہ گرفتاریوں اور چھبیسویں آئینی ترمیم‘ کے خلاف کیا جارہا ہے۔ تاہم تحریک انصاف کے لیڈروں نے کبھی اس بات کو پوشیدہ نہیں رکھا کہ پارٹی کا بنیادی ہدف عمران خان کو رہا کرانا ہے۔ اب عمران خان نے پارٹی قیادت کی رائے کے بغیر چوبیس نومبر کو احتجاج کرنے اور اسلام آباد کی طرف مارچ کی جو کال دی ہے، اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ عمران خان بھی اب درحقیقت مسلسل قید سے عاجز آچکے ہیں اور کسی بھی قیمت پر رہا ہونے کے خواہاں ہے۔ البتہ وہ اس مقصد کے لیے جو طریقہ اختیار کرتے ہیں، اس کے بارے میں تحریک انصاف کی اپنی قیادت میں بھی اتفاق رائے موجود نہیں ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان میں تحریک انصاف کی قیادت متوازن و معتدل سیاسی راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے لیکن وہ عمران خان کےاحکامات اور بیرون ملک مقیم متحرک عناصر کے دباؤ کے سامنے مجبور ہے۔
یہ بحث کی جاسکتی ہے کہ تحریک انصاف کا احتجاج کرنا کس حد تک سیاسی طور سے درست طریقہ ہے لیکن اس سچائی سے انکار ممکن نہیں ہے کہ احتجاج کرنا کسی بھی سیاسی پارٹی کا بنیادی حق ہے۔ کوئی حکومت یا انتظامیہ کسی قانون شکنی کی بنیاد پر تو کسی لیڈر یا کارکنوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حق رکھتی ہے لیکن اسے یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ کسی پارٹی کو احتجاج کے حق سے ہی محروم کردے۔ اس بار بھی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے جاری ہونے والاحکم نامہ ناقص ، جمہوری اصولوں سے متصادم اور موجودہ نظام کی کمزوری عیاں کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفعہ 144 نافذ کرنے والے حکم نامہ کے مطابق ’پانچ یا اس سے زیادہ لوگوں کے اجتماع پر پابندی ہوگی۔ کیوں کہ اجتماع یا ریلی نکالنے سے امن و امان اور انسانی جان و مال کو خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایسے میں دنگا فساد یا فرقہ وارانہ فساد کا امکان بھی ہے۔ اسی حکم کے مطابق ساؤنڈ سسٹم کے استعمال اور قابل اعتراض یا فرقہ وارانہ تقریریں کرنے کی بھی ممانعت ہوگی۔ سیاسی یا مذہبی و سماجی اشتعال پھیلانے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا ہے‘۔
واضح ہے تحریک انصاف کوئی مذہبی جماعت نہیں ہے اور نہ ہی اس کا احتجاج کسی فرقہ وارانہ یا مذہبی مطالبہ پورا کرانے کے لیے کیا جارہا ہے۔ اس لیے حکم نامہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا عذر پیش کرکے غیر ضروری ہیجان اور سنسنی خیزی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے درحقیقت حکومت کا یہ خوف عیاں ہوتا ہے کہ کوئی بڑا اجتماع اس کی سیاسی ساکھ کو متاثر کرے گا اور اس دباؤ میں شاید موجودہ نظام جاری رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ ملکی معیشت اور دیگر سیاسی و سفارتی عوامل کا حوالہ دے کر اس مؤقف کو جائز یا قابل قبول ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ملک میں جمہوری نظام جاری رکھنا ہی بہتر طریقہ سمجھا جارہا ہے تو اس کے ان تمام پہلوؤں کو بھی قبول کرنا لازمی ہے جو کسی بھی جمہوری نظام کی فعالیت کے لیے ضروری اور اہم ہیں۔ ان میں آزادی اظہار کے علاہ احتجاج و اجتماع کا حق بھی شامل ہے۔ گو رائے کے اظہار یا احتجاج و اجتماع میں متعلقہ قوانین کا احترام کرنا لازمی امر ہوتا ہے اور کسی بھی ذمہ دار شہری یا لیڈر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کوئی ایسی بات زبان پر نہ لائے جو ملکی قوانین سے متصادم ہو یا اس سے دوسروں کے جذبات مجروح ہوتے ہوں۔ اسی طرح احتجاج کے دوران تنظیم اور شہریوں کی سہولتوں کا خیال رکھنا بھی بنیادی اصول کے طور پر مروج ہونا چاہئے۔ البتہ کوئی حکومت محض اس اندیشے پر کہ کسی احتجاج کو روکنے کی ماجز نہیں ہوسکتی کہ اس موقع پر لازمی قانون شکنی ہوگی۔ اگر کوئی پارٹی، گروہ یا افراد متعلقہ پابندیوں یا قوانین کا احترام نہیں کرتے تو انہیں بھی قانون کی گرفت کا علم ہونا چاہئے۔
بدقسمتی سے ملک میں ابھی تک احتجاج منظم کرنے یا اسے قبول کرنے کا ایسا مہذب رویہ رواج نہیں پاسکا۔ اسی لیے ہر گروہ خواہ وہ طاقت کے مدار کے اندر ہے یا اس سے باہر جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری بلکہ غیر مہذب طریقہ و ہتھکنڈا اختیار کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ کسی جلسے ، ریلی یا احتجاجی مارچ میں ذبردستی لوگوں کو اکٹھا کرنا اور پھر اس گروہ کو قانون کی ہر حد توڑنے کے لیے استعمال کرنا ناجائز وغلط طریقہ ہے جس کا مظاہر ملک کی کم و بیش ہر سیاسی و مذہبی جماعت کرتی رہی ہے۔ اسی طرح کسی ناپسندیدہ احتجاج کو روکنے کے لیے راستے بند کرنا، کنٹینر لگانا یا قبل از وقت سیاسی کارکنوں کو گرفتار کرکے ہراساں کرنا اور احتجاج کی کوششوں کو ناکام بنانے کی سعی کرنا بھی ناجائز اور ناقابل قبول طریقہ ہے۔ بدقسمتی سے اس کا اظہار بھی ہر سیاسی حکومت کے دور میں ملاحظہ کیا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ اگر سیاسی جماعتیں ملک میں جمہوری روایت اور باہمی قبولیت کا مزاج عام کرنے کے لیے مل جل کر کام کرنے کی روایت مستحکم کرتیں تو شاید موجودہ سیاسی تقسیم اور نفرت کا ماحول جنم نہ لیتا۔ حیرت اسی بات پر ہے کہ اب بھی مسئلہ کی بنیاد سمجھنے اورا سے بہتر بنانے کی بجائے عارضی ہتھکنڈے دیکھنے میں آتے ہیں۔ جیسے تحریک انصاف لازمی اسلام آباد کی طرف مارچ کرنا چاہتی ہے اور حکومت اسے روکنے کے عزم کا اظہار کررہی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی تصادم ہوتا ہے تو لازمی طور سے اس میں وہی عوام اور شہری متاثر ہوں گے جن کی حفاظت و بہبود کا دعویٰ فریقین یکساں طور سے کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کا بنیادی احتجاج 8 فروری کے انتخابات کی شفافیت کے بارے میں ہے۔ اس حوالے سے اگر پی ٹی آئی کی بات کو درست مان بھی لیا جائے تو بھی اسے تبدیل کرانے کا طریقہ ملکی قانون میں درج ہے۔ ہر متاثرہ پارٹی کو اسی طریقہ کو اختیار کرنا چاہئے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں بھی اپوزیشن پارٹیاں عمران خان کو نامزد وزیر اعظم قرار دیتے ہوئے 2018 کے انتخابات کو جعلی قرار دیتی تھیں۔ لیکن عمران خان نے کبھی ان انتخابات کا آڈٹ کرانے یا اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر ان کے مطالبات سننے کی ضروررت محسوس نہیں کی۔ بالآخر اپوزیشن نے اپریل 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کے آئینی و پارلیمانی طریقے سے ہی تحریک انصاف کی حکومت ختم کی۔ اس فیصلے کےسیاسی پہلوؤں پر بحث ہوسکتی ہے لیکن اسے کسی قانون کے تحت ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عمران خان نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے ذرریعے تحریک عدم اعتماد کو ختم کرنے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن سپریم کورٹ نے اسے غیر آئینی قرار دیا تھا۔
موجودہ حکومت بھی تحریک انصاف کی طرح انتخابات کی تحقیقات کرانے پر رضامند نہیں ہے۔ اس کے علاہ پی ٹی آئی کو الیکشن ٹریبونلز یا عدالتوں سے ایسے فیصلے حاصل کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے جن سے موجودہ حکومت کا خاتمہ ہوجائے اور تحریک انصاف کو اقتدار مل جائے۔ کسی بھی پارٹی کے لیے جس کا اہم ترین لیڈر جیل میں بند ہو اور اسے احتجاج کا موقع بھی نہ دیا جارہا ہو ، یہ صورت حال پریشان کن ہوگی۔ البتہ کسی بھی پارٹی اور قیادت کا امتحان بھی ایسے مشکل وقت میں ہی ہوتا ہے۔ عمران خان پرجوش احتجاج اور آزادی کے بلند بانگ دعوؤں کے ذریعے اس امتحان میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔ البتہ متعدد تجزیہ نگار شاید ان کے طریقہ کار سے متفق نہ ہوں۔ اسی طرح حکومت بھی چاہے تحریک انصاف کے احتجاج کو ناجائز سمجھتی ہو لیکن قانون کے غلط یا اندھادھند استعمال سے اس کا راستہ روکنا غلط ملکی سیاسی ماحول کے لیے مہلک ہوگا۔
تحریک انصاف نے 24 نومبر کے احتجاج کو کامیاب کرنے کے لیے خیبر پختون خوا کے چیف منسٹر ہاؤس کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا ہؤا ہے۔ وہیں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے ہدایت کی ہے کہ صوبائی اسمبلی کا ہر رکن پانچ ہزار اور قومی اسمبلی کا ہر رکن دس ہزار لوگوں کو اسلام آباد پہنچانے کا ذمہ دار ہوگا۔ جو رکن اسمبلی اس میں ناکام رہا اسے مستقبل میں پارٹی کا ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ اپنے ہی کارکنوں اور ارکان اسمبلی کو اس قسم کی دھمکیوں سے بھی اسی بدحواسی کا اظہار ہوتا ہے جو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ذریعے اسلام آباد میں دفعہ144 کے نفاذ کرانے میں دکھائی دیتی ہے۔ گویا دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ ایسے شدت پسندانہ رویوں سے بہتری کی بجائے خرابی کا امکان زیادہ ہے۔
حکومت کو پابندیوں کی پالیسی اور تحریک انصاف کو بہر صورت اسلام آباد بند کرنے کی خواہش پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ جوش کی بجائے ہوش سے کام لیا جائے تو شاید مشکل سے نکلنے کا کوئی قابل قبول حل تلاش کیا جاسکے۔ ورنہ حالات تو شاید تبدیل نہ ہوں لیکن ملک کی مشکلات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ