بھائیوں کی طرح شفیق اور مہربان دوست کا اس دنیا سے چلے جانا ایسا ناقابل تلافی نقصان اور جان لیوا دکھ ہے جس کا بیان ممکن نہیں ۔ وہ چلا گیا ہے اس پر کبھی یقین کر نے کو دل نہیں کرتا مگر ذہن کی جنگ بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ ابھی اس کی عمر ہی کتنی تھی ، آج انٹر نیٹ کھولتے ہی فیس بک پر ایک دوست کا پیغام ملا حسنین رضا حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث خالق حقیقی سے جا ملا ہے۔ ایسے محسوس ہوا جیسے کسی نے سانس روکنے والا سنگین مذاق کیا ہے ، کاش یہ مذاق ہی ہوتا تھوڑی دیر بعد دوسرے دوستوں نے تصدیق کر دی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کیسے انسان حال سے ماضی بن جا تا ہے۔ یقیناً یہ زندگی کی حقیقت ہے مگر کچھ حقیقتیں واقعی زہر کی طرح کڑوی ہوتی ہیں۔ میرے ذہن میں اس اطلاع کے بعد متواتر ایک فلم چل رہی ہے اور میں 2004 میں جا کر آج سے اور لمحہ ء موجود سے مکمل طور پر کٹ چکی ہوں۔ 2004 کا زمانہ جب ایف ایم 103ملتان میں ایک ننھے منھے بچے کی طرح پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایف ایم 103 کی ٹیم مختصر اور ایک خاندان کی طرح تھی، جن کے دکھ سکھ سانجھے تھے۔اس دور نے ہم سب کو دوستی کے لازوال رشتے میں باندھا جو آج بھی موجود ہے۔ شوق اور جنون تو پتہ نہیں کب سے تھا مگر یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران اس کو مزید تقویت ملی اور ایک دن کلاسز کے بعد میں ایف ایم 103 (جو اس وقت ابدالی روڈ پر قائم تھا) جا پہنچی اور نہ صرف صحافتی کیریئر کا باقاعدہ آغاز کیا بلکہ پرخلوص، محبتوں بھرے، شفیق، مددگار اور ریاکاری سے پاک نئے رشتے بھی میرے حصے میں آئے،جو نہ صرف مجھے رپورٹنگ کی تربیت دیتے تھے بلکہ عملی طور پر بھی معاون تھے۔ ناتجربہ کاری کے باعث کام میں غلطیوں کی بھر مار ہوتی تھی مگر مجال ہے جو کسی کے ماتھے پر ایک بل بھی پڑتا ہو۔ شرارتوں، مسکراہٹوں اور خلوص کے ساتھ کام پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا تھا۔ ان رشتوں میں ایک رشتہ ایف ایم 103 کے پر وڈکشن مینجر حسنین رضا کا بھی ہے۔ جس نے ہر قدم پر میری رہنمائی کی۔ ایک دوست اور بھائی کی حیثیت سے۔ برسوں قبل جو رشتہ ایف ایم 103 نے ہمارا بنایا تھا گوہر بھائی کی زیر قیادت ہم سب ایک ساتھ دوپہر کا کھانا ایسے کھاتے تھے جیسے ایک گھر میں کھایا جاتا ہے۔ تقریباً 6 ماہ تک میں ایف ایم 103 میں کام کرتی رہی ،مگر اپنے خاندان سے 12 سال بعد بھی اسی طرح وابستہ ہوں اگرچہ وقت نے سب کو اپنے اپنے شعبہ جات میں مصروف کر دیا مگر بھولنے نہیں دیا مہینوں اور برسوں بعد بھی ہم ایسے ملتے تھے جیسے ابھی کل ہی تو ملے ہوں۔ میری زندگی کا سرمایہ میرے خاندان میں حسنین رضا بہت اہم تھا۔ جب بھی ایف ایم جاتی تھی حسنین بھاگ کر آتا تھا۔ شہر میں جہاں ملتا اس کا خلوص میری آنکھیں نم کر دیتا تھا۔ حسنین رضا آج ہم سب کو چھوڑ کر اپنی اصل جگہ چلا گیا، مگر اس کی کمی مجھے ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔ وہ بات بات پر اپنی اہمیت نہیں جتاتا تھا ۔آگے بڑھنے کیلئے کسی کے راستے کھوٹے نہیں کرتا تھا ۔بس خاموشی سے اپنا کام کرتا تھا۔ اس کا مذاق بھی انتہائی شستہ ہوتا تھا، بس ہر وقت ایک مسکراہٹ اس کے چہرے پر رہتی تھی جو اس کی خوبصورتی تھی۔ اس سب سے ہٹ کر بہت گہرا انسان بھی تھا ہمیشہ سوچتا رہتا تھا، زندگی کی رعنائیوں اور تلخیوں سے بیک وقت واقف تھا۔ ابھی اس کی عمر نہیں تھی جانے کی اور 34 سال میں وہ ہمیں چھوڑ گیا۔ کاش یہ جھوٹ ہو اور کوئی کہہ دے حسنین ایف ایم کے پروڈکشن روم میں سگریٹ پیتے ہوئے رات گئے شب دوستاں پروگرام کر رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے اس کے تینوں بیٹے ہی یتیم نہیں ہوئے میں بھی ایک غم گسار سے محروم ہو گئی ہوں۔ جانے والوں کو کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ میرے دوست، میرے بھائی تمہارے خلوص اور شفقت کی مقروض ہوں ،میں آج جو کچھ ہوں تمہاری حوصلہ افزائی کی وجہ سے ہوں۔ تم جیسے گوہر بھائی جیسے اسرار، عامر، یونس، سنیل جیسے بھائیوں اور جاوید حسین جیسے دوست عینی اور آصفہ جیسی بھابھی جس کی زندگی میں ساتھ ہوں وہ ہزار بار ٹوٹ کر بھی نہیں ٹوٹتا نہ ناکام ہوتا ہے۔
ہاں تم جیسے اچانک ساتھ چھوڑ کر مجھے توڑ گئے ۔ بہت ظلم کیا تم نے حسنین ۔۔ بہت ظلم کیا کاش کوئی آ کر مجھے یہ کہہ دے کہ یہ سب جھوٹ تھا تم ماضی نہیں بنے ۔ لیکن ماضی بن جانے والے حسنین تم کیا جانو ہم اب کس حال میں ہیں؟
فیس بک کمینٹ