بھٹو جسے 4 اپریل کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تاکہ اس کا نام ونشان ختم کیا جا سکےاس کے باوجود وہ آج بھی زندہ ہے۔وہ بھٹو جس کا نام ذوالفقار تھا۔جو شہید جمہوریت کہا جاتا ہے ۔وہ بھٹو جسے پاکستان کے مزدور کی آواز کہلا یا جاتاتھا۔وہ بھٹو جس کے ہر جلسے میں ایک ہی نغمہ بلند ہوتا تھا اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخ امراء کے درو دیوار ہلا دو۔جس نے اس ملک کے غریب ،بھوکے ننگے،بےچھت اور بے سر وسامان لوگوں کو روٹی کپڑا مکان کا نعرہ دیا ۔وہ نعرہ اس بھٹو کی پہچان بنا اور دنیا بھر میں مقبول ہوا۔ا س ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والا بھی وہی بھٹو تھا۔اسلامی سربراہی ممالک کی عزت نفس کی بحالی میں بھی اسی بھٹو نے کردار ادا کیا۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب بھٹو غریب کا رہنماء اورجمہوریت کا واحد کارکن تصور کیا جانے لگا۔پھر جو ہوا تاریخ رقم کرنے والے اسے جیسے بیان کر تے ہیں ۔اس کے حقائق بتاتے ہیں کہ صرف بھٹو کو پھانسی دے کرصف ہستی سے نہیں مٹایا گیا بلکہ غریبوں اور جمہوریت کے واحد وارث کو بھی ہمیشہ کیلئے مٹایا دیا گیا۔آج بھی لوگ کہتے ہیں بھٹو زندہ ہے مگر میری نظر میں بھٹو صرف اس وقت تک زندہ رہا جب تک اس کی پنکی جس کا اصل نام بےنظیر تھا۔اپنے باپ اور لیڈر کے نظریہ کو لے کر چلتی رہی ۔جو واقعی بے نظیر تھی ۔ اس ملک کی ہر عورت،ہر مظلوم، جمہوریت، اسلامی دنیا کی بہترین رہنماء اور حکمرانی میں اس کی نظیر کبھی نہیں مل سکتی۔پنکی اس قوم کیلئے بھٹو کا تحفہ تھی ۔یہ اسی بھٹو کا تذکرہ ہے جس کی جوشیلی تقاریر لوگوں کے جذبات بھٹرکاتے ہو ئے انہیں اپنے ہونے کا احساس دلاتی تھی۔جو بڑے بڑے افسانوں کو حقیقت بنانا چاہتا تھا مگر اسے خود افسانہ بنا دیا گیا۔وہی بھٹو جو ہاری ،کسان اور عام آدمی کا نمائندہ کہلا یا جاتا تھاجو سرمایہ کار کا باغی تھا۔جس کے فلسفہ کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی پا کستان کی اہم سیاسی جماعت ہے اور جیالے ایک ہی نعرے سے اپنے جوش کو گرماتے ہیں۔کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے۔کاش ایسا ہوتا بھٹو کو ہم واقعی زندہ رہنے دیتےتو کسی بھٹو کو کوئی کبھی نہ مارتا اور ہر گھر سے بھٹو نکلنے کی بجائے ہاری ،کسان اور مزدور نکل کر عزت نفس کے ساتھ اپنی اور ملکی معیشت کومضبوط کر رہے ہوتے نا کہ سرمایہ کار ان کی زرخیز زمین بنجر کرتے ہوئے قابض ہوتے۔پیپلزپارٹی کے وارثوں سے معذرت کےساتھ اانتہائی دلگرفتی میری ناقص عقل کے مطابق آج بھٹو زندہ نہیں ہے اور نہ ہی اب ہو سکتا ہے۔بھلا ہو بھی کیسے کہ اس کے نظریہ کو لے کر چلنے والے بے نظیر کے بعد مجھے اس طرح فعال نظر نہیں آئے جیسے ہونے چاہیئے تھے ۔بھٹو ،بھٹو کا نظریہ،جیالے اور اوپر بیان کی گئی تمام باتیں خواب وخیال بن چکے ہیں۔بھٹو کے زندہ ہونے کے مذاق کا دکھ نہ جانے آنے والے تاریخ دان اپنے صفحات پر کتنی سنگینی سے بیان کریں گے اور آنے والی نسلیں اسے کیسے لیں گی۔مگر مجھے تو دکھ صرف بھٹو کے مرنے اور مرنے سے زیادہ اس کے سچے نظریہ کو جھوٹ بنتے دیکھ کر ہوتا ہے۔کاش کوئی تو میرے غریبوں کو امید دلائے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرے۔بس اتنا ہے کہ بھٹو کے لفظ سن کر اسے بھولنا ناممکن ہے ۔کیسے کیسے ہم نے مٹی میں ملا دیئے اور ملائیں گے نجانے یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔بھٹو ہم شرمندہ ہیں۔۔تم ہاری ،کسان اور مزدور کی بجائے سرمایہ دار کی آواز بنتے تو شائد آج بھی زندہ ہوتےبھلا کوئی کسی غریب و محروم کی آواز بھی بنتا ہے۔
فیس بک کمینٹ