کئی ماہ سے جاری بحث اپنے اختتام کو پہنچ گئی، بالآخر امریکی صدر ٹرمپ نے اپنا فیصلہ صادر کردیا کہ ” وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کوختم کر رہے ہیں اور ایران کے خلاف مزید پابندیاں عائد کی جائیں گی ۔انہوں نے واضح طور پر کہا کہ دنیا اس بوسیدہ اور تباہ کن معاہدے کے تحت ایرانی جوہری بم کو نہیں روک سکتی۔ صدر ٹرمپ نے مز ید کہا کہ جو ملک ایران کے جوہری پروگرام میں مدد فراہم کرے گا امریکہ اس کے خلاف بھی سخت پابندیاں عائد کرے گا۔ان کا موقف ہے کہ ایران معاہدہ سرے سے ہی ناقص ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ 2015 میں ہونے والے معاہدے کے تحت ایران پر سے اٹھائی جانے والی معاشی پابندیاں دوبارہ سے عائد کی گی۔ تاہم امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق تیل کی خرید و فروخت پر پابندیاں چھ ماہ بعد لگائی جائیں گی جبکہ دیگر پابندیوں کا نفاذ90 دن کے بعد ہوگا۔
ٹرمپ کے اس اعلان نے دنیا کے امن پسند راہنماﺅں میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس اعلان پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتونیو گوتریز نے امریکہ کو انتباہ کیا ہے کہ وہ ایران جوہری معاہدہ سے باہر نہ نکلے کیونکہ ایسا کرنے سے ایک نئی جنگ چھڑ نے کا خطرہ ہے۔دنیا ٹرمپ کے اس اعلان کے متعلق کیا سوچتی ہے،
ایران جوہری معاہدے میں شامل دیگر ممالک نے صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کو مایوس کن قرار دیا ہے۔فرانسیسی صدر امانوئل میکخواں نے اس امریکی فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ’فرانس جرمنی اور برطانیہ کو اس امریکی فیصلے سے ’مایوسی‘ ہوئی ہے۔جبکہ برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کا جوہری معاہدے سے نکلنے کا فیصلہ ’افسوسناک ہے انہوں نے اپنے اس عزم کو دہرایا کہ برطانیہ فرانس اور جرمنی کے ساتھ مل کر یہ معاہدہ برقرار رکھے گا۔دیگریورپی ممالک کا موقف ہے کہ ایران جوہری معاہدہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی راہ پر چلنے سے باز رکھنے میں بہترین معاون و مددگار ہے۔
تاہم سعودی عرب اور اسرائیل نے امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے کی تائید کی ہے اورکہا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل صدر ٹرمپ کے فیصلے کی ’قدر‘ کرتے ہیں۔امریکہ میں سعودی سفیر نے کہا ہے کہ سعودی عرب امریکی صدر کی جانب سے لیے جانے والے فیصلے کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ سے ہی ایران کی خطے میں دہشت گردی کی حمایت، بیلسٹک میزائل پروگرام پر خدشات تھے۔‘
امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے جنوری میں اعلان سامنے آیا تھا کہ یورپی ممالک اس معاہدے کی تباہ کن خامیوں کو دور نہ کیا تو 12 مئی کو امریکہ معاہدے سے نکل جائے گا۔صدر ٹرمپ ماضی میں اس معاہدے کو ’تباہی‘ اور ’پاگل پن‘ قرار دیے چکے ہیں۔
دوسری طرف ایران نے صدر ٹرمپ کے اس اعلان کو دنیا کے امن کو تباہی سے دوچار کرنے کی طرف لیجانے والا اقدام قراردیا ہے،ایران جس کاموقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن ہے اوراس نے واضح کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے پانچ مستقل ممالک اور جرمنی کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ اگر امریکی صدر نے دوبارہ پابندی عائد کی تو اس کے ’خطرناک نتائج‘ ہوں گے۔ اور اگر پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کی کوشش کی گئی تو ایسی صورت میں ایران یورینیئم کی افزودگی بڑھا دے گا۔ان کا کہنا ہے کہ ایران اس فیصلے کا اعلان کرنے سے قبل چند ہفتے انتظار کرے گا اور 2015 کے معاہدے میں شامل دیگر ممالک برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس، چین اور یورپی یونین کے ساتھ بات کی جائے گی۔ایران کے وزیرا خارجہ نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کو ختم کرتا ہے تو اسے ’سنگین صورتحال‘ میں تہر ان کے جوہری معاہدے کو جبراً تسلیم کرنا پڑے گا۔
عالمی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کو اس قسم کے فیصلے کرنے میں آمادہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ اربوں کھربوں ڈالر کی اسلحہ خرید نے کے معاہدے ہیں۔عرب ممالک خصوصا سعودی عرب کو اسرائیل کے قریب لانے میں ایران کا خوف ہے اس لیے اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک بھی صدر ٹرمپ کے ہمنوا بن رہے ہیں۔
میرے خیال میں امریکہ کو اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اور برطانیہ،جرمنی سمیت دیگر ممالک کے موقف پر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور کرنا چاہیے کیونکہ وہ امریکہ سے کہیں زیادہ دنیا کے امن کو عزیز رکھتے ہیں اور وہ بھی ہرگز نہیں چاہتے کہ ایران اقوام عالم کے امن کے لیے خطرہ بنے۔ جنگ کسی بھی مسلے کا حل نہیں ہوتی کیونکہ جنگ کے بعد بھی بالاآخر مذاکرات ہی ہوتے ہیں۔
امریکی صدر کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی ہوگی ہے کہ اب ” دنیا بدل رہی ہے“ روس اور چین میں فاصلے سمٹ رہے ہیں، ایران ،پاکستان اور روس چین کے ساتھ ملکر نئے اتحاد کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جن کے پاس ویتو پاور بھی ہے وہ ایران جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے کے حق میں ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ پانچ ممالک متحد ہوکر اس کی طرف سے معاہدے کو ختم کرنے اور نئی پابندی ایران پر لگانے کی قرارداد کو ”ویٹو“ کردیں بلکہ الٹا یہ ممالک اس کے خلاف پابندیا ں نہ عائد کردیں۔ امریکی صدر دنیا کی واحد سپر پاور کے سربراہ ہیں اس لیے دنیا کو امن و سکون فراہم کرنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری بھی اسی کی ہے۔انہیں چاہیے کہ وہ ایران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے کی پاسداری کرکے اپنے پرامن ہونے کا ثبوت دے۔ورنہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو ختم کرنے پر امریکہ کو پچھتانہ پڑے گا۔
فیس بک کمینٹ