آصف زرداری کیا دور کی کوڑی نکال کے لائے ہیں کہ علامہ قادری کی صورت میں نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کی کمی پوری ہوگی۔ اس پر ایک دوست نے کیا خوب تبصرہ کیا کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی۔ آمروں سے ٹکرانے والے نوابزادہ مرحوم اور آمروں سے تعاون کرنے والے علامہ قادری کا کیسا موازنہ۔ شاید زرداری صاحب نوابزادہ نصراللہ خان کی فوجی آمروں جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰ، جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد کو بھلا چکے ہیں۔
علامہ قادری تو فوجی ڈکٹیٹروں کے خلاف جمہوری جدوجہد سے کوسوں دور رہے۔ وہ آمرانہ ادوار میں مذہبی تبلیغ کے بہانے بیرون ملک پر سکون اور چین کی نیند سوتے رہے۔ قادری صاحب نے غاصب آمروں کے خلاف کلمہ حق بلند کرتے ہوئے ایک رات بھی سلاخوں کے پیچھے نیہں گزاری جبکہ نوابزادہ مرحوم نے جمہوری حقوق کے حصول کی خاطر کئی سال جیلوں کی نظر کر دیئے۔ پاکستان کے جمہوریت پسند عوام، سیاسی جماعتیں اور سیاسی کارکن جمہوریت کی بحالی کے جرم میں جیلوں، پولیس تشدد اور عقوبت خانوں میں مظالم سہتے رہے۔ جبکہ علامہ صاحب آمرانہ ادوار میں حاکموں کے تعاون سے اپنے مذہبی اداروں کی تنظیم اور طاقت میں اضافہ کرنے میں مشغول رہے۔ زرداری صاحب کی یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ نوابزادہ نصراللہ مرحوم تو کئی بار انتخابی عمل کا حصہ رہے۔ متعد بار پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ ان کا آئین، جمہوریت اور جمہوری عمل پر غیر متزلزل ایمان تھا۔ اس کے بر عکس قادری صاحب تو آئین، جمہوریت اور جمہوری عمل پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کی جماعت اور وہ خود انتخابات میں حصہ لینے سے پر ہیز کرتے ہیں۔ پرویز مشرف کے تعاون سے ایک بار الیکشن میں صرف اپنی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے مگر بعد ازاں مستعفیٰ ہو کر کینیڈا جا بسے۔ علامہ صاحب کے سیاسی عزائم کا کھوج لگانا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کیوں اور کس کے اشارے پر یکدم ملک میں وارد ہو کر عدم استحکام پیدا کرنے میں جت جاتے ہیں۔
مگر یہ سمجھنامشکل نہیں کہ علامہ طاہر القادری پاکستانی آئین، جمہوری تسلسل اور الیکشن کے زریعے جمہوری تبدیلی پر یقین نہیں رکھتے۔ مشرف کے خلاف جمہوری تحریک کے دوران علامہ ملک سے ہزاروں کلومیٹر دور کہیں چھپے رہے۔ مشرف کے آمرانہ دور کے خاتمے کے بعد برآمد ہوئے اور منتخب جمہوری حکومت کے خلاف بر سرپیکار ہو گئے۔ پہلے پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ نواز کی حکومت کے خلاف دھرنوں کے ذریعے جمہوری حکومتوں کو عدم استحکام کا شکار کرنے میں مصروف رہے۔ قادری صاحب ملک کے کمزور جمہوری نظام کو تہس نہس کرکے کس قسم کا انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں۔ اب تک پاکستان کے عوام اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اب علامہ کی قیادت میں لاہور میں لیگی حکومت گرانے کے لئے آخری سیاسی معرکہ برپا ہونے والا ہے۔ اس معرکہ میں علامہ کی اتحادی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف آئیندہ انتخابات میں پنجاب میں اپنی انتخابی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لئے داؤ پیچ کھیلنے میں مصروف ہیں۔ یہ جماعتیں یقینا نہیں چاہیں گی کہ لاہور میں برپا ہونے والے ‘پانی پت‘ کے آخری سیاسی معرکے میں حالات اس قدر بگڑ جائیں کہ کوئی طالع آزما بگڑتی نازک صورت حال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔ اگر دھکا دے کر حکومت کو کنویں میں گرایا گیا تو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بھی حکومت کے ساتھ اسی اندھے کنویں کی نظر ہو جائیں گی۔ علامہ صاحب تو کرامات دکھانے کے ماہر ہیں، نظر سے ایسے اوجھل ہوں گے کہ ڈھوندنے سے بھی نہیں ملیں گے۔
جنوری 2018 میں پیدا کیا جانے والا ممکنہ سیاسی بحران پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی سیاسی بالغ نظری کا امتحان ہوگا۔ علامہ ان جماعتوں کو اپنے عزائم کے لئے استعمال کرکے غیر جمہوری قوتوں کے لئے راستہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یا پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دیگر جماعتوں کے تعاون سے آئیندہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ مستقبل قریب میں اس کا فیصلہ ہونے والا ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ