میرے لیے یہ لمحہ انتہائی خوش کن ہے کہ میرا ایک پنجابی گھرانے سے تعلق ہے، پرورش ملتان کے ماحول میں، پڑھنے لکھنے کے لیے رابطہ کی زبان اُردو ٹھہری اور مَیں آج کے۔پی۔کے کے خوبصورت شہر میں موجود ہوں جہاں کی فضا¶ں میں خوشحال خان خٹک کی شاعری کی خوشبو مہکتی ہے۔ مَیں اپنے دامن میں خواجہ غلام فرید کی وہ کافی لے کر آیا ہوں جس میں وہ کہتے ہیں کہ:
آ چنڑوں رَل یار – پیلوں پکیاں نی وے
جبکہ دوسری جانب میرے کانوں میں صبح سویرے جب ”الف اﷲ چنبے دی بوٹی میرے مَن وچ مرشد لائی ہو“ کی آواز پڑتی ہے تو جی چاہتا ہے کہ اپنے مرشد سے من لگا کر پوچھوں کہ مجھے میرے مَن کی مراد کب ملے گی۔ مَیں ملتان کا وہ باسی ہوں جو ہر وقت اپنے ملتان کی گرد کے درمیان سانس لیتا ہوں، ملتانیوں کی محبت کی گرمی و ملتانی زبان کی مٹھاس کی محبت کا گدا بن کر جب گلی کوچوں میں جاتا ہوں تو کہیں پر میری ملاقات حضرت شہباز قلندر کو ماننے والے دھمالیوں سے ہو جاتی ہے جو جھولے لعل بیڑا پار کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو کبھی کسی جگہ پر بلھے شاہ کی یہ شاعری مجھے مزید جینے کے لیے مجبور کرتی ہے:
آپے لائیں کنڈیاں – تے آپے کھنچائیں ڈور
ساڈے وَل مکھڑا موڑ
عرش کرسی نے بانگاں ملیاں – مکے پَے گیا شور
بلھے شاہ اَساں مرنا ناہیں مر جاوے کوئی ہور
ساڈے وَل مکھڑا موڑ
کسی سوہنے من موہنے مکھڑے کو چشمِ تصور میں دیکھتے دیکھتے جب ہم کسی بھی زبان کے ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ محبت میں زمان و مکان کا تصور تو بے معنی ہے۔ اسی طرح جب ہم ملکی ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں تو اس کی بنیاد تو اہلِ علم نے اس وقت رکھ دی تھی جب ایک ملک سے دوسرے ملک لکھنے والے سفر کرتے تھے۔ اسی دوران وہ اپنے تجربات کو شاعری اور نثر کے ذریعے محفوظ کر لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے جب ہم برصغیر کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو کبھی بھی کسی حاکم، دانشور، صوفی اور سیاستدان کو مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا کہ ان کے سامنے ادب کے ایسے فن پارے موجود ہوتے تھے جس کے بعد انہیں مہر و وفا والے لوگ مل جاتے تھے۔ یہ ادب ہی تو ہے جو انسان دوستی کا پیغام دیتا ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کوئی بھی ادب انسان دوستی کی محبت کی بنیاد ہے۔ یہی ادب آگے جا کر ہم آہنگی کے پیغام کو پھیلاتا ہے۔
کیا ادب کیا علم کیا اخلاق کیا تہذیب و فن
کتنی کرنوں کا اُفق کتنے اُجالوں کا وطن
ہر سفر میں اہلِ دانش کی قیادت اس نے کی
عہد اندر عہد ذہنوں کی اِمامت اس نے کی
آج بھی جاری ہے تابندہ روایات کا سفر
اب بھی آغوشِ صدر ہے پرورشِ گاہِ گُہر
کیا ادب کیا علم کیا اخلاق کیا تہذیب و فن
جس طرح تہذیبوں اور دریا¶ں کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے اور دریا کی گزرگاہ کی طرح تہذیب بھی ویسے اثرات رکتھی ہے۔ حتیٰ کہ زبان و بیان کا لب و لہجہ بھی مانوس لگتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر پنجاب کے دریا¶ں کا سنگم ہیڈ پنجند پر جمال پاتا ہے تو کمال کی بات ہے کہ دریائے سندھ کے تمام معاون دریا بھی اپنی تہذیبوں کے ساتھ آپ میں ملتے ہیں۔ جب تمام دریا اپنی اپنی تہذیبوں کے ساتھ ایک دوسرے میں ملتے ہیں تو ا س کی خوشبو سے پاکستانیت کو نکھار ملتا ہے ہم آہنگی کا پیغام ملتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب ہو یا تہذیب یہ جب بھی ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوتے ہیں تو پیغام عشق و محبت کا ہی اُبھرتا ہے۔ اسی طرح جب ہم مختلف زبان و ثقافت کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر زبان کے ادب کا اپنا رنگ ہوتا ہے جو اپنی ثقافت اور اپنی مٹی کے ساتھ اس طرح جڑا ہوتا ہے کہ ہم آہنگی کے تمام تقاضے پورے ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح جب لاہور میں دسویں سارک رائٹرز کانفرنس کا انعقاد ہوتا ہے تو اس کے اعلامیہ میں کہا جاتا ہے:
”سارک کے تمام اہلِ قلم امن، یگانگت اور رواداری و محبت کے فروغ کے لیے تاریخی، ثقافتی اور سماجی رشتوں کو مضبوط بنائیں گے۔ قومی ہم آہنگی کو فروغ دیں گے۔ ہمارا پختہ یقین ہے کہ مکالمے اور ادب کے ذریعے معاشرتی تفاوت کو ختم کر کے افہام و تفہیم کی فضا پیدا کی جا سکتی ہے۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیاءکے عوام اپنے حقوق اور ہماری ضروریات کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کے خواہش مند ہیں اور اہلِ قلم کی تخلیقات اس پر شاہد ہیں۔ حصولِ مقصد کے لیے تجزیاتی اور تحقیقی تحریروں کا تبادلہ ایک دوسرے کو سمجھنے اور اپنا پیغامِ محبت آگے پہنچانے کے لیے بہت معاون ثابت ہو گا۔“
اسی طرح کسی نے پکاسو سے ایک مرتبہ کہا تھا کہ تم جو تصویریں بناتے ہو وہ سمجھ نہیں آتی ہیں۔ تو اس نے جواب دیا تھا کہ تم چڑیا کا گانا سمجھتے ہو؟ شاکر علی کے متعلق انتظار حسین نے زمانہ جنگ میں لکھا کہ باہر بم گر رہے ہیں اور شاکر صاحب گھر میں بیٹھے پھول اور چاند کی تصویریں بنا رہا ہے۔ جواب میں شاکر علی نے کہا مَیں نے اپنے سٹوڈیو کو بلیک آ¶ٹ کر کے پھول اور چاند کی تصویریں اس لیے بناتا ہوں کہ میرا ایمان ہے کہ پھول تو ہندوستان میں بھی کھِلتے ہیں اور پاکستان میں بھی۔ چاند تو میرے بزرگوں کی قبریں جو رام پور میں ہیں وہاں بھی چمکتا ہے اور یہاں جو بزرگ دفن ہیں ان کی قبروں پر بھی۔ اس لیے میری جو تخلیقات ہیں وہ بھی جنگ کے دنوں میں ہم آہنگی کا اظہار کرتی ہیں۔
قومی ہم آہنگی میں ادب کا کیا کردار ہے؟ اس کی مثال ہم یوں بھی دے سکتے ہیں کہ چند افراد ایک نشست میں موجود ہیں۔ جس کو ہم وحدت کا نام دیتے ہیں۔ ان افراد میں ہر شخص ایک دوسرے سے مختلف مزاج رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم اس گھر کے مجموعی مزاج کا تعین کر سکتے ہیں۔ اس میں باہمی فرق کو ملحوظ نہیں رکھا جائے گا بلکہ اس مخصوص رویہ کی نشاندہی کی جائے گی جس سے اس گھر کا مزاج عبارت ہے۔ اس مثال کو اگر ہم اپنے وطنِ عزیز کے حالات پر اپلائی کریں تو پنجاب، کے۔پی۔کے، سندھ اور بلوچستان کے درمیان تھوڑا بہت ثقافتی فرق ہونے کے باوجود بحیثیت مجموعی ایک ادبی و ثقافتی ہم آہنگی موجود ہے جو وحدتِ ملی کو جوڑ کے رکھتی ہے۔
ماضی میں اگر ہم دیکھیں تو حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری، حضرت میاں میر، حضرت شاہ حسین، بابا بلھے شاہ، حضرت شاہ شمس سبزواری کے کلام و افکار نے انسان دوستی کی مثالیں قائم کی ہیں اس سے قومی ہم آہنگی کے فروغ کی بنیاد رکھی گئی۔ اولیائے کرام کا ادبِ عالیہ اگرچہ مختلف زبانوں کے ذریعے ہم تک پہنچا لیکن اس نے ایک ایسے کلچر کو عام کیا جس سے ہم آہنگی کو فروغ ملا۔ اسی طرح جب ہم امیر خسرو، میر درد، میر تقی میر، غالب، اقبال اور مومن کے ادوار کو دیکھتے ہیں تو ہر دور ہمیں اپنے اپنے لحاظ سے روشنی کا مینار نظر آتا ہے۔ جب ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں تو ہر نئی جگہ پر نئی زبان ہمارا استقبال کرتی ہے۔ ہر زبان کے کئی روپ ہوتے ہیں اور زبان کی کوکھ سے ادب جنم لیتا ہے۔ لوک گیت، لوک رومان، لوک کہانیاں اور پھر دوسرا ادب۔ خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں یہ چیزیں اپنی اصل میں زندہ رہتی ہیں لیکن جیسے جیسے شہر آباد ہوتے ہیں تو اس خزانے میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ جس کے بعد ایک نئی تصویر بنتی ہے جس کو ہم ایسا گلدستہ کہہ سکتے ہیں جو خوشبو اور رنگوں سے سجا ہوتا ہے۔ جیسے ہی گلدستے سے پھول جدا ہوتا تو حسن بدصورتی میں بدل جاتا ہے۔ یہاں پر ادیب کا فرض بنتا ہے کہ وہ نہ صرف گلدستے کو بکھرنے سے روکے بلکہ اس کی اصل حالت کو بھی برقرار رکھے۔ ایک مرتبہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے کہیں لکھا:
”مَیں نے تمام عمر اُردو زبان کو ذریعہ اظہار بنایا۔ کتابوں اور مضامین کے ڈھیر لگائے لیکن مَیں گھر میں اُردو بولو تحریک کا حامی نہیں بلکہ مجھے اس سے چِڑ ہوتی ہے کیونکہ پنجابی میری مادری زبان ہے اور پیار مادری زبان ہی میں ہو سکتا ہے۔ پھر اُردو بولتے بولتے تھکن سی ہو جاتی ہے لیکن پنجابی بولتے ہوئے تھکن نہیں ہوتی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اُردو اور فارسی شاعری کے اساتذہ کے کلام سے لطف اندوز ہونے کے باوجود جب پنجابی کا لوک گیت سنتا ہوں تو اس سے دل کے تار چھِڑ جاتے ہیں۔“
ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کی اس بات میں بھی مادری زبان سے محبت کا پیغام ملتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اُردو اور فارسی سے محبت کرتے دکھائی دیتے ہیں یعنی زبانوں کی ہم آہنگی کے وہ بھی قائل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر مختلف زبانوں کے ادب میں ہم آہنگی ہو گی تو قومی یکجہتی کو فروغ ملے گا۔ ادب چونکہ ہر دور میں زندگی کے نئے رنگ دکھاتا ہے۔ خواہ وہ رنگ شاکر علی نے بلیک آ¶ٹ کے زمانے میں دکھائے ہوں یا وہ رنگ ہمارے اہلِ قلم نے زمانہ¿ امن میں اپنے ادب کے ذریعے قرطاس پر بکھیرے ہوں۔ ان سب کا ایک ہی پیغام رہا کہ قومی ہم آہنگی کو اگر ہمیں فروغ دینا ہے تو ہمیں پاکستان کے ہر خطے کے ادب کو قومی دھارے میں لانا ہو گا۔ صوبائی تعصبات سے باہر آ کر سوچنا ہو گا۔ آج کے حالات کے پس منظر میں ادب ہی واحد ذریعہ ہے جو ہمیں زندگی دے سکتا ہے اور قوم کو متحد اور منظم کر سکتا ہے۔
(پشاور میں اکادمی ادبیات کے زیراہتمام منعقدہ اہل قلم کانفرنس میں پڑھاگیا )
فیس بک کمینٹ