علامہ قادری کی آنیایاں جانیاں کے کیا کہنے مگر یوں ہی کسی نے علامہ کو پاکستانی سیاست کا عجوبہ کہہ ڈالا۔ مسلسل ناکامیوں کے باوجود علامہ محترم اچھل اچھل کر مولا جٹ اور نوری نت کی طرح بڑے بڑے دعوے کرکے اچانک کینیڈا اڑنچھو ہو جاتے ہیں۔ پھر کسی خاص موقع پر بلا ندامت اور شرمندگی اپنا درشن کرانے لوٹ آتے ہیں۔علامہ پرانے اور تجربہ کار سوداگر ہونے کے باوجود ایک ہی طرح کا مال بار بار بیچنے چلے آتے ہیں۔ وہی بوسیدہ مال ہر بار اور قیمت پہلے سے بڑھ چڑھ کر۔ اب کیا کریں خریدار بھی تو سیانے ہو چکے ہیں۔ ایک بار سچ مان کے دھوکا کھالیا، دوسری بار طفل تسلی سے بہل گئے، تیسری بار ناک بند کرکے بوسیدہ مال چکھ کر پیچھے ہٹ گئے۔ چوتھی دفعہ بوسیدہ مال اتنا گل سڑ چکا تھا کہ خریداروں نے بدبو سونگھ کر دور رہنے میں عافیت جانی۔ عوام تو پہلے بھی ان کے قریب آنے سے پرہیز کرتے تھے حد تو یہ ہوئی کہ 17 جنوری کو علامہ کے جانثار کارکن بھی ان سے بے وفائی کر گئے۔ علامہ تو زردای اور خان کو بے وفائی کا طعنہ دینے کے قابل بھی نہیں رہے۔ مگر پے در پے پسپائی علامہ کے حوصلے کو پست نیہں کر سکتیں۔ وہ اعلیٰ پائے کے سوداگر ٹھہرے۔ فورا نئی حکمت عملی کا اعلان کر دیا۔ اب ماڈل ٹاؤن کے مقتولوں کو انصاف دلانے کے لئے قانونی اور عدالتی محاذ پر جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔ اور پھر تلوار ٹوٹ گئی اور علامہ کینیڈا اڑ گئے۔
ماڈل ٹاون لاہور میں سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں نہتے لوگوں کو زندگیوں سے محروم ہونا پڑا۔ اس میں قطعا دو رائے نیہں کہ صوبے کا وزیر اعلی شہباز شریف اور سیکورٹی اداروں کے ذمہ داران خون ناحق پر جواب دہ ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ علامہ نے ہر اس فورم کا بائیکاٹ کیا جو قاتلوں تک پہنچنے اور انہیں عدالت کے کٹہرے میں لانے میں مددگار ثابت ہو سکتا تھا۔ علامہ نے لاہور ہائی کورٹ عدالتی کمیشن کا بائیکاٹ کیا، تفتیشی عمل میں شامل ہونے سے انکاری رہے۔ اب عدالتی کمشن کی مرتب کردہ رپورٹ کی تعریف کرتے نہیں تھکتے اور انصاف کے لئے قانونی لڑائی کا خیال بھی در آیا ہے۔ پانچ سال بیت گئے قادری اور خان کو چیختے چلاتے اور دھرنے دیتے، نہ پارلیمنٹ تحلیل ہوئی، نہ حکومت گری، نہ ٹیکنوکریٹ طویل مدتی عبوری حکومت معرض وجود میں آئی، نہ فوج نے حکومت کو گرانے کے لئے خان قادری گٹھ جوڑ کی ہا ہا کار پر توجہ دی۔ موجودہ پارلیمںٹ پر لعنت بھیجنے والے خان اور ان کی جماعت ابھی تک اسی پارلیمنٹ کا حصہ اور اپنے ‘لعنتی‘ سینیٹرز اسی ‘لعنتی‘ سینٹ میں پہنچانے کی تیاریوں میں مصروف۔قادری نہ تو آئین پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی الیکشن اور پارلیمنٹ پر۔ انہیں جمہوریت، جمہوری اداروں اور سول بالادستی سے کوئی دلچسپی معلوم نیہں ہوتی۔ چند ہزار منظم کارکنوں کو آگ میں بار بار جھونک کر اور جمہوریت کو غیر مستحکم کرکے قادری کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسے عوام تو کبھی نہیں سمجھ پائے۔ اب تو علامہ کے جانثاروں نے بھی انہیں شک کی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ شاید علامہ کو احساس ہونے لگے کہ اب ان کی چھابڑی میں پڑا مال بوسیدہ ہو چکا ہے۔ اب باسی سودے کے خریدار انہیں نہیں ملنے والے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ