فیض صاحب تو شاید یہ حسرت ہی دل میں لئے چلےگئے کہ
لازم ہےکہ ہم بھی دیکھیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
لیکن یہ طےہےکہ انقلاب یونہی اچانک نہیں آجاتا، پہلے تو دلوں کے بند دروازوں پر دستک دیتے دیتے کئی جانیں چلی جاتی ہیں، کئی دروازہ تو کھلوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن اس سے آ گے تک بڑھنے میں جان ہاردیتےہیں،لیکن یہ سب ایک نئی صبح کی کرنوں کو آپ کے بے نور آنگن میں پہنچا دیتے ہیں، اورپھر
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جولوح ازل میں لکھاہے
شروع ہوجاتا ہے، رات جتنی بھی تاریک کیوں نہ ہو، ایک نئی صبح کو اپنی آ ب وتاب سے طلوع ہونے سے نہیں روک سکتی، صبح کو آ کر ہی رہنا ہوتا ہے، اسے اب آپ انقلاب کا نام دے سکتے ہیں، انقلاب کے بارے میں بتاتا چلوں کہ اسے زندہ لوگ ہی لاسکتےہیں، مُردوں کا اس سے کیا لینے دینا؟؟ مردہ ضمیر والوں کو بھی تو شایدمردہ ہی کہتے ہیں ناں؟؟ انقلاب لچھے دار تقریروں سے نہیں آتا بلکہ عملی طور پر اس کے لیے کچھ کرنا پڑتا ہے، اب آئیے اصل موضوع کی طرف وزیراعظم عمران خان نے جب سے عنان حکومت سنبھالی ایک دن بتادیں کہ انہوں نے یوٹرن نہ لیا ہو، اپنی تقاریر میں احادیث اور صحابہ کرام کی زندگیوں کے حوالے دیتے نہیں تھکتے، کہ پہلے قومیں اس لئے برباد ہوئیں کہ امیروں کے لیے الگ اور غریبوں کیلئے الگ قانون تھے یا یہ کہ نبی کریم نے فرمایا کہ میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہ بھی خدانخواستہ چوری کرتیں تو ان کے بھی ہاتھ قلم کرنے کا حکم دیتا(آ پس کی بات ہے ان کی تمام تقاریر اٹھا کر دیکھ لو، ایک دو احادیث ہی یاد ہیں)۔ پی آ ئی سی پر وکلا حملے کا زخم ابھی تازہ ہے، پرسوں سے تمام چینلز پر فوٹیج چل رہی ہے جس میں پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے متمنی(دلوں کے بھید اللہ بہتر جانتا ہے) عمران خان کا اپنا بھانجا حسان نیازی توڑ پھوڑ میں پیش پیش ہے، پولیس گاڑی کو آگ لگانے والوں کے ساتھ ہے، بلکہ گاڑی کا دروازہ خود کھول رہا ہے، لیکن مجال ہے کہ کسی ایف آئی آر میں اس کا نام ہو، اسے گرفتار کرنے کی کسی میں جرا ت…… کرکے تو دکھائے؟؟ جناب حاکم وقت کا بھانجاہے، اطلاعاً عرض ہے کہ بھانجا صاحب پہلے ٹوئیٹ میں مکر گئے کہ وہ احتجاج میں شامل تھے، پھر تمام چینلز نے پتھراؤ کرتے دکھا دیا تو یو ٹرن لیتے معافی مانگ لی، بہرحال باتوں کی حد تک ٹھیک ہے، امیروں کیلئے علیحدہ غریب کیلئے علیحدہ قانون، جناب وزیراعظم نے ماضی میں دھرنے کےدوران نعروں و گانوں کی گونج میں سول نافرمانی کا حکم دے ڈالا، بجلی کا بل بھی جلا ڈالا لیکن موصوف کے دائیں کھڑے ترین نے نقصان کے خوف سے بل جمع کرائے، ان کی فیکٹریوں کی بجلی کٹنے سے کروڑوں کا یومیہ نقصان ہوتا، اب اقتدار کے مزے لوٹتے ملک اور عوام کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ اس مرتبہ شاید انقلاب گھروں میں داخل ہو چکا ہے، وکیلوں کی ابتداء سے لگتا ہے، غیرا علانیہ سول نافرمانی شروع ہو چکی ،دیکھو معاملہ کدھر تک جاتا ہے، وکلاء حضرات وزیراعظم کی بات یاد رکھیں کہ گھبرانا نہیں!!!!!! وہ آج کل میں وکٹری کا نشان بناتے باہر آجائیں گے، آ خر میں یاد رہے کہ انقلاب پرامن شاید ہی کبھی آیا ہو…………
فیس بک کمینٹ