گزشتہ روز میں اپنے پرانے کالج ایم اے او کالج کے سامنے سے گزراتو میں نے ڈرائیور سے بریک لگانے کو کہا میں نے اس کالج سے فرسٹ ائیر سے لے کر بی اے تک تعلیم حاصل کی تھی اور اس کے بعد اورینٹل کالج سے ایم اے کرنے کے بعد 25برس اس کالج میں پڑھایا بھی تھا۔ اس کالج سے میرا ’’خاندانی ‘‘رشتہ ہے۔امرتسرمیں یہ کالج اور ایک اسکول انجمن اسلامیہ چلاتی تھی۔ اور میرے والد ماجد مولانا بہاءالحق قاسمی 27برس تک ان اداروں سے وابستہ رہے تھے ۔ ایک لمحے کے لئے میرا جی چاہا کہ میں گاڑی گیٹ کے اندر لے جانے کو کہوں مگر پھرمیں نے سوچا کہ وہاں تو میری یادوں کے نشان بھی مٹ گئے ہیں۔ ہم اساتذہ کے لئے جو کمرے تھے ان کی جگہ کچھ اور بنا دیا گیا ہے۔ کلاس رومز کا نقشہ بھی بدل گیا ہے پھر سب سے بڑی بات وہاں میری ملاقات ڈاکٹر دلاور حسین، پروفیسر کاشف حسین جعفری سے بھی نہیں ہو سکے گی جو کالج کے پرنسپل رہے تھے اور ان کا شمار اپنے شعبوں کے بڑے لوگوں میں ہوتا تھا ۔ وہاں تو میرے کولیگ بھی نہیں ہیں ایس اے حامد جانے کہاں ہیں۔ خدا کرے وہ زندہ ہوں۔ نواز خان پہلے نابینا ہوا اور اس کے باوجود آخری دم تک کلاسیں لیتا رہا ایک دن پتہ چلا کہ وہ فوت ہو گیا ہے۔ دلدار پرویز بھٹی بھی اب وہاں نہیں ہے ۔ وہ کب کا اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے اور اپنے پروفیسر ارشد کیانی اورپروفیسر حفیظ صدیقی کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ یونس اصغر کے متعلق پتہ چلا ہے کہ وہ کم کم گھر سے نکلتا ہے۔ اور وہاں پروفیسر رفیق اختر، جسے ہم جوگی کہتے تھے کہ وہ پرانی انارکلی میں ایک کرائے کے مکان میں رہتا تھا جسے اس نے تالہ نہیں لگایا تھا جس کو لیگ کا جی چاہتا وہاں جا کر آرام کرتا اور اگر کھانے پینے کی کوئی چیز وہاں ہوتی تو اسے کھانے کی اجازت نہیں تھی ۔ کالج کے ایک پرنسپل غالباً پروفیسر طفیل نے سگریٹ نوشی پر پابندی لگائی تو انگریزی کے اس پروفیسر نے جو چین اسموکر تھا استعفیٰ دے دیا اور گوجر خان میں برتنوں کی دکان کھول لی۔ یہ گریٹ انٹیلیکچول تھا۔ اب بہت بڑا پیر بن گیا ہے۔ نہایت دلچسپ کمپنی اور دانش اس کے گھر کی غلام ہے اب وہ بھی کالج میں نہیں تھا میرا یار احسان الحق ، جس نے آٹھ شادیاں کیں ، آج کل کے پی کے میں ہے، میں کالج میں کس سے ملنے جاؤ ں ؟اس کے علاوہ پروفیسر ارشد بھٹی، پروفیسر افتخار بٹ اور کتنے ہی دوسرے دوست جن کے بارے میں کچھ پتہ نہیں کہاں ہیں مگر مجھے یہ سب یاد آتے ہیں۔ اللہ کرے جہاں بھی ہوں خوش ہوں۔
میں اس موقع پر اپنےپروفیسر طفیل دارا کو کیسے بھول سکتا ہوں، وہ فرسٹ ائیر سے بی اے تک میرے استاد تھے، ایم اے کر کے لیکچرر بنا تو وہ میرے کولیگ ہو گئے بعد میں وہ صدر شعبہ اردو بنے اور ظاہر ہے میں ان کے ماتحت ہو گیا۔ مگر ہم میں عجیب طرح کا رشتہ تھا وہ میرے دوست تھے اور میری شرارتوں کا اکثر کیا تقریباً روزانہ سامنا کرتے تھے۔ ایک دن دوسرے کو لیگز کے ساتھ میں ان کے کمرہ میں بیٹھا تھا اور اپنی اسموکنگ سے میں نے کمرہ دھواں دھار کیا ہوا تھا دارا صاحب مجھے کئی دفعہ سموکنگ سے منع کر چکے تھے اس دن جلال میں آ گئے اور غصے سے بھری آواز میں کہا ، پروفیسر صاحب آپ نے جب سگریٹ پینا ہوا کرے تو مجھے بتا دیا کریں میں کمرہ سے نکل جایا کروں گا ۔ میں نے جیب سے سگریٹ نکالا اور کہا ’’سر ذرا زحمت کریں میں سگریٹ پینا چاہتا ہوں ‘‘ جس پر کمرے میں ایک قہقہہ گونجا ایک مزے کی بات یہ کہ دارا صاحب مجھ لیکچررکو ہمیشہ پروفیسر صاحب ہی کہا کرتے تھے اور میں بھی جواباً انہیں پروفیسر صاحب کہتا تھا حالانکہ ہم دونوں ابھی پروفیسر نہیں بنے تھے۔ دارا صاحب شاعر بھی تھے اور باڈی بلڈر بھی ۔ انہوں نے اپنی کرسی کے پیچھے کی دیوار پر مسٹریونیورس کی تصویر لگائی ہوئی تھی اور سامنے والی دیوار پر غالب کی ، ایک دن خوشگوار موڈ میں تھے ، غالب کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے اسے مخاطب کیا اور کہا اوئے غالب نہ ہوا تو میرے دور میں تو میرے روبرو ہوتا تو تجھے پتہ چلتا کہ شاعری کیا انہوں نے اپنی کرسی کے پیچھے کی دیوار پر مسٹریونیورس کی تصویر لگائی ہوئی تھی اور سامنے والی دیوار پر غالب کی ، ایک دن خوشگوار موڈ میں تھے ، غالب کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے اسے مخاطب کیا اور کہا اوئے غالب نہ ہوا تو میرے دور میں تو میرے روبرو ہوتا تو تجھے بتاتا شاعری کیا ہوتی ہے؟میں بھی حاضر تھا وہاں تو مجھ سے رہا نہ گیا میں نے کہا پروفیسر صاحب غالب تو ایک شریف آدمی ہے آپ کے پیچھے مسٹریونیورس ہے یہ چیلنج اسے کریں۔ (جاری ہے)
( بشکریہ : روزنامہ جنگ )
فیس بک کمینٹ